حکومت نہیں سنے گی تو تاریخ کا عظیم ترین احتجاج ہوگا

مردم شُماری سے قبل سرنا مذہبی رہنما بندھن کا چکا جام کا انتباہ

مردم شُماری کے خانے میں الگ "سرنا دھرم کوڈ” شامل کرنے کے مطالبے نے زور پکڑ لیا ہے۔ اس تحریک کو سمجھنے کی غرض سے ہفت روزہ دعوت کے نمائندے افروز عالم ساحل نے آدی باسیوں کے سرنا دھرم گرو، بندھن تگّا سے خاص بات چیت کی۔ بندھن تگّا ’راجی پڑہا سرنا دپراتھنا سبھا‘ کے قومی صدر بھی ہیں اور ان دنوں علاحدہ سرنا دھرم کوڈ کی تحریک کی قیادت کر رہے ہیں۔

سوال:’سرنا دھرم کوڈ‘ کے آپ کے مطالبے کو جھارکھنڈ حکومت نے تسلیم کر لیا ہے۔ اب آگے کیا؟

جواب:جھارکھنڈ کے بعد پڑوسی ریاستوں اڑیسہ، مغربی بنگال، آسام و چھتیس گڑھ وغیرہ میں تحریک کو لے جانے کا پروگرام ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ جس طرح سے جھارکھنڈ حکومت نے سرنا دھرم کوڈ پر قرارداد منظور کرکے مرکزی حکومت کو بھیج دی ہے، اسی طرز پر دیگر ریاستیں بھی مرکز کو اپنی اپنی اسمبلیوں کی منظور کردہ قراردادیں روانہ کریں تاکہ مرکزی حکومت متوجہ ہو اور وہ جلد سے جلد ہمارے سرنا دھرم کوڈ کو نافذ کرنے کے لیے قانون سازی کرے۔

سوال: جھارکھنڈ کی طرز پر دیگر ریاستوں نے سرنا دھرم کوڈ کے حق میں اگر قرارداد منظور نہیں کی تو؟

جواب:تب بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ ہماری لڑائی براہِ راست مرکزی حکومت سے ہے۔ ہم پوری یکسوئی سے اپنے لوگوں کو بیدار کر رہے ہیں۔ اگر یہ ریاستیں بھی قراردادیں منظور کر دیتی ہیں تو ہماری لڑائی کو ایک بنیاد ضرور فراہم ہو جائے گی۔ ویسے ہم نے اپنے لوگوں کو بیدار کردیا ہے۔ جہاں اب تک کما حقہ بیداری نہیں آئی ہے، وہاں ہمارا کام چل رہا ہے۔ مئ ۲۰۲۱ میں مردم شماری ہونا ہے۔ اگر اس سے قبل مردم شماری والے فارم میں ہمارا سرنا دھرم کوڈ والا کالم شامل نہیں کیا گیا تو ہم ملک میں جگہ جگہ اس مردم شماری یا این پی آر کی مخالفت کریں گے۔

سوال: سرنا کوڈ کی مہم فی الحال کن ریاستوں میں چل رہی ہے؟

جواب:جھارکھنڈ کے ساتھ ساتھ خاص طور پر چھتیس گڑھ، اڑیسہ، مغربی بنگال اور آسام میں ہمارا کام چل رہا ہے۔ اب نئی دلی کوچ کرنے کی تیاری ہے۔ اس کے بعد دھیرے دھیرے ملک کی تمام ریاستوں کے آدی باسیوں کو متحد کیا جائے گا۔

ہم نے ۳ جنوری کو جئےپال منڈا جی کی یوم پیدائش کے موقعے پر کولکاتہ کے نیتاجی انڈور اسٹیڈیم میں ’سرنا دھرم مہا سمیلن‘ منعقد کیا تھا۔ وزیر اعلیٰ ممتا بینرجی جلد ہی سرنا دھرم کوڈ سے متعلق ایک تجویز مرکزی حکومت کو بھیج دیں گی۔ پڑوس میں اڑیسہ حکومت کا رویہ بھی کافی مثبت ہے۔

سوال: سرنا دھرم کوڈ کی لڑائی پہلے سے چلی آرہی ہے یا آدی باسیوں کو اپنے علاحدہ مذھب سےتعلق کا خیال اب آیا ہے؟

جواب :یہ لڑائی نئی تو نہیں ہے۔ جب سے ہمارا ملک آزاد ہوا ہے، تبھی سے ہم اپنی مذہبی شناخت کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ انگریزوں کی غلامی کے دور میں بھی 1872 اور 1951 کی مردم شماری کے دوران ’آدیواسی دھرم‘ کے لئے ایک علاحدہ کالم ہوا کرتا تھا۔ پھر جب ملک آزاد ہوا، ہمارا آئین تیار ہوا تب پتہ نہیں کن وجہوں سے لیکن ہماری مذہبی شناخت ہم سے چھین لی گئی۔ آدی باسی کو شیڈول ٹرائب (ST) کا درجہ دیا گیا۔ ایک طرف تو ہمیں ہندو مذہب سے الگ رکھا گیا، لیکن ہمارا دھرم کوڈ یا ہمیں دیگر مذاھب کے برابر درجہ حاصل نہیں ہوا۔ ہم یک بارگی بھارت کے چھ (٦) مذہبوں میں شمار ہوسکتے ہیں، لیکن کوئی آدی باسی خود کو ان چھ مذاہب میں شامل نہ کرے تو ان کے زمرہ کو آپ کیا نام دیں گے؟ ملک کی آزادی کے وقت سے مستقل ہمارا مسئلہ برقرار ہے۔ ہمارے بہترین آئین کے تحت سبھی مذاہب کو برابر کا حق حاصل ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ وہی برابری کا حق ہمیں بھی ملے۔

سوال: آپ آدی باسی کو ہندو مذہب سے الگ کیسے مانتے ہیں؟

جواب:ہم لوگ کسی بھی مورتی کی پوجا نہیں کرتے۔ ہم ’پرکریتی‘ (فطرت یا نیچر) کی پوجا کرنے والے لوگ ہیں۔ ہمارا ہر کام ہندوؤں سے الگ ہے۔ ہمارے برھم کانڈ، جنم سنسکار، شادی بیاہ کی رسومات سب کچھ دیگر ہندوؤں سے یکسر جدا ہے۔ ہمارے اپنے روایتی قوانین کے لیے الگ ’کسٹمری لاء‘ کی تجویز ہے جس کو آئین نے بھی منظوری دے رکھی ہے۔ ہم اکثر ہمارے مردوں کو نذرآتش نہیں کرتے، بلکہ مٹی میں دفن کرتے ہیں۔

ہم آدی باسی زندہ پیڑ کو نہیں کاٹتے۔ ہمارا ماننا ہے کہ "جب تک پیڑ ہے تب تک ہم ہیں”۔ ہم کسی بھی دھارمک گرنتھ (مذہبی کتاب) کو نہیں مانتے۔ ہمارا ماننا ہے کہ بھگوان کو کتابوں میں سمیٹا نہیں جا سکتا نہ کسی مندر یا مسجد، گرودوارہ یا چرچ میں قید کرسکتے ہیں۔ آدی باسی تمام مذاہب کا یکساں احترام کرتے ہیں۔

سوال: الزام ہے کہ سرنا دھرم کوڈ کا مطالبہ عیسائیوں کی سازش ہے۔ اس پر آپ کیا کہیں گے؟

جواب:ملک میں سازش تو ہمیں مٹانے کی چل رہی ہے۔ آر ایس ایس ایک سازش کے تحت ہمیں ہندو قرار دیتی ہے۔ اپنی ہر غلطی یا خامی چھپانے کے لئے سنگھ ایسے الزام عیسائیت پر تھوپتا آیا ہے۔ عیسائیوں کو ہم سے کیا غرض ہو سکتی ہے؟ عیسائیوں کی سازش والا الزام سراسر غلط ہے۔ ہم اپنا حق مانگ رہے ہیں، بس۔ اگر کوئی ہمارے جائز مطالبے کی تائید کر رہا ہے تو ہم اس عمل کو سازش کیسے کہہ سکتے ہیں؟

سوال: ملک کی مختلف ریاستوں میں آدی باسی لوگ الگ الگ کوڈ (مذہبی ضابطوں) کا مطالبہ کررہے ہیں تو حکومت ان سب کے مطالبات کو پورا کیسے کر سکے گی؟

جواب:آپ کا سوال بالکل جائز ہے۔ ہمارے یہاں بھی کچھ لوگ سیاست کررہے ہیں۔ لیکن میں آپ کو بتادوں کہ 2011 کی مردم شماری میں 80 ہزار لوگوں نے خود کو ’آدیواسی‘ لکھوایا تھا۔ ’آدی‘ دھرم لکھنے والوں کی تعداد بھی تقریباً 80 تا 90 ہزار تھی۔ ‘گونڈی دھرم’ لکھنے والوں کی تعداد 10 لاکھ ہے اور ’سرنا‘ دھرم درج کروانے والوں کی تعداد قریب 50 لاکھ ہے۔ واضح رہے کہ ملک میں جین مذہب کے ماننے والے صرف 44 لاکھ ہیں، لیکن ان کو اپنی علاحدہ مذہبی شناخت ملی ہوئی ہے۔ (جینیوں کو مذہبی اقلیت کا آئینی درجہ ملا ہوا ہے۔) جبکہ ملک میں سرنا مذہب کو ماننے والوں کی تعداد کروڑوں میں ہے جو ملک کے 21 صوبوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔

سوال: آپس میں موجود نا اتفاقیوں کو آپ کیسے دور کریں گے؟ تمام آدی باسیوں کو کیسے متحد کریں گے؟

جواب :ملک کے تمام آدی باسیوں کو متحد کرنے کی ہماری کوشش مسلسل جاری ہے۔ ہم نے گونڈی دھرم کے دھرم گروؤں سے ملاقات کی ہے، ان کا بھی کہنا ہے کہ اگر آدی باسیوں کو علاحدہ سرنا دھرم کوڈ مل جاتا ہے تو ہم سب بھی اسی میں ضم ہوجائیں گے۔ ہم گونڈی اور سرنا دونوں دھرم کانڈ (مذہبی اطوار) میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ ہمارے دیگر فرقوں سے بھی بات چیت چل رہی ہے۔ بالآخر ہم سب آدی باسی ایک ہیں۔ جس طرح سے دوسرے مذاہب میں الگ الگ فرقے پائے جاتے ہیں، وہی معاملہ سرنا دھرم کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے۔

سوال: کیا آپ کو لگتا ہے کہ مرکزی حکومت آپ کے اس مطا لبے کو آسانی سے تسلیم کر لے گی؟

جواب:کوئی بھی جنگ آسانی سے نہیں جیتی جاتی۔ ویسے بھی مرکز میں ’آر ایس ایس‘ (والوں) کی حکومت ہے۔ وہ ہمیں ہندو بنائے رکھنے کی چال چل رہے ہیں۔ اس لئے ہر دس سال میں جب مردم شماری کا عمل انجام دیا جاتا ہے، اس میں ہر خانے کی جانکاری پین کی بجائے، پینسل سے درج کی جاتی ہے۔ بعد میں یہ کارندے فارم‌ کے اندر مذہب کے خانے میں "سرنا” لفظ کو بدل کر وہاں "ہندو” لکھ دیتے ہیں۔ جس سے ہماری اصل آبادی کا پتہ نہیں چلتا۔ کتنی عجیب بات ہے کہ غلام بھارت میں انگریزوں نے ہمیں ہمارا نام دیا، ہماری گنتی بھی کی، لیکن آزادی کے بعد یہاں کی حکومتوں نے ہمیں نظر انداز کیا؟ جو بھی حکومت آئی، انہوں نے ہمارے ساتھ ناانصافی کی اور اب تک ناانصافی کا سلسلہ دراز ہے۔ جب دیگر تمام شہریوں کو اپنے اپنے مذہب کو ماننے کی آزادی ملی ہے تو ہم آدی باسیوں کو وہی حق کیوں نہیں دیا جا رہا؟ ہمیں زبردستی ہندو گردانا جا رہا ہے۔ یعنی ہندو لوگ ہی ہمارا مذہب تبدیل کرا رہے ہیں۔ لیکن ان میں جو دوسرے کسی مذہب کو اپنا چکے ہیں، ان سے ہماری کوئی لڑائی نہیں ہے۔ ہماری لڑائی خود اپنی مذہبی شناخت کے مطالبے پر مبنی ہے۔

سوال: اگر آپ کے مطالبے کو مرکزی حکومت نے تسلیم نہیں کیا تو؟

جواب :اگر الگ دھرم قرار دینے کے ہمارے مطالبے کو مرکزی حکومت نہیں مانتی ہے تو یہ ملک، ہماری اب تک کی سب سے بڑی تحریک دیکھے گا۔ ملک کی تاریخ میں شاید یہ پہلی بار ہوگا کہ اتنی بڑی آبادی سڑکوں پر ہوگی۔ ہم پورے ملک میں چکا جام کردیں گے اور اس کی پوری تیاری چل رہی ہے۔

سوال: لیکن موجودہ حکومت تو چکا جام اور احتجاج کرنے والوں کو ’اینٹی نیشنل‘ (ملک دشمن) قرار دیتی ہے؟

جواب: حکومت جو مانتی ہے، اسے ماننے دیجئے۔ یہ حکومت ہم سے ہے، نہ کہ ہم حکومت سے۔ جب ہمارے پاس تو اس وقت اپنی آواز پہونچانے کا یہی ذریعہ ہے اور ہمیں چکا جام کا یہ حق ہمارے آئین نے دیا ہے۔ یہ ہمارا جمہوری حق ہے۔
***

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 24 جنوری تا 30 جنوری 2021