خاندانی تنازعات کے حل کی تدابیر،وقت کی ضرورت

نزاعات کا ابتداء ہی میں تدارک کریں۔ فیملی کونسلنگ سنٹرس کا رول اہم

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

مرد اور عورت کے نکاح کے بندھن میں بندھنے سے خاندان وجود میں آتا ہے اور خاندانوں کے مجموعے سے سماج تشکیل پاتا ہے ۔ خاندان خوش گوار ہوگا تو اس کے اثرات سماج پر پڑیں گے اور اس میں بھی خوش گواری آئے گی ، لیکن اگر خاندان تنازعات کا شکار ہوگا تو اس سے سماج بھی متاثر ہوگا اور اس میں انارکی ، ابتری اور افرا تفری پیدا ہوگی ۔ دیکھا جا رہا ہے کہ خاندان کے تانے بانے بہت تیزی سے بکھر رہے ہیں ۔ افرادِ خاندان کے باہمی تعلقات میں خوش گواری اور گرم جوشی کم سے کم تر ہوتی جا رہی ہے اور ایک دوسرے کے بارے میں شکایات تنازعات کا روپ دھار رہی ہیں ۔ اگر سماج کے سربرآوردہ اور ذمے دار لوگوں نے اس جانب توجہ نہیں کی اور اس کا حل تلاش کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی تو ملت کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا ۔
افراد خاندان کو ایک دوسرے سے جوڑنے والی چیز محبت ہے ۔ جس طرح اینٹوں کے درمیان وافر مقدار میں سیمنٹ ہو تو مضبوط دیوار کھڑی ہوتی ہے ، جس میں شگاف ڈالنا آسان نہیں ہوتا ، لیکن اگر اس کی مقدار کم ہو ، یا اس کے بغیر ہی اینٹوں کو چن دیا گیا ہو تو ہلکا سا دھکا بھی انھیں زمیں بوس کر دیتا ہے ۔ اسی طرح اگر افرادِ خاندان کے تعلقات محبت پر استوار ہوں تو وہ ایک دوسرے کی کوتاہیوں کو نظر انداز کرتے ہیں ، لیکن اگر محبت میں کمی ہونے لگے تو شکایات سر اٹھانے لگتی ہیں ، جو بڑھ کر تنازعات کی شکل اختیار کرلیتی ہیں اور دھیرے دھیرے خلیج اس قدر وسیع ہوجاتی ہے کہ پھر یکجائی کی کوئی صورت باقی نہیں رہتی ۔
فرائض اور حقوق کا ایک دوسرے سے گہرا تعلق ہے ۔ بیوی کے فرائض شوہر کے حقوق اور شوہر کے فرائض بیوی کے حقوق ہیں ۔ والدین کے فرائض اولاد کے حقوق اور اولاد کے فرائض والدین کے حقوق ہیں ۔ یہی معاملہ دیگر افرادِ خاندان کے فرائض اور حقوق کا ہے ۔ اگر ان میں سے ہر ایک کی نظر اپنے فرائض پر ہو اور وہ کما حقہ انھیں ادا کر رہا ہو تو دیگر افراد اپنے حقوق سے صحیح طریقے سے بہرہ ور ہوں گے ، وہ ایک دوسرے پر اپنی جان چھڑکیں گے ، ٹوٹ کر محبت کریں گے ، ان کے دل کدورتوں سے پاک ہوں گے اور وہ باہم شیر و شکر ہو کر زندگی گزاریں گے ۔
لیکن ہوتا یہ ہے کہ افرادِ خاندان میں سے ہر ایک کی نظر بس اپنے حقوق پر ہوتی ہے اور وہ اپنے فرائض سے جی چراتا ہے ۔ وہ یہ تو دیکھتا ہے کہ دوسرے اس کے ساتھ کیا برتاؤ کر رہے ہیں اور ان کا معاملہ کیسا ہونا چاہیے؟ لیکن اس کے حاشیۂ خیال میں بھی نہیں آتا کہ خود اس کا سلوک بھی دوسروں کے ساتھ مثالی نہیں ہے اور اسے ان کے معاملے میں جس رویے کا مظاہرہ کرنا چاہیے ، وہ نہیں کر رہا ہے ۔ یہ بھی محسوس کیا جا رہا ہے کہ افرادِ خاندان میں آپسی معاملات میں قوتِ برداشت میں کمی پائی جاتی ہے ۔ شوہر کسی بات پر ناگواری ظاہر کرے تو بیوی اسے برداشت نہیں کرتی اور پلٹ کر جواب دے بیٹھتی ہے ۔ بیوی کا کوئی رویّہ شوہر کو پسند نہ آئے تو وہ محبت سے اس کی اصلاح کی کوشش نہیں کرتا ، بلکہ ڈانٹ ڈپٹ شروع کر دیتا ہے اور اس کی عزت نفس کا خیال نہیں رکھتا ۔ بوڑھے والدین کو اولاد بوجھ سمجھنے لگی ہے اور نہیں چاہتی کہ وہ اس کے کسی معاملے میں دخل اندازی کریں اور اسے اچھا برا سمجھانے کی کوشش کریں ۔ چنانچہ ان کے خیر خواہانہ مشورے بھی اسے ناگوار گزرتے ہیں ۔
خاندان میں اگر تنازعات سر اٹھانے لگیں تو ابتدا ہی میں ان کا تدارک کرنا حکمت اور دانش مندی کا تقاضا ہے ۔ تنازعہ اگر زوجین کے درمیان ہو تو قرآن کی تعلیم یہ ہے کہ وہ خاندان کے کسی فرد کو شریک کیے بغیر آپس ہی میں اس کو حل کرنے کی کوشش کریں ۔ اگر وہ اس میں کام یاب نہ ہو سکیں اور ایک دوسرے سے شکایت ختم نہ ہوپا رہی ہو تو خاندان کے بڑوں اور بزرگوں کو شامل کریں ، جو تنازعہ کی بنیاد کو سمجھ کر اور انھیں سمجھا بجھا کر معاملہ کو رفع دفع کرنے کی کوشش کریں ۔ تنازعہ کسی بہت معمولی بات پر شرع ہوتا ہے ، انا اسے ہوا دیتی ہے ، اس طرح دھیرے دھیرے رائی پربت کی شکل اختیار کر لیتی ہے ، یہاں تک کہ بسا اوقات علیٰحدگی اور طلاق کی نوبت آجاتی ہے ۔ افہام و تفہیم کی کوشش کی جائے تو امید ہوتی ہے کہ تنازعہ دور ہو جائے اور معاملہ کی پیچیدگی سلجھ جائے ۔
حدیث میں ہے کہ شیطان کو سب سے زیادہ خوشی اس بات سے ہوتی ہے کہ کسی جوڑے میں تنازع پیدا ہوجائے اور کسی خاندان کا شیرازہ منتشر ہوجائے ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ’’ شیطان پانی پر اپنا عرش بچھاتا ہے ، پھر اپنے جن کارندوں کو دنیا میں فتنہ و فساد پھیلانے کے لیے بھیج رکھا تھا ، ان سے رپورٹ طلب کرتا ہے ۔ ہر کارندہ اپنی رپورٹ پیش کرتا ہے تو شیطان اس پر تبصرہ کرتا ہے : یہ کوئی خاص کام نہیں ۔ ایک کارندہ اٹھ کر کہتا ہے : میں نے ایک شوہر اور بیوی کے درمیان جھگڑا کروادیا ، یہاں تک کہ علیٰحدگی کی نوبت آگئی ۔ شیطان اسے شاباشی دیتا ہے اور کھڑے ہوکر اسے گلے لگالیتا ہے ۔
(مسلم : 2813)
ضرورت اس بات کی ہے کہ خاندانی تنازعات کو حل کرنے کی سنجیدہ کوششیں کی جائیں اور ایسی تدابیر اختیار کی جائیں کہ افرادِ خاندان کے درمیان تعلقات میں خوش گواری آجائے اور ان کے دلوں میں باہمی محبت میں اضافہ ہو ۔
فیملی کونسلنگ موجودہ زمانے میں ایک فن بن گیا ہے ۔ اس کے باقاعدہ کورسز تیار کیے گئے ہیں ، جن سے گزرنے کے بعد ڈگریاں دی جاتی ہیں ۔ ان کورسز میں نفسیات ، سماجیات اور دیگر متعلقہ مضامین شامل کیے گئے ہیں ۔ جا بجا کونسلنگ سنٹرس قائم کیے گئے ہیں ، جن سے تنازعہ کے شکار افرادِ خاندان رجوع کرتے ہیں اور ان سے وابستہ ماہر اور سند یافتہ کونسلر کی خدمات اپنے مسائل کو حل کرنے کے لیے حاصل کرتے ہیں ۔ عموماً تنازعہ کے دوران ہر فرد کی نظر دوسرے کی کم زوری اور خامی پر ہوتی ہے ۔ کونسلر اس کی نفسیات کا تجزیہ کرتا ہے اور اسے دوسرے فرد کی خوبیوں پر نظر ڈالنے کی طرف مائل کرتا ہے ۔ کونسلنگ سینٹر کا تجربہ بتاتا ہے کہ ان کے ذریعہ بہت سے تنازعات کو ختم کرنے اور ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑنے میں مدد ملتی ہے اور بہت سے خاندان انتشار کا شکار ہونے سے بچ جاتے ہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حسبِ سہولت و موقع فیملی کونسلنگ کے مراکز قائم کیے جائیں اور ان کے ذریعہ خاندانی تنازعات کو حل کرنے کی کوشش کی جائے ۔ امید ہے ، اس طرح مسلمانوں کے بہت سے خاندانی تنازعات کو ملکی عدالتوں میں پہنچنے سے قبل ہی سلجھایا جا سکے گا۔
جماعت اسلامی ہند نے کوشش کی ہے کہ ملک میں بڑی تعداد میں فیملی کونسلنگ سنٹرس قائم کیے جائیں گے ۔ الحمد للہ تمام ریاستوں میں یہ سنٹرس اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ وقتاً فوقتاً ان سینٹرس کے ذمے داروں اور کونسلرس کے ورک شاپس منعقد کیے جاتے ہیں ، تاکہ فنّی طور سے وہ بہتر خدمات انجام دے سکیں ۔ مسلمانوں کی دیگر تنظیموں اور حلقوں کو بھی اس میدان میں پیش قدمی کرنی چاہیے کہ خاندانی تنازعات کو حل کرنے کی تدابیر اختیار کرنا وقت کا تقاضا ہے ۔
(مضمون نگار جماعت اسلامی ہند کے شعبہ اسلامی معاشرہ کے سکریڑی ہیں)
***

 

***

 فرائض اور حقوق کا ایک دوسرے سے گہرا تعلق ہے ۔ بیوی کے فرائض شوہر کے حقوق اور شوہر کے فرائض بیوی کے حقوق ہیں ۔ والدین کے فرائض اولاد کے حقوق اور اولاد کے فرائض والدین کے حقوق ہیں ۔ یہی معاملہ دیگر افرادِ خاندان کے فرائض اور حقوق کا ہے ۔ اگر ان میں سے ہر ایک کی نظر اپنے فرائض پر ہو اور وہ کما حقہ انھیں ادا کر رہا ہو تو دیگر افراد اپنے حقوق سے صحیح طریقے سے بہرہ ور ہوں گے ، وہ ایک دوسرے پر اپنی جان چھڑکیں گے ، ٹوٹ کر محبت کریں گے ، ان کے دل کدورتوں سے پاک ہوں گے اور وہ باہم شیر و شکر ہو کر زندگی گزاریں گے ۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 29 اگست تا 4 ستمبر 2021