خبر و نظر

پرواز رحمانی

 

مسلم دنیا سے اچھی خبر
سعودی ولی عہد پرنس محمد بن سلمان نے ایک تازہ انٹرویو میں کہا ہے کہ ایران اور سعودی عرب کے مفادات ایک دوسرے سے وابستہ ہیں اس لیے باہمی تلخی ترک کر کے دونوں ملکوں کو باہم قریب آنا چاہیے۔ ولی عہد کے اس بیان کا پس منظر یہ ہے کہ دونوں ملکوں نے حال ہی میں باہمی دلچسپی کے امور پر بغداد میں مذاکرات کیے تھے۔ ان مذاکرات کی خبر کو خفیہ رکھا گیا تھا۔ اب یہ انٹرویو بتا رہا ہے کہ بغداد کے مذاکرات حوصلہ افزا رہے تھے۔ ولی عہد نے مزید کہا کہ ایران ہمارا قریبی پڑوسی ملک ہے۔ ہم اس کے ساتھ خوش گوار تعلقات رکھتے ہوئے اس کی ترقی کے خواہاں ہیں۔ پرنس کے مطابق بعض امور میں ایران کا طرز عمل منفی ضرور ہے تاہم امید ہے وہ اس سلسلے میں اپنی اصلاح کر لے گا۔ مسلم دنیا کے ان دون اہم ملکوں کے مابین یہ خوشگوار پہل یقیناً خوش آئند ہے خصوصاً ان مسلم عوام کے لیے جو دنیا کی موجودہ صورتحال میں امت مسلمہ کے لیے فکر مند رہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ یہ دونوں ممالک مشترک طور پر مسلم دنیا کی قیادت کریں اور اسے عالمی سازشوں سے محفوظ رکھنے کی تدابیر سوچیں۔ باخبر مسلمان جانتے ہیں کہ دونوں ملکوں میں عالم اسلام پر برتری حاصل کرنے کے لیے ایک عرصے سے کشمکش جاری ہے۔
آغاز تو اچھا ہے
ہر چند کہ ولی عہد کے اس انٹرویو میں تعلقات میں بہتری کے لیے کسی منصوبے کا ذکر نہیں اور نہ مذاکرات کی تاریخیں ہیں لیکن امت کے لیے اسے بہرحال خوش آئند کہا جائے گا۔ امت کو خوش اور مطمئن کرنے کے لیے سعودی ولی عہد نے کچھ اور خوش کن باتیں کہی ہیں۔ ایک اور انٹرویو میں کہا ’’قرآن ہی سعودی عرب کا دستور ہے اور آئندہ بھی رہے گا اور مملکت ہر شعبے میں قرآن سے رہنمائی حاصل کرتی رہے گی‘‘۔ یہ بیان ویژن 2030 پروگرام کے آغاز کے پانچ سال پورے ہونے کے موقع پر دیا گیا۔ قرآن سے متعلق یہ بھاری بھرکم بیان مملکت کے بہی خواہوں اور اس کے بے داغ وفا داروں کے لیے یقیناً اچھا سرمایہ ہے۔ ورنہ مملکت کی عملی زندگی میں یہ کہیں نظر نہیں آتا۔ اس کے برعکس وہاں امریکہ کے بے ہودہ کلچر کی جھلکیاں اور اسرائیلی علامات صاف دکھائی دیتی ہیں۔ اس صورتحال پر دنیا بھر کے مسلم عوام میں بے چینی پائی جاتی ہے۔ ایران کے ساتھ خوش گوار تعلقات کی خواہش خلیج کی دوسری مملکتوں کے اندر بھی دیکھی جا رہی ہے۔ ابھی 29 اپریل کو ایران کے وزیر خارجہ وزیر محمد جواد ظریف نے کویت کا دورہ کیا۔ اس سے قبل ظریف نے قطر، ایران اور عمان کا دورہ کیا تھا۔ بڑی اچھی بات ہے کہ عرب مملکتوں اور ایران کے درمیان سفارتی قربت بڑھ رہی ہے۔ اگرچہ ابھی صرف آغاز ہے۔ اسلام کے ازلی دشمنوں کی نظر بھی لگ سکتی ہے۔ دعا کرنی چاہیے کہ یہ آغاز اپنے انجام تک پہنچے۔
بہتر انجام کی دعا کیجیے
اسلام اور عالم اسلام کے خلاف شیطانی سازشیں روز اول سے کام کر رہی ہیں۔ فی زمانہ اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ امریکہ، اسرائیل اور دیگر طاقتیں مسلم ملکوں کے اتحاد کی دشمن ہیں۔ ایران اور سنی ملکوں کے درمیان ایک بڑا فیکٹر مل گیا ہے۔ مسلک کا فیکٹر۔ علاوہ ازیں خود مسلم دنیا میں یہ چیز کام کرتی ہے چونکہ مالدار مسلم ملکوں کے سر پر امریکہ بہادر نے اپنا دست شفقت رکھا ہوا ہے۔ اس لیے یہ مسلم مملکتیں مسلک کے نام پر ایران سے دور رہتی ہیں حالانکہ ایران اور سنی ملکوں میں دین اسلام مشترک ہے، قرآن مشترک، بنیادی اسلامی احکام مشترک ہیں۔ رہے اختلافی مسائل تو جب وہ 14 صدیوں میں حل نہیں ہو سکے تو انہیں آخرت کے سپرد کیا جانا ہی بہتر ہے۔ اللہ فیصلہ کر دے گا۔ جو چیزیں مشترک ہیں انہیں کام میں کیوں نہ لایا جائے۔ سعودی ولی عہد کے انٹرویو میں اسلام اور امت کا حوالہ کہیں نہیں ہے پھر بھی امید رکھنی چاہیے کہ جب سفارتی اور سیاسی قربت بڑھے گی تو یہ قدر مشترک بھی اپنا کام کرے گی۔ امریکہ اور اسرائیل ہرگز نہیں چاہیں گے کہ مسلم ملکوں کے باہمی تعلقات مستحکم ہوں۔ گلف تو پوری طرح امریکہ اور اسرائیل کی گرفت میں ہے لیکن اس کے باوجود ولی عہد نے بات کرنے کی جرات کی ہے تو کچھ سوچ سمجھ کر ہی کی ہو گی۔ اس لیے مسلم عوام کو اللہ سے بہتری کی توقع رکھنی چاہیے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 9 مئی تا 15 مئی 2021