خبر و نظر

پرواز رحمانی

افغانستان کی تصویر
افغانستان میں طالبان کے اقتدار کی تصویر اب آہستہ آہستہ صاف ہورہی ہے۔ اس سلسلے کا سب سے اہم واقعہ 20اکتوبر کو ماسکو میں دس ملکوں کا وہ مشترکہ بیان ہے جس میں افغانستان میں نیو رئیلٹی (حقیقت حال) کو تسلیم کیا گیا ہے۔ اور حقیقت حال یہ ہے کہ افغانستان میں طالبان کا اقتدار قائم ہوچکا ہے۔ اگرچہ طالبان کی حکومت کو کسی ملک نے ہنوز تسلیم نہیں کیا۔ ان دس ملکوں نے بھی نہیں تاہم وہ اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ افغانستان پر طالبان اس وقت حاکم ہیں۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ متذکرہ دس ملکوں میں بھارت بھی شامل ہے۔ مشترکہ بیان پر بھارت نے بھی دستخط کیے ہیں اور یہ پہلا موقع ہے کہ حکومت ہند نے طالبان کے ساتھ اس قدر قریبی ربط قائم کیا ہے، ورنہ اس سے قبل ہماری حکومت نے طالبان کے بارے میں ہمیشہ پس و پیش اور تذبذب کا مظاہرہ کیا۔ گوکہ دوحہ میں حکومت ہند کے سفیر نے طالبان کے نمائندوں سے کئی بار مذاکرات کیے۔ پوری دنیا کا یہی حال ہے امریکہ تو اس ادھیڑ بن میں لگا ہوا ہے کہ افغانستان میں طالبان کو کسی طرح جمنے نہ دیا جائے۔ ماسکو کی میٹنگ میں بھی وہ شریک نہیں ہوا۔

رخ واضح ہے
ماسکو میں جن ملکوں نے طالبان حامی بیان پر دستخط کیے ہیں ان میں چین، روس، ایران، پاکستان، قزاقستان، کرغستان، تاجکستان، ترکمانستان، ازبکستان اور ہندوستان شامل ہیں۔ سفیر ہند نے طالبان حکومت کے نائب وزیراعظم سے ملاقات بھی کی ۔ اس بیان سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ طالبان کو سمجھنے میں ماضی میں دنیا نے جو غلطی کی تھی اب وہ اسے دہرانا نہیں چاہتی ۔ یا اپنے طور پر یہ ممالک یہ سمجھ سکتےہیں کہ بیس سال قبل طالبان نےجو غلطیاں کی تھیں اب نہیں کریں گے۔ بہر کیف امر واقعہ یہ ہے کہ طالبان افغانستان میں دوبارہ مضبوط ہوچکے ہیں اور وہ دنیا کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں۔ ماسکو کے بیان سے دنیا کا رخ بھی واضح ہوچکا ہے۔ بس طالبان کو کوئی خطرہ ہوسکتا ہے تو وہ امریکہ کی خفیہ ایجنسی سی آئی اے اور اسرائیل کی موساد ہے۔ بیس سال قبل افغانستان میں طالبان کے آنے سے سب سے بڑا نقصان امریکہ کے منشیات فروشوں کو ہوا تھا، جو افغانستان میں حشیش اور پوست کی کاشت کرکے دنیا میں پھیلارہے تھے اور اس سے اربوں ڈالر کمارہے تھے۔ سی آئی اے اور موساد ایجنسیاں ان کے ساتھ تھیں۔

طالبان کو باخبر رہنا ہوگا
جہاں تک عالمی امت مسلمہ کا تعلق ہے ، اس کے بڑے حصے نے ماضی میں بھی طالبان کو غلط نہیں سمجھا تھا، ہاں ان کی بعض غلطیوں اور کمزوریوں پر اس کی نظر تھی اور امت چاہتی تھی کہ طالبان یہ غیر حکیمانہ کام نہ کریں اس سے ان کے دشمنوں کو خواہ مخواہ شرارتوں کا موقع ملتا ہے اور وہ انہیں بڑھا چڑھا کر دنیا کے سامنے پیش کرکے ان کے خلاف پروپیگنڈا کرتے ہیں۔ امت کا موقف آج بھی یہی ہے۔ اگر طالبان کو سکون سے کام کرنے دیا جائے تو وہ اسلامی طرز معاشرت و معیشت کا ایک نمونہ دنیا کے سامنے پیش کرسکتے ہیں۔ اسرائیل اور امریکہ کو سب سے بڑا خطرہ یہی ہے۔ اس لیے انہوں نے قسم کھا رکھی ہے کہ دنیا میں کہیں بھی حتی کہ خود مسلم ملکوں میں بھی اسلامی نظام حکومت قائم ہونے نہیں دیں گے۔ ماضی میں کسی چھوٹے سے چھوٹے مسلم ملک میں بھی اگر اسلامی طرز حکومت کا تجربہ کیا گیا تو اسرائیل ، امریکہ اور ان کے نمک خواروں نے مل کر اسے سبوتاژ کردیا اور بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ کئی مالدار مسلم ملکوں نے بھی دشمنان اسلام کی مدد کی اور آج بھی کرتے ہیں۔ بلکہ اب تو یہ مسلم مملکتیں اسرائیل کو گلے لگارہی ہیں ۔ طالبان کو ان حقائق سے باخبر رہنا ہوگا۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  31 اکتوبر تا 6 نومبر 2021