خبر و نظر

پرواز رحمانی

حکمراں طبقے کی ایک اور مشکل
موجودہ حکمراں حلقے کی ایک مشکل یہ ہے کہ اسے اپنے ہیروز کی فکر ہے کہ سوسائٹی میں ان کی بہتر تصویر سازی کیسے کی جائے۔ ان لوگوں کے پاس ہندتوا کے چند لیڈر ہیں جنہوں نے کٹر ہندوتوا نظریہ کی بنیاد ڈالی تھی لیکن ملک کی آزادی میں ان کا کوئی حصہ نہیں تھا، بلکہ وہ آزادی کے مخالف اور انگریزی حکومت کے معاون تھے۔ اس سے قبل ایسٹ انڈیا کمپنی کو مضبوط بنانے میں بھی ان کا بہت کام تھا۔ انگریزی حکومت کے رسد رسانی وغیرہ کے ٹھیکے انہی کے پاس ہوا کرتے تھے۔ بینکم چٹرجی نے اپنے ناول آنند مٹھ میں حاکموں کی حیثیت سے انگریزوں کی آمد کا استقبال کیا تھا۔ اب اس حلقے کے سامنے یہ سوال ہے کہ عظیم لیڈروں کے طور پر ان کی صورت گری کس طرح کی جائے۔ ہندوستانی عوام بحیثیت مجموعی گاندھی جی اور آل انڈیا کانگریس ہی کو آزادی دہندہ اور ہیرو تسلیم کرتے ہیں۔ وہ بھگوا حلقے کو آزادی کی جدوجہد میں حصے دار نہیں مانتے، اور یہ حلقہ ہے کہ خود کو ہی آزادی دہندہ منوانا چاہتا ہے۔ جنگ آزادی کے حقیقی جنگجوؤں کو تاریخ سے ہٹا دینا چاہتا ہے۔ مسلمانوں کا نام تو آزادی کی تاریخ میں دیکھنا بھی نہیں چاہتا۔

وزیر دفاع کا بیان
اب ایک بیان میں وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے کہا ہے کہ گاندھی جی نے وی ڈی ساورکر سے کہا تھا کہ وی انگریزی حکومت سے معافی مانگیں۔ ساورکر ان دنوں کالا پانی کی سزا کاٹ رہے تھے۔ گاندھی جی کا کہنا تھا کہ ساورکر کو انگریزی حکومت کو خط لکھ کر معافی مانگنی چاہیے۔ راجناتھ سنگھ کے اس انکشاف سے ہندتوا حلقوں میں بدحواسی پائی جاتی ہے۔ مسٹر سنگھ ہندوتوا سے قدرے مختلف سوچ رکھتے ہیں۔ انہوں نے یہ انکشاف کیوں کیا، یہ معلوم نہ ہوسکا۔ ساورکر ہندوتوا نظریے کے بانیوں میں سمجھے جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ وہ انگریزی حکومت کے شدید مخالف تھے۔ یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ گاندھی جی نے ساورکر کو یہ مشورہ کہاں سے اور کیوں دیا تھا۔ کیوں کہ یہ واقعہ 1911ء اور 1914ء کا سمجھا جاتا ہے۔ ان دنوں گاندھی جی بھارت میں موجود ہی نہیں تھے بلکہ جنوبی افریقہ میں تھے اور وکالت کرتے تھے۔ اس وقت ہندوستان میں موجود ملکی لیڈر اپنے طور پر آزادی ہند کی تحریک چلارہے تھے جن میں پنڈت نہرو، مولانا آزاد، سردار پٹیل اور سبھاش چندر بوس نمایاں تھے۔ گاندھی جی بیسیویں صدی کی تیسری دہائی کے آغاز میں بھارت آئے تھے اور ہندو مسلم اتحاد کا نعرہ لگایا تھا جب کہ ان دنوں ہندو مسلم کشیدگی نام کی کوئی چیز موجود نہیں تھی سب ایک تھے۔

صحیح تاریخ لکھیے
جہاں تک ہندوتوا لیڈروں کے معافی مانگنے کا سوال ہے، یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس زمانے میں برٹش گورنمنٹ سے بہت سے لیڈر معافی مانگ کر جیلوں سے باہر آئے تھے۔ سنگھ نے آزادی کے بعد بھی یہ تاریخ دہرائی تھی۔ 1975ء میں جب اندرا گاندھی نے ایمرجنسی نافذ کر کے آر ایس ایس پر پابندی عائد کر دی تو ان کے لیڈر یہ بیان لکھوا کر کہ ان کا تعلق آر ایس ایس سے نہیں بلکہ جن سنگھ سے ہے اور جن سنگھ پر پابندی نہیں ہے، جیلوں سے باہر آئے تھے۔ ہندوتوا لیڈروں کی موجودہ تشویش کی وجہ سے مشہور مورخ ڈاکٹر جھا یہ بتاتے ہیں کہ آزادی کی کوششوں میں چونکہ ان لوگوں کا حصہ نہیں رہا، اس لیے اب وہ جنگ آزادی ہی کو نا مناسب بتاکر اس میں حصہ لینے والوں کو مطعون کر رہے ہیں۔ یہ سوال دیگر دانشور بھی اٹھاتے ہیں۔ اس لیے مناسب ہو گا کہ موجودہ حکومت اور آر ایس ایس اس کی وضاحت کریں۔ بہتر ہو گا کہ ’’جنگ آزادی میں کون کہاں تھا‘‘ کے نام سے ایک کتاب کی تیاری کے لیے ایک ہمہ گیر کمیٹی تشکیل دی جائے اور یہ مختلف الخیال کمیٹی آزادی کے ساتھ بالکل خالی الذہن ہو کر کتاب ترتیب دے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 24 تا 30 اکتوبر 2021