خاندان کے زوال سے پیدا خطرات

انسانی آبادی اور تہذیب و ثقافت کو درپیش خطرات کا جائزہ

شمشاد حسین فلاحی

 

ایک 34سالہ غیر شادی شدہ جرمن خاتون سے سوال کیا گیا کہ اس نے شادی کیوں نہیں کی تو اس کا جواب تھا:
’’میں رات کو سکون سے سونا پسند کرتی ہوں اور اپنے ’دوست‘ کے ساتھ اچھا وقت گزارتی ہوں تو پھر میں بچوں کے جھنجھٹ میں کیوں پڑوں؟‘‘
اٹلی کے ایک رسالے Semi Faminist نے نوجوان لڑکیوں کے درمیان ایک سروے کیا۔ اس سروے کے نتائج جاری کرتے ہوئے رسالے نے لکھا کہ 16 سال کی عمرکی 52% لڑکیوں نے کہا کہ چونکہ وہ مستقبل میں پیشہ وارانہ زندگی اختیار کرنا چاہتی ہیں اور بچے اس راہ میں رکاوٹ بنیں گے اس لیے وہ بچےپیدا کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔ جان ہاپ کینز یونیورسٹی کے جان ویلیس کہتے ہیں کہ :’’زندگی گزارنے کے لیے عورت کو جس قدر معاش کی ضرورت ہے، اگر وہ اس سے زیادہ کماسکتی ہے تو پھر شوہر کی کیا ضرورت ہے؟ اور اگر جنسی لطف بھی مل جائے اور بچے بھی نہ پیدا کرنے پڑیں تو پھر خاندان کی تشکیل کی بھی کیا ضرورت ہے؟‘‘
یہ تو مغربی دنیا کا ٹرینڈ ہے جس کی ترقی اور ایجادات پر آج پوری دنیاسہولیات سے بھری زندگی گزار رہی ہے، لیکن اب یہ سوچ باقی دنیا میںرواج پا رہی ہے اور پروان چڑھ رہی ہے۔ انداز، نوعیت اور صورت حال کسی قدر مختلف ہے مگر نتائج کے اعتبار سے یکساں ہے۔ نتائج کا مطلب ہے سماج، معاشرے اور ملک کی سب سے بنیادی اکائی ’خاندان‘ کا بکھراؤ یا خاتمہ۔ لوگوں کی منطق اور ’ترک‘ اگرچہ مختلف ہیں مگر نتائج کے اعتبار سے ایک جیسے۔ کہیں اس کے پیچھے خواتین کا حق خود اختیاری ہے تو کہیں معاشی آزادی، کہیں خواتین کا امپاورمنٹ ہے تو کہیں کچھ اور سماجی و معاشرتی اسباب لیکن اتنا تو دیکھا ہی جارہا ہے کہ کسی نہ کسی صورت میں دنیا کے تمام حصوں میں اس سوچ کو فروغ مل رہا ہے اور ہندوستان بھی اس سے اچھوتا نہیں ہے۔
کئی سال پہلے کی بات ہے، جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کی ایک مسلم طالبہ نے جو ذہین اور باصلاحیت تھیں اپنے ایک دوست کلاس فیلو سے اس وقت کہا تھا جب وہ شادی کے مسئلے پر اس سے گفتگو کررہا تھا کہ ’’میں کسی ایسے مرد سے شادی کرکے اپنی زندگی کو کیوں جہنم بناؤں جسے اس کا مذہب بیوی کو مارنے پیٹنے کی آزادی دیتا ہے۔ کیا میں کوئی بیل یا بھینس جیسا جانور ہوں جسے وہ مار پیٹ کر اپنا کام چلائے۔‘‘
اس طالبہ کی یہ سوچ جہاں ہندوستانی معاشرے کی غلط، غیر انسانی اور مرد کے غلبہ والی ظالم سوسائٹی کے خلاف بغاوت کا اعلان ہے، وہیں مسلم سماج کے لیے بھی لمحۂ فکریہ ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندوستان کا مسلم سماج اپنے اخلاق و کردار اور معاشرتی و خاندانی اقدار کو برتنے میں تقریباً ویسا ہی ہے جیسے باقی سماج۔ اس کے یہاں نہ اسلامی تعلیمات کی روشنی ہے اور نہ وہ بلند اقدار و روایات جو دین انہیں فراہم کرتا ہے۔ اس میں استثنائی صورتیں ضرور ہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ ہندوستان ہی نہیں پوری دنیا کا مسلم سماج اس موضوع پر اپنی اس بلند کرداری کو ثابت نہیں کرتا جس کا اسلام اس سے مطالبہ کرتا ہے یا جس کی تعلیم دیتا ہے اور نہ ہی ان اقدار و روایات کو اپنے معاشروں میں قائم و جاری کرسکا ہے جو بہ حیثیت مسلمان اس سے مطلوب ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خاندان کے محاذ پر جو خطرات اور چیلنجز دوسرے معاشروں کو درپیش ہیں، وہ مسلم سماج کو بھی درپیش ہیں۔ ہاں ایک فرق ضرور ہے اور وہ یہ ہے کہ دوسرے معاشروں کے پاس کوئی ایسا آئیڈیل خاندانی نظام نہیں ہے جو مضبوط نظریاتی بنیادوں پر ان کے معاشروں کی تعمیر یا اصلاح کا کام انجام دے سکے۔ مسلم معاشروں کے پاس یہی اہم چیز ہے جسے ’موقع‘ یا اسکوپ تصور کرتے ہوئے دنیا کے سامنے اپنے امتیاز کو بھی رکھا جاسکتا ہے اور خود کو اس فساد اور انتشار سے بھی محفوظ رکھا جاسکتا ہے، جس کا جدید دنیا شکار ہوچکی ہے اور باقی شکار ہونے کی راہ پر چل رہی ہے۔
جدید دنیا میں اس کی شروعات صنعتی ترقی سے ہوتی ہے اور پھر آبادی پر کنٹرول، قدرتی وسائل اور غذائی قلت کے خطرے سے ہوتی ہوئی کم بچے پیدا کرنے کی مہم پر آکرکچھ غلطی کا احساس کراتی ہوئی آگے گزرجاتی ہے، جہاں مردوں اور عورتوں میں بچےپیدا ہی نہ کرنے کا رجحان فروغ پانے لگتا ہے اور اس کے نتیجے میں آبادی کے نظام میں جو زبردست خلل پیدا ہونے لگتا ہے وہ جدید دنیاکو احساس کراتا ہے کہ یہ کیا ہوگیا۔ اس احساس کے آتے آتے معاشرہ کہاں پہنچ گیا یہ دیکھ کر وہ حیران ہی نہیں پریشان بھی ہے۔ اعداد و شمار کی جمع و تفریق قوموں اور نسلوں کے مٹ جانے اور صنعتی یونٹوں کے لیے افراد کے ناپید ہوجانے کے ساتھ کنزیومرس یا اشیاء کے صارفین کے بھی ختم ہوجانے کے اندیشوں کے الارم بجنے لگتے ہیں۔ حکومتوں کو نئے قسم کے معاشرتی اور سماجی مسائل کا سامنا ہونے لگتا ہے اور قومیں خطرات کے بادلوں میں خود کو گھرا محسوس کرنے لگتی ہیں۔
یہ بات پوری دنیا اچھی طرح جانتی ہے کہ ان ملکوں میں جو اس راہ پر گامزن ہوئے، بن ماں باپ کے بچوں کی تعداد کس طرح بڑھ رہی ہے اور حکومتیں ان کی کفالت کے لیے مجبور ہیں۔ اسی طرح یہ بات بھی کسی سے چھپی نہیں ہے کہ ان جدید کلچر کے پیرو ممالک میں بچوں کے درمیان نشہ کی لت اور جرائم کا تناسب کس قدر تیزی سے بڑھ رہا ہے اور ان دونوں کیفیتوں نے دانشوران اور ماہرین سماجیات کی نیند اڑا رکھی ہے۔
مذہب، نسل، اور علاقائی بنیاد پر تشکیل پانے والی اکائیاں اپنا مستقبل کہیں اکثریت سے اقلیت میں تبدیل ہوتا دیکھنے لگتی ہیں تو کہیں ملکوں کی ترقی کے خاتمہ اور ان کے صفحہ ہستی سے مٹ جانے کے اندیشے پیدا ہونے لگتے ہیں۔ ایک امریکی دانشور پیٹرک جے بچانن نے اپنی کتاب Death of The West میں پوری دنیا کو چونکا دیا۔ اپنی کتاب میں انھوں نے واضح طور پر کہا ہے کہ 2050ء تک یوروپ سے دس کروڑ افراد نئی نسل پیدا نہ کیے جانے کے سبب صفحۂ ہستی سے مٹ جائیں گے اور یہ تعداد بیلجیم، سویڈن، ناروے اور جرمنی کی موجودہ آبادی سے بھی زیادہ ہوگی۔ انھوں نے خبردار کیا کہ 2050ء تک جرمنی کی آبادی 8 کروڑ سے کم ہوکر محض پانچ کروڑ نوے لاکھ رہ جائے گی اور یہ بوڑھے ترین لوگوں کا ملک ہوگا۔ انھوںنے یہ دلچسپ بات بھی لکھی ہے کہ 1950ء میں اسپین کی آبادی مراکش (مسلم ملک) سے تین گنا زیادہ تھی لیکن 2050ء تک اس کی آبادی اسپین سے تین گنا زیادہ ہوجائے گی۔
گھٹتی آبادی کے اس تناظر میں مذہبی اکائیوں کو بھی خطرات کی زد میں گردانا جارہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ برطانیہ میں عیسائی آبادی 72فیصدہے جو اگلے بیس تیس سالوں میں کم ہوکر محض 32فیصد رہ جانے کا اندیشہ ہے۔ ہندوستان میں بھی کچھ سیاست داں اس اندیشے کا شکار ہیں کہ اگر ہندوؤں نے کم بچے پیدا کرنے کی موجودہ روش کو جاری رکھا تو ہندوستان میں ہندو اقلیت بن جائیں گے۔ حالانکہ ابھی تک اعداد و شمار اس بات کی طرف اشارہ نہیں کرتے کہ کب تک ایسا ہوسکتا ہے۔ مگر اندیشہ ضرور ظاہر کیا جارہا ہے اور ہندوؤں سے زیادہ بچے پیدا کرنے کو کہا جارہا ہے۔ ’’ہم دو -ہمارے دو‘‘ کے تناظر میں اس تبدیلی کو نوٹ کیا جاسکتا ہے۔ دوسری طرف ایک اور حقیقت کا انکشاف 7 ؍جنوری 2021ء کے ہندوستان (ہندی) میں چھپی لونگی ٹیوڈنل ایجنگ اسٹڈی آف انڈیا‘‘ نامی ادارے کی ایک رپورٹ میں ہوا ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ نوجوان ملک ہندوستان میں بزرگوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اس رپورٹ میں 2011ء کے مقابلے ملک کی اکثر ریاستوں میں 60 سال سے زیادہ عمر کے افراد کے تناسب میں اضافہ ہوا ہے۔ ان میں کیرلا سرِ فہرست ہے جہاں 2011 کے مقابلے یہ تعداد 6.12 فیصد سے بڑھ کر 6.19 فیصد ہوگئی ہے، دوسرے نمبر پر ہماچل پردیش ہے جہاں 2.10 کے مقابلے 5.16 ہوگئی ہے۔
The Population Explosion جیسے ناموں سے لکھی گئی کتابیں اور تحقیقات کو اب دنیا غلط ثابت ہوتا دیکھ رہی ہے اور اس کی جڑ سے نکلنے والے اندیشوں اور خطرات کو Death of The West جیسی کتابیں دنیا کے سامنے پیش کررہی ہیں۔
اس کی وجہ سے جدید دنیا کے ترقی یافتہ ممالک اب اپنی سابقہ پالیسی کے برعکس لوگوں کو بچے پیدا کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں اور آبادی کے پہیے کو مختلف و مخالف سمت میں گھمانے کی اسٹریٹجی تیار کرنے کے لیے سر جوڑ کر بیٹھے ہیں۔ فرانس، روس، آسٹریلیا اورچائنا تک میں بچوں کی پیدائش کی مہم شروع کردی گئی ہے جہاں کنواری اور شادی شدہ ماؤں کو اس کے لیے زبردست ترغیبات دی جارہی ہیں۔ جاپان نے بھی حکومتی نرسری کے نظام کو بہتر بناکر زیادہ بچے پیدا کرنے کی ترغیب کئی سال پہلے شروع کردی تھی جہاں خواتین کی انجمنوں نے، اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ معاشرہ کا عمومی رویہ بچے پیدا کرنے کے حق میں نہیں ہے۔
وجہ صاف ہے!
جس صورت حال کا اوپر ذکر کیا گیا ہے اس کے اسباب کچھ بھی گنائے جائیں مگر بنیادی وجہ صرف ایک ہے اور وہ ’’خاندان کے ادارے کا زوال‘‘ — ہے۔ خاندان کے اس زوال و انحطاط نے افراد کو غیر ذمہ دار، خود غرض اور عیش پسند بنادیا اور کوئی کسی کی ذمہ داری قبول کرنے اور اسے جاری رکھنے کے لیے تیار نہیں جب کہ خاندان وہ اکائی ہے جہاں ایک دوسرے کی کیئر اور دیکھ بھال کے لیے ہم عہد بند ہوتے ہیں، ایک دوسرے کے لیے قربانیاں دیتے ہیں اور نئی نسل کی دیکھ بھال اور پرورش و پرداخت کو باہمی تعاون سے اچھے انداز میں انجام دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ آپ ایسے گھر کا تصور کیجیے جس میں باب کما کر لاتا ہو اور ماں گھر میں رہتی ہو لیکن گھر میں رہنے کے باوجود وہ بچوں کی تعلیم و تربیت پر کوئی توجہ نہ دیتی ہو۔ ایسے بچوں کا کیا حال ہوجاتا ہے ہم جانتے ہیں۔ اس سے آگے بڑھ کر ان گھروں کا تصور کیجیے جہاں ماں اور باپ دونوں میں سے کسی کو بھی بچوں کی دیکھ بھال اور تربیت کے لیے وقت نہ ہو اور وہ صرف نوکروں کی دیکھ بھال میں بڑے ہوئے ہوں(مغربی دنیا میں اب اس کے لیے کیئر سینٹرس، ڈے کیئر سینٹرس اور بے بی سٹرس کی سہولیات ایک روزگار بن گئی ہیں)۔ ہم ایسے بچوں کو ’بے چارہ‘ اور ’قابلِ رحم‘ تصور کرتے ہیں۔ اس سے آگے بڑھ کر ذرا اس معاشرے کا تصور کیجیے جس میں بچوں کی پیدائش محض ’لذت‘ کے لیے کیے گئے عمل کے نتیجہ میں حادثاتی طور پر ہوجائے اور پھر وہ نامعلوم ماں باپ کی اولاد کی حیثیت سے سرکاری نگہداشت کے مراکز میں پروان چڑھیں۔ ایسی صورت میں کیا وہ معاشرہ کا تعمیر پسند اور مضبوط فرد بن سکتے ہیں اور کیا وہ معاشرہ جس میں بچوں کی تعلیم و تربیت میں ماں باپ اور گھر کے افراد کا کوئی رول نہ ہو مضبوط سماج اور مضبوط قوم کی ضمانت ہوسکتا ہے۔ نہیں! ہرگز نہیں!! اور یہ بات جدید معاشروں کے انتشار نے ثابت کردی ہے۔ نیپولین کا یہ قول کہ تم مجھے بہترین مائیں دو ! میں تمہیں بہترین قوم دوں گا۔‘‘ اس بات کا شاہد بھی ہے اور طالب بھی۔
اگر ہمیں اچھا معاشرہ تعمیر کرنا ہے تو خاندان کے یونٹ کو مضبوط و مستحکم رکھنا ہوگا اور اگر مضبوط سماج اور مضبوط ملک کی تعمیر مطلوب ہے تو ایسا معاشرہ تشکیل دینا ہوگا جس کی ہر اکائی یعنی خاندان مضبوط ہو اور جس کی بنیادیں ایثار، شفقت و محبت اور باہمی الفت پر اٹھائی گئی ہوں۔
ہمارے نزدیک مضبوط خاندان کی بنیاد ان قدروں کا استحکام ہے جو اسلامی تعلیمات سے میل کھاتی ہوں یا کم از کم اس کی مخالف نہ ہوں۔ اسلام خاندان کے اس ادارے کے لیے واضح احکامات عطا کرتا ہے۔ ان میں مرد و عورت کے باہمی تعلقات کو بھی بیان کرتا ہے اور دونوں کے حدود و اختیارات اور فرائض اور ذمہ داریوں کو بھی۔ ان حدود و اختیارات اور فرائض و ذمہ داریوں کے درمیان ایسا توازن مطلوب ہے جو کشمکش کے بجائے تعاون اور مطالبے کے بجائے ایثار سکھاتا ہو اور جس گھر کے افراد میں یہ خوبیاں ہوں وہ معاشرے کا مثالی گھر بن جاتا ہے اور جس سماج میں ایسے مثالی گھر تشکیل پاجائیں وہ معاشرہ آئڈیل بن جاتا ہے اور یہ آئڈیل معاشرہ مضبوط قوم کی ـضمانت فراہم کرتا ہے۔

دوسرے معاشروں کے پاس کوئی ایسا آئیڈیل خاندانی نظام نہیں ہے جو مضبوط نظریاتی بنیادوں پر ان کے معاشروں کی تعمیر یا اصلاح کا کام انجام دے سکے۔ مسلم معاشروں کے پاس یہی اہم چیز ہے جسے ’موقع‘ یا اسکوپ تصور کرتے ہوئے دنیا کے سامنے اپنے امتیاز کو بھی رکھا جاسکتا ہے اور خود کو اس فساد اور انتشار سے بھی محفوظ رکھا جاسکتا ہے، جس کا جدید دنیا شکار ہوچکی ہے اور باقی شکار ہونے کی راہ پر چل رہی ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 14 فروری تا 20 فروری 2021