خبرو نظر

پرواز رحمانی

سپریم کورٹ کو غصہ کیوں آیا؟
۳؍ ستمبر کو عدالت عظمیٰ نے میڈیا بالخصوص سوشل میڈیا پر شدید برہمی کا اظہار کیا کہ میڈیا کے ایک حصے نے ہر واقعے کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کو اپنا وطیرہ بنا رکھا ہے۔ سوشل میڈیا تو بے لگام آزادانہ رول ادا کر رہا ہے، وہ جو چاہتا ہے پھیلا دیتا ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس پر کسی کا کنٹرول ہی نہیں ہے، وہ کسی کی نہیں سنتا، ججوں کی بھی نہیں۔ میڈیا صرف اہم لوگوں (وی آئی پیز) کی بات سنتا ہے اور اسی کو پھیلاتا ہے۔ میڈیا نے تبلیغی جماعت کے سلسلے میں نہایت غلط رول ادا کیا ہے۔ یہ جھوٹ پھیلا رہا ہے کہ تبلیغی جماعت میں بیرونی ممالک سے جو لوگ آتے ہیں کورونا انہی کی وجہ سے پھیلا۔ عدالت نے کہا کہ میڈیا کے اس غلط رویے کی وجہ سے ملک کی بدنامی ہو رہی ہے۔ چیف جسٹس آف انڈیا این وی رمنا کی بنچ نے میڈیا پر یہ تبصرہ ان درخواستوں اور اپیلوں پر سماعت کے دوران کیا جو شمال مشرقی دلی کے فرقہ وارانہ فسادات اور اسی قسم کے کچھ اور معاملات میں ملک کی مختلف عدالتوں کو موصول ہوئی تھیں۔ عدالت عظمیٰ نے ان تمام درخواستوں کو یکجا کرنے کا حکم دیا تھا۔ میڈیا نے شمال مشرقی دلی کے فسادات میں انتہائی گھناونا رول ادا کیا تھا۔ اسی طرح میڈیا نے کورونا وائرس کو تبلیغی جماعت کی سوغات بتا کر شیطانی کردار کا ثبوت دیا تھا۔ سوشل میڈیا کا طریقہ نہایت گھناونا تھا۔

ایک کردار اور بھی ہے
کورونا اور تبلیغی جماعت کے بارے میں سپریم کورٹ نے میڈیا کی دھاندلی کا ذکر تو کیا اور بہت خوب کیا لیکن اس سلسلے کا ایک شر انگیز کردار اور بھی ہے جس کی وجہ سے میڈیا کو بڑے پیمانے پر تبلیغی جماعت کو بدنام کرنے کا موقع ہاتھ آیا، وہ کردار ہے ملک کے وزیر اعظم کا۔ جس دن میڈیا نے پہلی بار کورونا کے بارے میں بستی نظام الدین کا شوشہ چھوڑا اسی دن وزیر اعظم نے برملا اعلان کیا کہ ’’نظام الدین ہمارے لیے ایک بڑا چیلنج ہے‘‘۔ اس کے بعد میڈیا میں ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔ کیا مین اسٹریم میڈیا اور کیا سوشل میڈیا ہر جگہ بس کورونا اور تبلیغی جماعت کے بارے میں جھوٹی سچی کہانیاں سنائی جانے لگیں۔ اِدھر ہندوتوا کا کیڈر جو پہلے سے ہی ایسے کاموں کے لیے تیار بیٹھا تھا، اس نے بھی میڈیا کے سہارے اس جھوٹ کو خوب پھیلایا۔ شمال مشرقی دلی کے فسادات کو نئے نئے زاویے دیے جانے لگے اور اُدھر دلی پولیس اپنا روایتی رول نبھاتی رہی۔ گویا میڈیا نے رائی کو پربت بنانے اور جلتی پر تیل ڈالنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ جہاں سے جو ہاتھ لگا اسے پہاڑ بنا دیا۔ بعض اوقات اس کا بھی انتظار نہیں کیا گیا بلکہ جو دل میں آیا اسے بیان کرنا شروع کر دیا۔ پھر کچھ بد زبان لوگ بھی میدان میں آگئے انہوں نے ایک مخصوص مذہبی فرقے کو ہدف بناکر اچھل کود شروع کر دی۔

یہ بالکل درست ہے
عدالت کا یہ کہنا کہ میڈیا ہر بات اور ہر واقعے کو فرقہ وارانہ رخ سے دیکھتا ہے پوری طرح درست ہے۔ کہیں لوگوں کے درمیان تُو تُو مَیں مَیں ہوجائے کوئی ناگہانی واقعہ پیش آجائے یا کہیں کچھ بھی ہوجائے میڈیا اسے فی الفور فرقہ وارانہ رنگ دے دیتا ہے جس کے بعد ہندوتوا بریگیڈ اپنا ناپاک کھیل کھیلنا شروع کر دیتا ہے جس سے حالات لازماً بگڑ جاتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے میڈیا کے تعلق سے جس بڑی حقیقت کی جانب اشارہ کیا ہے ملک کے دانشوروں اور سرکردہ افراد کو اس پر ضرور توجہ دینی چاہیے۔ ایک بات یہ بھی ذہن میں رہے کہ منفی اور فرقہ وارانہ سوچ رکھنے والے افراد زندگی کے ہر شعبے میں موجود ہیں۔ محکمہ پولیس، کارپوریٹ، بیورو کریسی حتیٰ کہ ججوں کی برادری بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ چنانچہ ابھی یکم ستمبر کو الٰہ آباد ہائیکورٹ کے ایک جج نے گاو کشی کے مبینہ ملزم کی درخواست ضمانت مسترد کرتے ہوئے کہا کہ گائے کو قومی مویشی قرار دے کر گاو کے تحفظ کو ہندووں کا بنیادی حق تسلیم کیا جائے۔ جج نے اور بھی بہت کچھ کہا ہے۔ سوسائٹی کو ان تمام باتوں کا نوٹس لینا ہو گا۔ یہاں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ میڈیا کا رول اور اس سے متاثر افراد کی سرگرمیوں کا خاص ہدف مسلم شہری ہیں۔ لہٰذا مسلمانوں کو بہت ضبط اور احتیاط سے کام لینا ہو گا۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 12 ستمبر تا 18 ستمبر 2021