خبر و نظر

پرواز رحمانی

 

برأت کے بعد
ہمارے ملک میں پولیس، قانون اور سیاست کی دھاندلیوں کے قصے بہت مشہور ہیں۔ گزشتہ 40 پینتالیس سالوں سے یہ ہو رہا ہے کہ پولیس کسی بھی بے گناہ یا کچھ غیر متعلق افراد کو دہشت گردی کے الزام میں دھر لیتی ہے اور ان پر بے پناہ ظلم کرتی ہے۔ ان کے بارے میں طرح طرح کی کہانیاں بنا کر ان کے متعلقین کی زندگیاں اجیرن بنا دی جاتی ہیں لیکن اکثر معاملات میں بالآخر عدالتیں انہیں بری کر دیتی ہیں۔ ایسا ہی ایک واقعہ ابھی ابھی پیش آیا ہے۔ مئی 2008 میں راجستھان کے شہر جے پور میں سلسلہ وار کئی دھماکے ہوئے تھے جس کے بعد چار پانچ مسلم نوجوانوں کو پکڑ لیا گیا تھ، ان میں شہباز احمد نامی نوجوان بھی تھا۔ اس پر جملہ 9 مقدمات قائم کیے گئے تھے۔ 25 فروری کو ہائی کورٹ نے سات مقدمات میں اسے بری کر دیا اور دو مقدمات میں ضمانت پر اس کی رہائی عمل میں آئی۔ ان مقدمات میں مولانا ارشد مدنی کی جمیعۃ علما نے خاص طور سے کوشش کی تھی۔ شبہاز احمد کی رہائی سے مولانا ارشد مدنی بہت خوش ہیں مگر ان کے سامنے یہ سوال ہے کہ شہباز احمد کے جو بارہ سال انتہائی کسمپرسی اور مصائب و آلام میں گزرے ان کا کیا ہو گا؟ اس کی تلافی کون کرے گا اور کیسے کرے گا؟
جواب کس کے پاس ہے؟
ہاں یہ بہت اہم سوال ہے اور ایسے مواقع پر لازماً سامنے آتا ہے مگر جواب کوئی نہیں دیتا۔ جواب صرف حکومت اور پولیس کے پاس ہے مگر وہ دینا نہیں چاہتے اس لیے کہ معاملے میں وہ خود فریق ہیں۔ یہ سوال حقوق انسانی اور شہری حقوق کی تنظیموں نے بھی اٹھایا ہے لیکن لا حاصل۔ پولیس اور ایڈمنسٹریشن کی ان زیادتیوں سے اب تک ہزاروں نوجوان تباہ و برباد ہو کر زندہ درگور ہو چکے ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں ان کے متعلقین کی زندگیاں اجڑ چکی ہیں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ان بے گناہوں کے ناکردہ جرائم کی سزا ان کی پوری کمیونٹی کو بھگتنی پڑتی ہے۔ لوگ دین اسلام کے بارے میں بے ہودہ باتیں کرنے لگتے ہیں اور مسلمانوں کو دفاعی پوزیشن اختیار کرنی پڑتی ہے۔ جو مسلم نوجوان پولیس کے فرضی انکاونٹر میں مارے جاتے ہیں ان کا حساب علحیدہ ہے۔ اس صورت حال کا نوٹس کسی سیاسی پارٹی نے نہیں لیا۔ کوئی عدالت اس پر توجہ نہیں دیتی۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ ماہرین اور شہری و حقوق انسانی کے حلقے یہ نازک مسئلہ باقاعدہ اپنے ہاتھ میں لیتے اور اسے حکومت، سیاسی پارٹیوں اور عدالتوں کے سامنے اٹھاتے۔
مسلم جماعتیں پہل کریں
بے گناہوں اور غیر متعلق افراد کو محض شک و شبہ کی بنیاد پر یا بعض اوقات اس کے بغیر ہی دھر لینا ملکی سماج کا بہت بڑا اور پیچیدہ مسئلہ ہے۔ بے گناہ پر مصائب و آلام کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ پولیس کی کارروائی سے اس کی خانگی اور سماجی زندگی غارت ہو کر رہ جاتی ہے۔ اس کے یا اس کی کمیونٹی کے مخالف شر پسند سماج میں اپنے ہاتھ دکھاتے ہیں۔ آج کل سوشل میڈیا بھی میدان میں ہے اور اپنا رول ادا کر رہا ہے۔ پھر عدالتیں بھی اپنا کام کرتی ہیں۔ ججوں کا معاملہ یہ ہے کہ اگر ان کی تعلیم اور پرورش ایک مخصوص ماحول میں ہوتی ہو تو وہ جج کے بجائے اس ماحول کا رول ادا کرتے ہیں اور اس طرح پانچ دس بیس سال گزر جاتے ہیں۔ بعض اوقات ایک اور طرفہ تماشا دیکھا جاتا ہے۔ خود ملزم کی اپنی برادری اور اپنے فرقے کے لوگ بھی اس سے کنارہ کشی اختیار کر لیتے ہیں اور اس طرح پورا فرقہ متاثر ہو جاتا ہے۔ چند سال قبل دلی کے ایک نوجوان کے واقعے میں یہی سب دیکھا گیا تھا۔ مولانا ارشد مدنی نے شہباز خان کے بارہ برسوں کا ذکر کیا ہے۔ کیا اچھا ہو اگر جمیعۃ علما ہند، جماعت اسلامی ہند، انڈین یونین مسلم لیگ، مجلس اتحاد المسلمین، ملی کونسل اور ویلفیر پارٹی مل جل کر یہ مسئلہ حکومت اور عدلیہ کے سامنے رکھیں۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 7 مارچ تا 13 مارچ 2021