’خلافت‘حکومت سازی کے لیے قابل تقلیدنمونہ

اسلامی طرز حکومت کے خلاف پروپیگنڈے کے اثرات ہر سطح پر نمایاں

نعیم الہندی ، نئی دلی

اکثر وبیشتر ہمارے ملک میں میڈیا اور سوشل میڈیا پر یہ دیکھا اور سنا جا رہا ہے کہ دنیا میں اسلام پسندوں کی کامیابی کے بعد خلافت کے نام سے اسلامی حکمرانی کے تصور کو فروغ ملے گا۔افسوس اس پر ہے کہ اسلامی حکمرانی کا یہ تصور انتہائی منفی انداز میں پیش کیا جا رہا ہے۔ اس کا اس طرح پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے جیسے یہ حکمرانی کا ایک نظام ہے جو بنی نوع انسان اور اس کے انسانی حقوق کے لیے خطرناک ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔
دنیا میں حضرت عمر بن عبد العزیز کے بعد ہم یہ دعویٰ نہیں کر سکتے کہ کہیں پر بھی اسلامی طرز حکمرانی کے تحت حکومت قائم ہوئی ہو یا پھر مستقبل قریب میں کہیں قائم ہو گی۔ کیونکہ خلافت کا جو تصور ہے اس میں انتہائی امن وامان، شہریوں کے ساتھ مکمل انصاف اور حقوق کی ادائیگی، نظام زکوٰۃ، دولت کی منصفانہ تقسیم، رعایا کا خیال، ان کے دکھ درد کا لحاظ اور غربت کو ختم کرنے کی کوششیں جیسی کئی خوبیاں ہیں جو ہمیں صرف اسلامی طرز حکمرانی میں ہی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ جس طرز کو ہم ’خلافت‘ کا نام دے سکتے ہیں ۔ اس کی انہی خصوصیات کی وجہ سے آج ظلم وجبر، نا انصافی اور بد امنی کے درمیان لوگوں کو اسلامی طرز حکومت کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ جو لوگ اس طرح کی حمکرانی کے خلاف ماحول بناتے ہیں وہ یاتو اس کی خوبیوں سے واقف نہیں ہیں یا عمداً اسے بدنام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اسلامی نظام کے خلاف اس پروپیگنڈے کو سمجھنے کے لیے ہمیں خلافت کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔
اسلامی نظام حکومت اور اس کی تاریخ
اسلامی تاریخ میں اگر ہم 571 AD سے 750 AD تک کے دور کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس میں پہلا دور حضرت محمد ﷺ کا دور ہے جس میں اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی گئی تھی جسے ہم مدینہ کی اربن گورننس کہہ سکتے ہیں۔خلفائے راشدین کا دوسرا دور 632 عیسوی سے 661 عیسوی تک جاری رہا جس میں حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی اور خلافت حضرت حسن کے 6 ماہ رہے۔ خلافت راشدہ کا مطلب ایسی خلافت جس کی رہنمائی کی گئی ہو ہوتا ہے، جس کا سیاسی اور سماجی نظام اسی بنیاد پر قائم ہو گا جو پیارے نبی حضرت محمد ﷺ نے اپنے دور میں رکھی تھی۔
خلفائے راشدین کے دور میں بھی بادشاہت دنیا کے ہر ملک میں اپنی جگہ موجود تھی لیکن خلافت راشدہ کا سیاسی نظام ان سب سے مختلف تھا اور اس کا شہنشاہیت سے کوئی دُور کا بھی تعلق نہیں تھا۔ خلیفہ کو شاہی ریاست کا حاکم ہونے کا پورا حق تھا لیکن وہ دو چیزوں تک محدود تھا۔ ایک، اسلامی قانون کی پابندی اور دوسرا، مشورے دینے کے قابل لوگوں سے مشاورت۔ باہمی مشاورت اور تقریر کی آزادی کے بعد خلفائے راشدین نے نہ صرف ذاتی طور پر انصاف کو ترجیح دی بلکہ اس کے احکامات ریاست کے شہزادوں کو بھی دیے کہ وہ اپنے ماتحتوں کے ساتھ انصاف کو یقینی بنائیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس زمانے میں ہر جگہ انصاف کے لیے عدالتیں قائم تھیں، جہاں مقدمات قاضی کے سامنے پیش کیے جاتے تھے۔ حکومت خود امیروں سے زکوٰۃ وصول کرکے اس کی رقم ضرورت مندوں کی مدد اور دوسرے اچھے کاموں پر خرچ کرتی تھی۔
حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کے زمانے میں امن وانصاف اور خوشحالی کا ایسا دور دورہ تھا کہ زکوٰۃ لے کر آدمی مستحقین کو تلاش کرتا پھرتا تھا۔ خلافت راشدہ کے 30 برسوں کے دوران سماجی اصلاحات کے میدان میں جو کارنامے انجام دیے گئے وہ نہ صرف یہ کہ ناقابل فراموش ہیں بلکہ قابل تقلید بھی ہیں۔ امن وانصاف، خوشحالی ایک دوسرے کا دکھ درد بانٹنے یا تعاون باہمی کی ایسی مثالیں عام ہوئیں کہ ’اسلامی خلافت‘ دنیا بھر میں ایک ناقابل تسخیر طاقت بن کر ابھری۔
ایک انگریز مورخ ایچ جی ویلز نے لکھا ہے کہ ’اسلام دوسری قوموں کے ساتھ الجھ گیا کیونکہ اس کے دور میں بہترین سیاسی اور سماجی نظام تھا۔ خلفائے راشدین کے دور میں جنگوں کی فتوحات نہ تو سکندر کی فتوحات سے کم تھیں اور نہ ہی رومیوں اور فارسیوں کی فتوحات سے کم، پھر بھی ان فتوحات میں قتل عام، لوٹ مار اور عورتوں کی تذلیل شامل نہیں تھی۔ بلکہ اسے زیادہ سے زیادہ ڈاکوؤں کے خلاف پولیس کی کارروائی سمجھا جا سکتا ہے۔ اس دور میں اخلاقیات اور تعلیم پر نظر رکھنا بھی حکومت کا فرض تھا اس لیے عصمت دری، شراب، جوئے جیسے سماجی جرائم کی سزا دی جاتی تھی۔ اس کے علاوہ غیر مسلموں کو اپنے اپنے مذاہب پر عمل کرنے کی مکمل آزادی تھی۔
ان خوبیوں اور ٹھوس کارناموں کی وجہ سے خلافت راشدہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک مثال اور ایک کامیاب نمونہ بن گئی۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی عالم اسلام میں ان کی حیثیت برقرار ہے۔ AD 661 میں خلافت راشدہ کے خاتمے کے بعد ملوکیت یعنی شہنشاہیت کا دور شروع ہوتا ہے جس میں بنو امیہ کے پہلے حکمران حضرت معاویہ تھے۔ بنو امیہ کی یہ بادشاہت 750 عیسوی تک رہی۔ یہ سلطنت رقبے کے لحاظ سے اتنی بڑی ہو چکی تھی جس کے مقابلے میں ایرانی اور رومی سلطنتیں اپنے وقت میں بہت چھوٹی محسوس ہوتی تھیں۔ اموی دور میں حکمران ذاتی طور پر دنیا کے دوسرے بادشاہوں کی طرح تھے۔ اس دور میں جو برائیاں نظر آتی ہیں وہ اس لیے نہیں ہیں کہ وہ اچھے مسلمان نہیں تھے یا ان کا ایمان مضبوط نہیں تھا بلکہ ان کی اصل وجہ شہنشاہیت کا نظام تھا۔ تاہم اس دور میں انصاف اور تربیت کا نظام حکومت کے ہاتھوں میں رہا جس کی وجہ سے شہنشاہیت اپنا اصلی رنگ نہیں دکھا سکی۔ اس کے باوجود عدالتوں کو جہاں تک ممکن ہو آزاد رکھنے کی کوشش کی گئی جس کے نتیجے میں عوام کو انصاف حاصل ہوتا رہا۔
مساوی انصاف
اس عرصے میں ضرورت کے مطابق کئی نئے عہدے قائم کیے گئے۔ جیسے کتابت، حاجب (دربان) یا چیف سکریٹری جن کی اجازت کے بغیر کوئی آدمی خلیفہ سے نہیں مل سکتا تھا۔ اس دور میں ڈاک کا نظام قائم ہوا۔ اس کے علاوہ سمندری فوج نے اتنی ترقی کی کہ مسلمان سب سے بڑی قوت بن گئے۔ اموی دور میں تعمیرات میں بہت پیش رفت ہوئی جس کی بہترین مثال قبۃ الصخرہ ہے جو بیت المقدس میں تعمیر کیا گیا۔ علم اور سائنس کے میدان میں صحابہ کرامؓ نے بڑا نام کیا۔ بالخصوص حضرت عبداللہ بن عباس، عبداللہ بن عمر، حضرت عائشہ، حضرت ابوہریرہ، حضرت جابر بن عبداللہ، حضرت انس بن مالک وغیرہ تھے۔ دوسرے دور میں تابعین نے یہ کام انجام دیے جیسے سعید بن مسیب وغیرہ۔
ہشام بن عبدالملک کی وفات کے بعد اس طرز حکمرانی کا زوال شروع ہوتا ہے چنانچہ 750 عیسوی میں 7 سال کے اندر عباسیوں نے بنو امیہ کو مکمل طور پر حکومت سے بے دخل کر دیا۔
اسلامی نظام حکومت ’خلافت‘ کے بارے میں کوئی مفروضہ قائم کرنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ ہم منطق کی بنیاد پر کسی تعصب کے بغیر اس نظام حکومت کو سمجھنے کی کوشش کریں جس کی بنیاد پر وہ تمام سوالات کسی بھی عقل مند سے پوچھے جا سکتے ہیں یا کسی شخص کے ذہن میں دلائل پیدا ہو سکتے ہیں کہ انسانیت کے لیے یہ گورننس سسٹم کتنا فائدہ مند ہے؟ معاصر حالات میں یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟ اس کے بہترین عوامی مفاد اور فلاحی نظام کے دعوے کی بنیاد کیا ہے؟ نیز اس نظام حکومت کے خلاف پروپیگنڈے اور غلط فہمیوں کے بڑھنے کی کیا وجوہات ہیں؟
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 12 ستمبر تا 18 ستمبر 2021