خاندان تربیت کا مرکز اور پہلا مدرسہ بنے!

مثالی خاندان رسوم و رواج کا نہیں اسلامی قدروں اور شریعت کا پابند ہوتا ہے

نمائندہ دعوت

 

]دس روزہ مہم ’’مضبوط خاندان-مضبوط سماج‘‘ کے موقع پر
امیرِ جماعت جناب سید سعادت اللہ حسینی کی نمائندہ دعوت سے خصوصی گفتگو[
سوال: جماعت اسلامی ہندکا حلقہ خواتین ۱۹ ، فروری سے’’ مضبوط خاندان ، مضبوط معاشرہ‘‘ کے مرکزی موضوع کے تحت ملک گیر مہم منا رہا ہے؟ اس عنوان کے تحت مہم کے کیا محرکات ہیں ؟
جواب:خاندان اور خاندانی قدروں کا زوال اس وقت ایک عالمی مسئلہ ہے۔ جن لعنتوں نے مغربی دنیا میں خاندان کے ادارے کو زوال پذیر کردیا اب وہی لعنتیں ہمارے ملک میں بھی تیزی سے در آ رہی ہیں۔ حالیہ کووڈ کے بحران اور لاک ڈاؤن نے اس مسئلہ کی شدت کو اور زیادہ واضح کیا ہے۔ گھریلو تشدد کے واقعات میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے اور طلاق کی شرح میں بھی اضافے نوٹ کیے گئے ہیں۔ ناگہانی حالات میں گھریلو تنازعات کا اس طرح بڑھ جانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ خاندانی نظام کی بنیادیں کمزور ہورہی ہیں۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس مسئلے کو ایڈریس کرنا ضروری ہے۔کمزور خاندان پورے سماج کو اور بالآخر پوری تہذیب کو کمزور کرنے کا سبب بنتے ہیں۔
اسلام کا خاندانی نظام، مضبوط عقیدےکی مستحکم بنیادوں پر کھڑاہے۔ اسلام کی خاندانی قدروں اور عائلی احکام کا مسلم معاشرے میں تعارف و یاد دہانی اورمعاشرے کو ان کے نفاذ کی طرف پوری قوت سے متوجہ کرنا اور اس راہ میں جو رکاوٹیں حائل ہوسکتی ہیں، ان کا ازالہ کرنا اس مہم کے مقاصد میں شامل ہے۔اسی طرح اس مہم کا ایک اہم مقصد یہ بھی ہے کہ اسلام کی ان قدروں کا ملک میں وسیع تعارف کرایا جائے۔ ان کے تعلق سے جو غلط فہمیاں ہیں ان کو دور کیا جائے اور اہل ملک کو بھی ان قدروں پر غور و فکر کی دعوت دی جائے۔
سوال:مہم میں کن کن ایشوزپر فوکس کیا جائے گا؟
جواب:مہم کا فوکس خاندان اور خاندانی زندگی کے مسائل ہیں۔ خوشگوار ازدواجی تعلقات، بچوں اور والدین کے درمیان مستحکم رشتے، خاندانی اقدار، خاندانی زندگی کے شرعی احکام، شادی بیاہ کے طریقے اور رسوم، جنین کشی اور دختر کشی جیسی برائیاں اور ان کے سدباب کے طریقے، گھریلو تشدد، اختلافات و تنازعات اور ا ن کے حل، وراثت کی تقسیم اور خواتین کے مالی حقوق، جنسی بے راہ روی اور اس کے اثرات، نکاح میں درپیش مشکلات اور ان کا ازالہ وغیرہ چند اہم موضوعات ہیں جو اس مہم میں ان شاء اللہ اٹھائے جائیں گے۔ یہ سارے مسائل مسلم سماج کے حوالے سے بھی زیر بحث آئیں گے اور برادران وطن کے ساتھ اہل ملک کے حوالوں سے بھی ان پر گفتگو ہوگی۔
سوال :آپ کی نظر میں ہندوستان کے گھریلو/ خاندانی نظام کی کیا صورت حال ہے؟ کیا بھارت کو مغربی اقدار سے بچانے کے لیے مہم کا فیصلہ ہوا ہے؟
جواب: ہمارے ملک میں خاندان کو کئی طرح کے چیلنج درپیش ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ خاندان کا ادارہ یہاں بھی تیزی سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہورہا ہے۔ مغربی قدریں بے شک ایک بڑا چیلنج ہیں۔ لیو ان ریلیشن ، ہم جنسی و غیرہ کو قانونی جواز مل چکا ہے۔ اب زنا(Adultery) کی بعض شکلوں کو بھی قانوناً درست قرار دینے کی کوششیں پوری قوت سے جاری ہیں۔ ان کا اثر سب سے زیادہ خاندان اور خاندانی نظام کے استحکام پر پڑتا ہے۔ فحاشی، عریانیت اور جسم فروشی جیسی برائیاں بھی تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔تباہ کن مغربی قدروں کی اس اندھا دھند در آمد کے ساتھ ساتھ بعض چیلنج خالص مقامی حالات کی پیداوار بھی ہیں۔ طلاق کی شرح بڑھ رہی ہے اور اس سے زیادہ اُن خواتین کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے جن کو ان کے شوہر بغیر طلاق کے چھوڑ دیتے ہیں اور وہ زندگی بھر لٹکی رہتی ہیں۔گھریلو تشدد اب ملک میں ایک سنگین مسئلہ بن گیا ہے۔ جہیز کے نام پر ہراسانی اور قتل و خودکشی کے واقعات اب ملک کے ہر علاقے اور ہر طبقے میں عام ہوتے جارہے ہیں۔ جنین کشی اور دختر کشی کی لعنتوں نے کئی ریاستوں میں جنسی تناسب درہم برہم کرکے رکھ دیا ہے اور نسل انسانی کی بقا پر سوالیہ نشان لگنے لگا ہے۔زوجین کے درمیان اور والدین اور بچوں کے درمیان کشیدگی اور سنگین تنازعات تو بہت عام ہونے لگے ہیں ۔ خواتین کے ساتھ جنسی مظالم ، قریبی رشتے داروں کے ذریعہ ان کا استحصال، خواتین کو وراثت اور دیگر مالی حقوق سے محروم کردینا،بزرگوں سے ناروا سلوک وغیرہ جیسے مسائل بھی بہت تیزی سے عام ہورہے ہیں۔ متعدد تحقیقات کے نتائج بتاتے ہیں کہ نفسیاتی امراض اور خودکشیوں کا سب سے بڑا سبب گھریلو تنازعات اور کشیدگیاں ہیں۔ ہمارا ملک اپنی پائیدار مشرقی روایات اور مستحکم خاندانی قدروں کے لئے جانا جاتا تھا لیکن اب یہاں بھی خاندان کا ادارہ طرح طرح کی مشکلات سے دوچار ہے اورخصوصاً ہمارا شہری معاشرہ تیزی سے اسی صورت حال کی سمت بڑھ رہا ہے، جس نے مغربی دنیا میں خاندانی نظام کو برباد کرکے رکھ دیا۔ہم چاہتے ہیں کہ ان پیچیدہ مسائل کے حل پر سنجیدہ گفتگو ہو اور اہل ملک اسلام کی تعلیمات پر سنجیدگی سے غور کریں ۔
سوال :’’میرا جسم – میری مرضی‘‘ جیسے نعروں نے سماجی تانے بانے کو کتنا متاثر کیا ہے اور خواتین کی اس آزاد خیالی کا محور کیا ہے؟
جواب: یقیناً ،خاندانی ادارے کے زوال میں اس طرح کی سوچ کا بڑا دخل ہے۔ یہ سوچ اُس حدسے متجاوز انفراد پسندیIndividualism اور خود غرضی کا شاخسانہ ہے جو جدید مادہ پرستی کا خاصہ ہے۔ اس کے نتیجے میں آدمی خود کو ہر طرح کی سماجی ذمے داری سے آزاد سمجھنے لگتا ہے۔ سماج سے فائدہ اٹھاتا ہے لیکن سماج کے حقوق ادا کرنا نہیں چاہتا۔ خاندان خاص طور پر والدین کی مہربانی اور سماج کے تعاون کے بغیر کوئی بچہ بلوغ کی منزل تک نہیں پہنچ سکتا اور مناسب جنسی حد بندیوں کے بغیر خاندان کا ادارہ وجود ہی میں نہیں آسکتا ۔ ہر اجتماعی ہئیت کچھ اصولوں اور ضوابط کی ضرورت مند ہوتی ہے۔ اگر خاندان کو باقی رکھنا ہے تو اپنے جسم اور جنسی معاملات کے سلسلے میں ذمہ دارانہ رویہ ناگزیر ہے۔کسی زمانے میں فیمنزم کے انتہا پسند تصور نے خاندان کے ادارے کو بھی غیر ضروری قرار دیا تھا اور اسے پدر شاہی ادارہ Patriarchal Instituteقرار دیا تھا۔ میرا جسم ، میری مرضی ، جیسے نعرے بھی لاشعور میں موجود انہی انتہا پسندانہ تصورات کی پیداوار ہیں۔یہ لوگ خاندان کے ادارے ہی کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ یہ نہیں سمجھ پاتے کہ خاندان کا خاتمہ ، انسانی تہذیب ہی کا نہیں بلکہ انسانی نسل کا خاتمہ ہے۔ ان سب شیطانی تصورات کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔
سوال:گھریلو تشدد ایک اہم مسئلہ بنا ہوا ہے، اس کی روک تھام کے لئے کیا قانونی اقدامات کافی ہیں؟ اس مہم کے ذریعہ کیا حل سجھائے جائیں گے؟
جواب:قانونی اقدامات بھی ضروری ہیں لیکن کافی ہر گز نہیں ہیں۔ خاندان کا ادارہ محض قانون اور ضابطے سے وجود میں نہیں آتا۔ اس کی بنیاد باہمی محبت اور باہمی اعتماد ہے۔ یہ دونوں جذبات ساتھ رہنے، ایک ساتھ کوالٹی ٹائم گذارنے اور ایک دوسرے کے لیے ایثار و قربانی سے پیدا ہوتے ہیں۔ جدید معاشرت نے ساتھ رہنے اور کوالٹی ٹائم ساتھ گذارنے کے مواقع کم کردیئے ہیں اور شیطانی نظریات و تصورات نے خود غرضی اور حقوق کی رسہ کشی پیدا کردی ہے جس کے نتیجے میں ایثار و قربانی کے جذبات کمزور پڑگئے۔
گھریلو تشدد کے مسئلے کو کئی سطحوں پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔ قانون کے ساتھ ساتھ وہ روایات، وہ نظریات و تصورات، وہ سماجی رجحانات اور وہ نفسیاتی کیفیات جو راست یا بالواسطہ طور پر اس مسئلے کا سبب بنتی ہیں، ان کا مقابلہ اور ان کا سد باب ضروری ہے۔ اس مہم میں ہم اُن احکام کو بھی واضح کریں گے جو خاندانی زندگی میں مختلف افراد کے حقوق و فرائض کے سلسلے میں اسلام نے دئیے ہیں اور ساتھ ساتھ محبت، اعتماد، ایثار اور احسان وغیرہ جیسی اُن قدروں کی بھی ترویج کی کوشش کریں گے جنہیں خالق کائنات نے خاندان کی پائیداری کے لئے ضروری قرار دیا ہے۔ہم یہ بھی کوشش کریں گے کہ مستحکم خاندان کے لئے درکار سماجی سپورٹ کا نظام بھی جگہ جگہ قائم ہو۔ مثلاً شرعی پنچایتیں، کونسلنگ کے مراکز، شادی سے قبل تربیتی پروگرام، وراثت کی تقسیم میں مدد کا نظام و غیرہ۔
سوال : مثالی خاندان کا ایک واضح تصور دین اسلام میں موجود ہے۔ اس کی کچھ نمایاں خصوصیات کاذکر کریں۔
جواب:جی، مثالی اسلامی خاندان کی اہم ترین خصوصیت یہ ہے کہ اس کی بنیاد خوف خدا اور تقویٰ پر رکھی جاتی ہے۔ اسلامی روایت تو یہ ہے کہ نکاح کے موقع پر جب ایک نیا خاندان وجود میں آتا ہے، اُس وقت یعنی خطبہ نکاح میں سب سے زیادہ تقویٰ ہی کی تاکید و یاددہانی ہوتی ہے۔اس سے اسلامی خاندان کا پورا فلسفہ سمجھ میں آتا ہے۔ یہ ایک با مقصد خاندان ہوتا ہے۔ مثالی معاشرے کی تعمیر، معروف کا قیام اور منکرات کا ازالہ خاندان کا مقصد ہوتا ہے۔یہ رسوم اور رواجوں کا نہیں بلکہ اسلامی قدروں اور اسلامی شریعت کا پا بند ہوتا ہے۔
خاندان کا ایک اہم مقصد نسل انسانی کی بقا اور تسلسل اور آنے والی نسلوں کی تربیت و تزکیہ ہے۔ قرآن مجید یہ بھی کہتا ہے کہ خاندان کا ایک اہم مقصد یہ بھی ہے کہ لِّتَسْكُنُوا إِلَيْهَا یعنی تم سکون حاصل کرو اور سکون کے حصول کا ذریعہ یہ ہے کہ وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً ( اس نے تمہارے درمیان مودت و رحمت پیدا فرمادی ہے)۔
ان مقاصد کا تقاضہ ہے کہ خاندان تربیت کا مرکز اور پہلا مدرسہ بنے۔یہ ادارہ ہر فرد کے تزکیے میں رول ادا کرے اور دوسری ضرورت یہ ہے کہ خاندان کے افراد کے درمیان محبت مودت اور رحمت کے تعلقات ہوں۔وہ ایک مضبوط ٹیم بنیں۔ اپنی اعلیٰ ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لئے خاندان کے اس ادارے میں ہر فرد کی تربیت بھی ہو اور اس کو بھر پور جذباتی سہارا بھی میسر آئے۔ اس مقصد کو یقینی بنانے کے لئے اسلام نے خاندان کے مختلف ارکان کے درمیان حقوق و فرائض کی نہایت واضح اور بڑی متوازن تقسیم کی ہے۔ اس میں ہر فرد کے مفادات کا بھی بھرپور تحفظ ہے اور پورے معاشرے کے مفادات کا بھی۔بیوی کا رول، شوہر کا رول، ماں کا رول، باپ کا رول، بچوں کا رول یہ سب تفصیلات کے ساتھ متعین ہے۔رول کے ساتھ ساتھ ان کے مالی حقوق، ذمہ داریاں وغیرہ کا بھی تعین کردیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں دیگر شعبہ ہائے حیات کے مقابلے میں سب سے زیادہ تفصیل اور وضاحت سے خاندان کے احکام ہی بیان کیےہیں تاکہ تنازعات کے امکانات کم سے کم رہیں۔ پھر صرف حقوق و فرائض کی تقسیم پر اکتفا نہیں کیا ہے بلکہ احسان کی تعلیم دی ہے۔ اپنے حق میں رضاکارانہ طور پر کمی کرنے اور دوسروں کے لئے ایثار کرنے کی ہمت افزائی کی گئی ہے۔
سوال : برادرانِ وطن کو اس مہم کے توسط سے سماجی برائیوں سے آگاہ کرنا بھی ضروری ہے۔ اہلِ ملک کے سامنے اسلامی خاندان کو مثالی خاندان کے طور پر پیش کرنے کے پیچھے کی حکمت عملی یا چیلنجوں پر روشنی ڈالیں گے؟
جواب:بے شک چیلنج بھی ہیں۔ مسلم سوسائٹی اس وقت جس طرح کے حملوں کی زد میں ہے، اس میں اپنے دفاع اور تحفظ کے مسائل سے اوپر اٹھ کر سوچنا اور عمل کرنا آسان نہیں ہے۔ خود مسلم خاندان اور اسلام کی خاندانی تعلیمات اس وقت شدید منفی پروپگنڈے کی زد میں ہیں لیکن واقعہ یہ ہے کہ یہ سب مسائل اسی وجہ سے ہیں کہ اسلام اب خاندان کا آخری قلعہ باقی رہ گیا ہے اور اسلام کی خاندانی تعلیمات میں غیر معمولی کشش پائی جاتی ہے۔ یہ چیلنج بھی ہمارے لئے ایک موقع ہے۔ ہمیں حوصلہ و اعتماد کے ساتھ اپنی بات کہنی چاہیے۔انفرادی روابط، اجتماعی محفلوں، میڈیا اور سوشل میڈیا وغیرہ کا بھر پور استعمال کرکے اسلام کی خاندانی تعلیمات کا وسیع تعارف کرانا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہیں مسلم سماج میں بگاڑ کے باوجود اسلامی خاندان کے اچھے نمونوں کو لوگوں کے سامنے لانا چاہیے۔ لوگوں کو یہ موقع ملنا چاہیے کہ وہ باعمل مسلم خاندانوں میں اسلامی تعلیمات کی برکتوں کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کریں۔ برادران وطن سے ہمارا میل جول بڑھے اور ہماے گھروں میں ان کا آنا جانا ہو تو انہیں خود دیکھنے کا موقع ملے گا کہ مسلمان لڑکیاں، اسلام کی تعلیمات کی پابندی کرتے ہوئے کیسے ترقی کررہی ہیں اور اعلیٰ تعلیم اور غیر معمولی صلاحیتیں حاصل کررہی ہیں اور اس ترقی کی وہ قیمت بھی ادا نہیں کرنی پڑ رہی ہے جو دیگر سماجوں میں عورتوں کو ادا کرنی پڑتی ہے۔ وہ ہماری شادی بیاہ کی تقاریب میں آئیں گے تو معلوم ہوگا کہ اسلامی نکاح تو لیو ان ریلیشن شپ سے زیادہ آسان ہے اور ان خرابیوں سے محفوظ ہے جو لیو اِن ریلیشن میں پائی جاتی ہیں۔ نکاح نہایت آسان ہونے کے باوجود اس میں ذمہ داریاں ہیں، کمٹمنٹ ہے۔ عورت اور بچوں کا تحفظ ہے۔اس طرح اسلام کی خاندانی تعلیمات کو ہمیں قول سے بھی واضح کرنا ہے اور اس کے عملی نمونوں کو قریب سے دیکھنے اور اس کی برکتوں کو محسوس کرنے کا موقع بھی فراہم کرنا ہے۔
سوال :مسلم معاشرے پر پڑوسی تہذیب کے اثرات پائے جاتے ہیں۔ ان اثرات سے باہر نکلنے کی کیا سبیلیں ہوسکتی ہیں؟
جواب:پڑوسی اقوام یا فرقوں کے اثرات ہوں یا مغربی تہذیب کے یا دوسری خرابیاں ہوں، ان سب اثرات کا مقابلہ ہمہ جہت اور مستقل جدوجہد کا تقاضہ کرتا ہے۔ ہمارے پاس اصلاح معاشرہ کے کام کا مطلب تقریریں اور اصلاح معاشرہ کے جلسے ہیں۔ تقریریں او ر جلسے دو کام کرتے ہیں۔ ایک بیداری کا کام یعنی جو برائیاں نظریاتی بگاڑ کی وجہ سے پیدا ہوجاتی ہیں، نظریاتی اصلاح کے ذریعہ ان کی اصلاح ممکن ہوجاتی ہے اور دوسرے یاددہانی اور تذکیر کا کام۔یقیناًیہ کام ضروری ہیں لیکن کافی نہیں ہیں۔ معاشرے کی تمام برائیاں صرف نظریہ کی اصلاح اور تذکیر و یاددہانی سے دور نہیں ہوسکتیں بلکہ روایات کی گہری جڑیں کاٹنی پڑتی ہیں۔ مستحکم سماجی عادتوں کو بدلنا پڑتا ہے۔ اصلاح کی راہ میں جو عملی دشواریاں درپیش ہیں، ان کا قابل عمل حل تجویز کرنا پڑتا ہے۔اصلاح کے لئے سماجی سپورٹ کا مضبوط نظام اور ادارے قائم کرنے پڑتے ہیں۔کئی محاذوں پر مسلسل کام کرنا پڑتا ہے۔ان سب کے بغیر سماجی اصلاح کا کام مکمل نہیں ہوسکتا۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ اصلاح معاشرہ کی ہماری کوششیں ، ان سب ضرورتوں کی تکمیل کا سامان کریں۔ اور موجودہ دور میں سوشل انجینئرنگ اور سماجی تبدیلی کے جو منصوبہ بند طریقے دنیا میں اختیار کیے جارہے ہیں ، ہمارے مصلحین ان کے استعمال پر قدرت حاصل کریں۔ ان کی تفصیل میں نے زندگی نو کے بعض مضامین میں لکھی ہے۔ اس دفعہ ہمارے شعبہ خواتین نے اس مہم میں روایتی طریقوں کے علاوہ ان منصوبہ بند طریقوں کے استعمال کی بھی شروعات کی ہے۔ ان شاء اللہ ، آئندہ اس سلسلے کو اور آگے بڑھایا جائے گا۔
سوال :وہ کیا اسباب ہیں جن کی وجہ سے سماج میں بکھراؤ نظر آرہا ہے اور مسلم خواتین کو ملک و قوم کو کن کن سطحوں پر مخاطب کرنا چاہیے؟
جواب:بکھراؤ کے اسباب کی طرف میں نے اوپر اشارہ کیا ہے۔مسلم خواتین کو پورے اعتماد کے ساتھ ان سب اسباب کو ایڈریس کرنا چاہیے۔ انہیں ملک بھر کی خواتین کا مسیحا بن کر سامنے آنا چاہیے اور خاندان اور خاندانی زندگی کے سب سے بڑے محافظ کے طور پر پہچان بنانی چاہیے۔ مغربی تہذیب کے پیدا کردہ انتشار کو بھی ایڈریس کرنا چاہیے اور ہمارے ملک میں قدیم نقصان دہ روایتوں کی زنجیروں کو بھی توڑنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اسلام کی عائلی تعلیمات خاندانی زندگی کا بہت صاف ستھرا، بہت متوازن، بہت بامقصد اور انتہائی پریکٹیکل ماڈل فراہم کرتی ہیں۔ بدقسمتی سے اس ماڈل کو اس کی پوری روح کے ساتھ مسلم سماج میں بھی بہت کم سمجھا گیا ہے۔ ہمیں اپنے سماج کو بھی اسے سمجھانا ہے اور اسے پوری انسانیت کے سامنے اور خاص طور پر اہل ملک کے سامنے بھی اعتماد کے ساتھ پیش کرنا ہے۔
سوال : مہم کامرکزی موضوع طویل المدتی جد وجہد کامتقاضی ہے۔ حلقہ خواتین کوانفرادی اور تنظیمی سطحوں پر اس کے لئے خود کو کتنا تیار کرنا ہوگا؟
جواب:جی آپ کی بات درست ہے۔ یہ مہم محض شروعات ہے۔ مہم کے ذریعہ کوئی سماجی تبدیلی نہیں آتی ۔ صرف سماجی تبدیلی کے طویل اور صبر آزما کام کے لئے گراونڈ بنانے کا کام ہوسکتا ہے۔ ہماری خواتین کو اس طویل جدوجہد کے لئے خود کو تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ تیاری تین سطحوں پر مطلوب ہے۔ سب سے پہلے تو ہم اسلام کے خاندانی زندگی کے ماڈل کو اس کی پوری روح کے ساتھ اچھی طرح سمجھیں۔ اسلام کی عائیلی تعلیمات، عائلی زندگی کی قدریں، عائلی زندگی سے متعلق شرعی احکام، اسلام اور اسلامی شریعت کے مقاصد ، ان سب کا گہرا فہم حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ کچھ بہنوں کو تو اعلیٰ سطح کا یعنی مجتہدانہ سطح کا علم و شعور بھی حاصل کرنا ہوگا۔ دوسرے ، سماجی تبدیلی کے لئے جو علم و صلاحیت درکار ہوتی ہے وہ حاصل کریں۔ مغربی قدریں آج کے زمانے میں نہایت گہری پلاننگ اور سوشل چینج کے انتہائی موثر آلات کے سہاروں سے عام ہورہی ہیں۔ ان کا مقابلہ صرف روایتی طریقوں سے ممکن نہیں ہے۔ سماج اور سماجی مسائل کا شعور، اور سماجی تبدیلی کے وسائل پر قدرت درکار ہے۔ اس حوالے سے بھی ہماری بہنوں کو تیار ہونے کی ضرورت ہے۔ اور تیسری سطح کمیونیکشن کی سطح ہے۔ ہمیں مسلمانوں کو بھی اسلام کی عائلی تعلیمات پر عمل کے لئے آمادہ کرنا ہے اور برادران وطن کے درمیان بھی اسلام کی عائلی تعلیمات کا تعارف کرانا ہے۔ اس کام کے لئے ضروری ہے کہ تقریر ، مباحثہ، استدلال، تحریر ، تصنیف وغیرہ پر ہمیں قدرت حاصل ہو اوراس زبان اورلب و لہجے پر بھی قدرت حاصل ہو جس کے ذریعے اہل ملک سے بات کی جاسکتی ہے۔اسی طرح میڈیا اور سوشل میڈیا کے موثر استعمال کی صلاحیت بھی پیدا کرنی ہے۔
سوال :اسلام میں’’خواتین کو با اختیار‘‘ بنانے کا کیا نظریہ ہے؟ جماعت کے حلقہ خواتین کی اس مہم میں مسلمانوں اور دیگر برادرانِ وطن کے لیے کیا لائحہ عمل دیا جا سکتا ہے؟
جواب:خواتین کو بااختیار بنانے کا مغربی اور فیمینسٹ نظریہ، خواتین اور ان کے نسائی کردار کو کم تر قرار دیتا ہے اور مردوں اور عورتوں کے درمیان غیر فطری کشمکش کو جنم دیتا ہے۔یہ غیر فطری تصورات بھی خاندان کے ادارے کو کمزور کرنے کا نہایت اہم سبب ہیں۔ اسلام نے خواتین کو جو حقوق اور اختیارات دیے ہیں ان میں خواتین کا بھر پور احترام بھی ہے، ان کے نسوانی کردار اور رول کو بھی عزت دی گئی ہے اور یہ نظریہ محبت و تعاون کی فضا کو بھی پروان کو چڑھاتا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اسلام نے جو مقام اور جو اختیارات خواتین کو دیے ہیں وہ انہیں پوری طرح حاصل ہوں۔ انہیں وراثت میں حصہ ملے، اپنے مال پر انہیں پورا اختیار حاصل ہو، تعلیم حاصل کرنے اور اپنی صلاحیتوں کے استعمال میں کوئی رکاوٹ درپیش نہ ہو۔ بیوی کی حیثیت سے خا ص طور پر جو حقوق شریعت نے ان کو دیے ہیں وہ انہیں حاصل ہوں۔ ظالم یا ناپسندیدہ شوہر سے وہ جدائی حاصل کرنا چاہیں تو یہ عمل آسا ن ہو ۔اسلامی نظریہ کے مطابق مرد و خواتین ایک دوسرے کے حریف یا competitor نہیں بلکہ ایک دوسرے کے رفیق اور complementors ہیں۔ اسی حیثیت سے ان کو امپاور ہونا ہے۔
اس کے لئے ایک طرف وہ غیر فطری کشمکش ختم کرنی ہے جو جدید مغربی تہذیب نے مردوں اور عورتوں کے درمیان پیدا کی ہے۔ عورتوں کا امپاورمنٹ یہ نہیں ہے کہ وہ مرد بن جائیں اور دہری ذمے داریوں کے بوجھ سے دب جائیں۔ دوسری طرف روایتی معاشرے نے جو بنیادی حقوق چھین رکھے ہیں وہ حقوق انہیں دلانے ہیں۔
سوال :مختلف سرکاری ایجنسیوں سے اس طرح کے سماجی موضوعات پر مشترکہ و متحدہ کوششیں کیا مہم کے اغراض و مقاصد کو حاصل کرنے میں ممد و معاون ثابت ہو سکتی ہیں؟
جواب:جی، ہم اپنے مقاصد اور تصورات کو پیش نظر رکھتے ہوئے تمام سرکاری و غیر سرکاری ایجنسیوں کے ساتھ تعاون کرسکتے ہیں۔ مثلاً جہییز کے نام پر ہراسانی کے خلاف مہم، لڑکیوں کو تعلیم دلانے کی مہم، گھریلو تشدد کے خلاف بیداری کی کوششیں، جنسی ہراسانی کو ختم کرنے کی کوششیں، یہ سب ہمارے بھی اہداف ہیں ۔ ان میں مکمل تعاون ہوسکتا ہے۔ ll

جہیز کے نام پر ہراسانی اور قتل و خودکشی کے واقعات اب ملک کے ہر علاقے اور ہر طبقے میں عام ہوتے جارہے ہیں۔ جنین کشی اور دختر کشی کی لعنتوں نے کئی ریاستوں میں جنسی تناسب درہم برہم کرکے رکھ دیا ہے اور نسل انسانی کی بقا پر سوالیہ نشان لگنے لگا ہے۔ زوجین کے درمیان اور والدین اور بچوں کے درمیان کشیدگی اور سنگین تنازعات تو بہت عام ہونے لگے ہیں۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 14 فروری تا 20 فروری 2021