خبرونظر

پرواز رحمانی

طالبان کی پیش قدمی
افغانستان میں طالبان کے اثرات اور قبضے کے بعد پوری دنیا کی نگاہیں افغانستان پر جمی ہوئی ہیں۔ امریکی اور یوروپی ممالک تو طالبان کے حق میں یا ان کے خلاف کوئی خاص جوش نہیں دکھا رہے ہیں البتہ ایشیا میں ان کی پیش قدمی سے کافی تشویش پائی جاتی ہے۔ لوگوں کا خیال ہے کہ طالبان افغانستان کو اسلام اور دہشت گردی کا مرکز بناکر پورے ایشیا میں افراتفری پیدا کردیں گے۔ طالبان کے ترجمانوں نے اسلامی شریعت کے نفاذ کی بات پہلے ہی کردی ہے جس سے ہندوستان میں خاصی بے چینی پائی جاتی ہے۔ بے چینی کی وجہ شریعت اسلامی ہے۔ حالانکہ طالبان سے انڈیا کا رابطہ بھی بنا ہوا ہے۔ گلف میں کئی بار خفیہ مذاکرات ہو چکے ہیں اور طالبان ایک سے زائد بار یقین دلاچکے ہیں کہ نئے افغانستان میں بھارت کے مفادات کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ بھارت افغانستان کا پرانا دوست ہے لہٰذا اسے پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن ہندتوا کے لوگ طالبان کی اسلام پسندی سے پریشان ہیں۔ یہاں کا ایک حلقہ طالبان کی آڑ میں اسلام کے خلاف پروپیگنڈا بھی کررہا ہے۔

مخالفین کے اندیشے
طالبان کی بدنامی میں اسرائیل کا خاموش رول بھی ہے۔ افغانستان سے مغربی ملکوں کی دلچسپی بس اس حد تک ہے کہ حشیش اور منشیات کی کاشت وہاں بند نہ ہو۔ بیس سال قبل جب طالبان کی حکومت قائم ہوئی تو اس نے منشیات کی کھیتیاں بالکل تباہ کر دی تھیں۔ منشیات کی کاشت پر مکمل پابندی تھی لیکن طالبان کی حکومت کو دھوکے سے ختم کرکے جب امریکہ کے زیر سایہ حامد کرزئی وغیرہ کی حکومت آئی تو اس نے منشیات کی کاشت کی دوبارہ اجازت دے دی۔ وہاں یہ کام آج بھی ہورہا ہے۔ لیکن دنیا کو یقین ہے کہ طالبان کی مضبوط حکومت بن جانے کے بعد پہلا وار منشیات کی کاشت پر ہی ہو گا۔ ہندوستان میں ہندتوا حلقے افغانستان میں اپنے ہندتوا کو بچانے کے لیے فکر مند ہیں۔ اگر ہندوستان کی حکومت ہندتوا کو نظر انداز کرکے افغانستان کے ساتھ خالصتاً معاشی سماجی اور ترقیاتی بنیادوں پر تعلقات استوار کرے تو دونوں ملکوں کی دوستی کی تاریخ کا ایک نیا دور شروع ہوسکتا ہے۔پڑوسی ملک میں حکومت کی تبدیلی سے بھارت کو اندیشوں میں گرفتار ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ساتھ ہی اگر ہمارے ملک نے سوجھ بوجھ سے کام نہیں لیا تو بہت ممکن ہے کہ دوسرے ممالک بازی مار لے جائیں گے ۔اب تک کی میڈیا رپوٹوں کے مطابق ناتجربہ کاری کے لحاظ سے یہ طالبان وہ نہیں ہیں جو پہلے تھے یہ پوری ذمہ داری کے ساتھ حکومت کریں گے۔

ابھی انتظار کیجیے
طالبان کی گزشتہ حکومت نہایت ناتجربہ کار تھی۔ ان کے پاس انتظامیہ کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ منظم فوج بھی نہیں تھی ترجمانی کرنے والا بھی کوئی نہ تھا اس لیے وہ اپنی معقول ترین بات بھی دنیا کے سامنے نہیں رکھ سکتے تھے۔ سفارتکاری سے وہ ناواقف تھے۔ اسلام اور خود ان کے خلاف کی جانے والی سازشوں کا انہیں وہم و گمان بھی نہ تھا مگر اب اقتدار سے دوری کے دوران انہوں نے بہت کچھ سیکھ لیا ہے۔ امت مسلمہ کا حصہ ہونے کے لحاظ سے طالبان کو سب سے پہلا اور بڑا چیلنج اسلام کے خلاف پیدا کی جانے والی غلط فہمیوں کا ہو گا۔ انہیں سب سے پہلے اس حقیقت کا ادراک کرنا ہو گا کہ دنیا کی بڑی طاقتیں نہیں چاہتیں کہ دنیا میں کہیں بھی اسلامی حکومت کا نمونہ قائم ہو۔ اب طالبان کو ثابت کرنا ہو گا کہ اسلامی نظامِ حکومت دنیا کا بہترین نظام ہے۔ کچھ مسلم حلقے بھی ناواقفیت کی بنا پر یا مخالف پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر طالبان کے خلاف غیر ذمہ دارانہ رائے رکھتے ہیں، انہیں بھی پہلے نئی اسلامی حکومت کا نمونہ دیکھنا ہو گا۔روس ،چین اور پاکستان طالبان کی سرگرم حمایت کر رہے ہیں۔ ترکی، ایران، قطر اور ملائشیا اگرچہ خاموش ہیں لیکن بدلتے ہوئے حالات سے اشارے مل رہے ہیں کہ وہ بھی کچھ دن بعد کھل کر سامنے آئیں گے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 29 اگست تا 4 ستمبر 2021