خبرونظر

پرواز رحمانی

 

یونیفارم سول کوڈ
یہ دہلی ہائی کورٹ کی ایک جج صاحبہ کو بیٹھے بٹھائے اچانک کیا سوجھی کہ پرسنل لا کے ایک عمومی معاملہ میں ایک بڑی رولنگ یہ سنادی کہ اب یونیفارم سول کوڈ بن جانا چاہیے تاکہ نئی نسل کے لوگوں کو اب فرسودہ سماجی اور مذہبی امور میں الجھنا نہ پڑے۔ معاملہ صرف یہ تھا کہ ایک پٹیشن میں 1955 کے ہندو میرج ایکٹ کی ایک عام دفعہ کو چیلنج کیا گیا تھا کہ یہ اس مقدمہ میں نافذ العمل نہیں ہے۔ راجستھان کی مینا برادری کے ایک جوڑے کی شادی ہندو میرج ایکٹ کے مطابق ہوئی تھی۔ مگر بعد میں شوہر نے اسی ایکٹ کے تحت طلاق کی درخواست د ے دی جب کہ بیوی کا کہنا تھا کہ ہم مینا برادری والے باقاعدہ ایک شیڈیولڈ قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے متعلقہ ایکٹ کا اطلاق ہم پر نہیں ہوتا۔ اس پر غور کرنے کے بعد ہائی کورٹ کی جسٹس پریتبھا این سنگھ کے دماغ میں یہ بات آئی کہ پرسنل لا کے یہ سارے الجھاو یونیفارم سول کوڈ نہ ہونے کی وجہ سے ہیں لہٰذا حکومت کو اب جلد سے جلد یہ کوڈ بنا دینا چاہیے۔ جسٹس نے لا منسٹری کے سکریٹری آف لا اینڈ جسٹس کو فی الفور مسیج بھجوایا کہ اس معاملے میں فوراً کارروائی کریں۔ جسٹس صاحبہ نے سپریم کورٹ کے حوالے سے بتایا کہ کورٹ نے 1958میں امید ظاہر کی تھی کہ دستور کی دفعہ 44 کے تحت تمام شہریوں کے لیے یکساں سیول کوڈ بنانے کی جو بات کہی گئی تھی اس پر عمل ہونا چاہیے۔

یہ یکساں کوڈ کیا ہے؟
گزشتہ دس پندرہ برسوں سے دیکھا جا رہا ہے کہ حکومت اور سیاسی پارٹیوں کے مقابلے میں کچھ جج صاحبان یکساں کوڈ کے سلسلے میں زیادہ ہی جوش دکھا رہے ہیں۔ وہ وقتاً فوقتاً حکومت پر زور دیتے ہیں بلکہ طنز کرتے ہیں کہ حکومت یونیفارم کوڈ کے معاملے میں بے حس کیوں بنی ہوئی ہے۔ درست ہے کہ یہ جج صاحبان بھی ملکی سوسائٹی کا حصہ ہیں۔ سماجی وملکی امور کی فکر انہیں بھی ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ آئی اے ایس، پولیس اور عدلیہ کے حکام کی بڑی تعداد ایک مخصوص ذہن وفکر کے ساتھ آتی ہے۔ اس ذہن وفکر کی حامل تنظیمیں ان پر آزادی کے بعد سے کام کر رہی ہیں، لیکن یہ کیا کہ موقع ہو نہ ہو اپنے دل کی بات کسی نہ کسی پیرائے میں ضرور کہی جائے؟ پھر یہ بھی سچ ہے کہ یکساں سول کوڈ کا نعرہ بلند کرنے والوں کا پہلا ہدف مذہبی اقلیتیں بالخصوص مسلمان ہیں۔ جب کبھی اس نوعیت کی خبر آتی ہے تو سب سے پہلے مسلمان ہی فکر مند ہو جاتے ہیں۔ اس لیے کہ جب بھی یونیفارم سول کوڈ جیسی کوئی چیز بنے گی تو اس کا وار سب سے پہلے شریعت اسلامی پر ہی ہو گا۔ حالانکہ یکساں سول کوڈ والوں کا دعویٰ ہے کہ مجوزہ کوڈ میں سبھی مذاہب سے کچھ نہ کچھ لیا جائے گا۔ سب سے زیادہ دفعات اسلام سے لی جائیں گی۔ گویا اسلامی شریعت سب سے کم متاثر ہوگی۔ زیادہ متاثر ہندو مت اور دیگر مذاہب ہوں گے۔

مسلمانوں کا موقف
لیکن ادھر اہل اسلام اور ان کے علما کا کہنا ہے کہ اگر مجوزہ یکساں کوڈ ایک ہزار دفعات پر مشتمل ہو گا اور اس میں کوئی ایک دفعہ بھی شریعت اسلامیہ سے متصادم ہو گی تو ایسا کوڈ اہل اسلام کے لیے قابل قبول نہ ہو گا۔ اس لیے سب سے اچھا اور قابل قبول بہتر راستہ اہل اسلام کے پاس یہ ہے کہ آئین کی دفعہ 44 سے مسلمانوں کو مستثنیٰ قرار دیا جائے۔ پھر یہ بات بھی اہل علم اور ماہرین بارہا کہہ چکے ہیں کہ یونیفارم سول کوڈ انڈیا میں قابل عمل نہیں ہے۔ یہاں ہمارا ایک سوال ان لوگوں سے اور خاص طور سے مذہبی لوگوں سے ہے جو یکساں کوڈ چاہتے ہیں کہ آخر آپ اپنی مذہبی دفعات کو یکساں سول کوڈ پر قربان کیوں کرنا چاہتے ہیں۔ مذہبی احکام تو ایشوریہ گرنتھ ہیں۔ ان میں تبدیلی کیسے کی جا سکتی ہے۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ جو لوگ یکساں سول کوڈ کے لیے اپنے مذہبی احکام سے دستبردار ہونے کو تیار ہیں وہ اپنے مذہب کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہیں۔ مسلمان چونکہ اسلام کے لیے سنجیدہ ہیں اس لیے ان کی باتیں بری لگتی ہیں۔ ایک سچ یہ بھی ہے کہ یونیفارم کوڈ کا شور ساٹھ سال سے اٹھا ہے لیکن کسی نے آج تک اس کا خاکہ یا بلیو پرنٹ پیش نہیں کیا۔ جسٹس پرتبھا سنگھ کے فیصلے میں مسلم کوڈ کا ذکر نہیں ہے لیکن انہوں نے یونیفارم کوڈ کی جو بات کہی ہے مسلم لا بھی اس کے دائرے میں آتا ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 18 تا 24 جولائی 2021