حفظان صحت کے اُصول نبویؐ ہدایات کی روشنی میں

وباء کے زمانے میں احتیاطی تدابیر اختیار کرنا سنت سے ثابت

مفتی طیب عبدالسلام قاسمی

آج دنیا بھر میں ہر جگہ صرف ایک ہی موضوع چھایا ہوا ہے اور وہ ہے کورونا وائرس۔ ہر شخص اس وائرس سے بچنا چاہتا ہے اور ایک قسم کا خوف ہے جس میں حکم رانوں سے لے کر عام افراد تک سبھی مبتلا نظر آتے ہیں۔ ایسے میں ایک رائے یہ بھی ہے کہ کوئی مرض متعدی نہیں ہوتا ہے اس لیے صرف بھروسہ اللہ پر ہونا چاہیے۔ اس ضمن میں بخاری شریف کی ایک حدیث کا حوالہ دیا جاتا ہے جس میں کہا گیا ’’کوئی مرض (اپنی ذات سے) متعدی نہیں ہوتا‘‘۔ متاثرہ شخص سے بیماری کا وائرس صحت مند آدمی میں منتقل ہونے کو ’متعدی‘ (communicable ) کہتے ہیں۔ بعض لوگوں نے اس کا مفہوم یہ لیا کہ کوئی مرض سرے سے متعدی ہوتا ہی نہیں ہے اور وہ مہلک امراض سے بچنے کے لیے حفاظتی تدابیر اختیار کرنے کو خلاف توکل سمجھتے ہیں۔ یہ فہم نہ صرف میڈیکل سائنس کے خلاف ہے بلکہ عام مشاہدہ و تجربہ سے بھی اس کی نفی ہوتی ہے۔ چنانچہ جب رسول اللہﷺ نے مرض کے فی نفسہ متعدی نہ ہونے کی بات فرمائی تو ایک اعرابی نے سوال کیا: یارسول اللہ! اُونٹ ریگستان میں ہرن کی طرح اْچھل کود کر رہے ہوتے ہیں کہ کوئی خارش زَدہ اونٹ ریوڑ میں گھس آتا ہے اور اْس کے نتیجے میں سارے اونٹ خارش کی بیماری میں مبتلا ہوجاتے ہیں، آپﷺ نے فرمایا: پہلے اْونٹ کو خارش کہاں سے لگی‘‘۔ (مسلم) اِس ارشاد معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہﷺ نے مرض کے مُتعدی ہونے کی نفی نہیں فرمائی، بلکہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کی طرف متوجہ فرمایا اور بتایا کہ اسباب کی یہ دنیا مْسبِّبِ اسباب کے حکم کے تابع ہے۔ لہٰذا عالم اسباب میں تحفظ وبچاو کی تدابیر سے فرار ممکن نہیں ہے اور توکل کی تعریف یہ بیان کی گئی ہے کہ پہلے اونٹ کو رسّی سے باندھو پھر اللہ پر بھروسہ رکھو۔ اسی طرح تدبیر کے طور پر اسباب کو اختیار کرتے ہوئے سب چیزوں کو قادرِ مْطلق کے تابع فرمان سمجھنا ہی ایمان کی شان اور توکل کی تشریح ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سے موقعوں پر نہ صرف صحت عامہ کے عام اصولوں پر زور دیا ہے بلکہ وباوں سے بچنے کی تلقین بھی کی ہے۔ مثال کے طور پر چند منتخب احادیث پیش ہیں:
1) سیدنا اسامہ بن زید روایت کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’طاعون عذاب کی ایک صورت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے تم سے پہلی اْمّتوں یا بنی اسرائیل پر مُسلط فرمایا لہذا جب کسی جگہ یہ بیماری پھیل جائے، تو وہاں کے لوگ اُس بستی سے باہر نہ جائیں اور جو اُس بستی سے باہر ہیں، وہ اْس میں داخل نہ ہوں‘‘۔ (مسلم)
2) سیدنا عمرؓ شام کے سفر پر جارہے تھے، سَرغ نامی بستی سے اْن کا گزر ہوا، سیدنا ابوعبیدہ بن جراحؓ اور اْن کے ساتھیوں نے بتایا کہ اِس بستی میں طاعون کی وبا پھیل گئی ہے۔ سیدنا عمر فاروقؓ نے مہاجرین وانصار صحابہ کرام اور غزوۂ فتحِ مکہ میں شریک اکابرِ قریش سے مشورہ کیا، پھر اجتماعی مشاورت سے اْنہوں نے بستی میں داخل نہ ہونے کا فیصلہ کیا۔ سیدنا ابو عبیدہ بن جراحؓ نے کہا: امیر المومنین! اللہ کی تقدیر سے بھاگ رہے ہو، انہوں نے جواب دیا: ہاں! اللہ کی تقدیر سے بھاگ کر اللہ کی تقدیر کی آغوش میں پناہ لے رہا ہوں۔ پھر سیدنا عبدالرحمن بن عوفؓ آئے اور اْنہوں نے کہا: اس حوالے سے میرے پاس رسول اللہ ﷺکی ہدایت موجود ہے، آپﷺ نے فرمایا: ’’جب تم کسی بستی میں اِس وبا کے بارے میں سنو، تو وہاں نہ جاؤ اور اگر تم پہلے سے وہاں موجود ہو اور یہ وبا پھیل جائے تو وہاں سے بھاگ کر نہ جاؤ‘‘۔ یہ سن کر حضرت عمر بن خطابؓ نے اللہ کا شکر ادا کیا اور اپنا سفر آگے کی طرف جاری رکھا‘‘۔ (مسلم)
3) ’’بیمار کو تندرست سے الگ رکھا جائے‘‘۔ (مسلم)
4) ’’جذام کے مریض سے بچو جیسے تم شیر سے بچتے ہو‘‘۔ (بخاری)
ان تمام احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ پھیلنے والی بیماریوں اور وباوں سے بچنے کے لیے احتیاط برتنا ضروری ہے۔
اس مضمون میں طب و صحت کے پیچیدہ مسائل کو زیر بحث لانا مقصد نہیں ہے بلکہ صحت وحفظان صحت کے وہ سیدھے سادے اصول بیان کرنا مقصود ہے جنہیں اختیار کرکے ہر انسان اچھی صحت پا سکتا ہے۔یہاں صحت عامہ کے کچھ عام اصول نبویﷺ ہدایات کی روشنی میں پیش ہیں۔
1۔ سحر خیزی
سحر خیزی اور صبح جلد اٹھنے کی عادت ایک بہترین عادت ہے اور صحتِ جسمانی کا زرین اصول ہے۔ چنانچہ اسلام میں فجر کی نماز کا وقت علی الصبح رکھا گیا ہے۔ اگر انسان فجر کے ساتھ اپنے دن کا آغاز کرے تو نہ صرف تازہ ہوا سے سیر ہوگا بلکہ صبح کے سہانے موسم کا اس کی ذہنی و جسمانی صحت پر اچھا اثر مرتب ہوگا۔ وہ بالکل تازہ دم ہو کر ایک طرح کی خوشی کا احساس اپنے اندر پائے گا۔ صاف ستھری فضا میں سانس لے کر وہ خود کو تندرست وتوانا محسوس کرنے لگے گا۔
2۔ ورزش اور حرکیاتی زندگی
نماز کا ایک ثانوی فائدہ یہ بھی ہے کہ اس سے ایک طرح کی ہلکی پھلکی ورزش ہو جاتی ہے۔ ماہرین صحت نے صحتِ جسمانی کی برقراری کے لیے ورزش کو نہایت اہم اور ضروری قرار دیا ہے۔ اس سے جسم میں خون کی روانی بہتر ہوتی ہے روزانہ گھنٹہ دیڑھ گھنٹہ ہلکی پھلکی ورزش کرنے یا چلنے پھرنے سے جسمانی صحت کے ساتھ ذہنی کارکردگی بھی بہتر ہوتی ہے اور ذہنی دباو سے چھٹکارہ بھی مل جاتا ہے۔ تیراکی ایک بہترین ورزش ہے۔ چنانچہ نبی کریم ﷺتیرنے میں دلچسپی رکھتے تھے۔ ایک مرتبہ آپﷺ اور آپﷺ کے چند صحابی تالاب میں تیر رہے تھے آپﷺنے تیرنے والوں میں سے ہر ایک کی جوڑی مقرر فرمادی کہ ہر آدمی اپنے جوڑ کی طرف تیر کر پہنچے۔ چنانچہ آپﷺ کے ساتھی حضرت ابوبکرؓ قرار پائے اور آپ تیر کر اُن تک پہنچے اور جا کر ان کی گردن پکڑ لی۔ اسی طرح آپؓ نے گھڑسواری اور تیر اندازی کی بھی حوصلہ افزائی فرمائی: حضرت عقبہؓ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تِیر چلانا سیکھو، گھوڑے پر سوار ہوا کرو، تیر اندازی کرنے والے مجھے گھوڑوں پر سوار ہونے والوں سے بھی زیادہ پسند ہیں اور جس نے تیر اندازی سیکھ کر چھوڑ دی اس نے خدا کی نعمت کی ناقدری کی‘‘۔ (ابو داود) ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریمﷺ حرکیاتی قائد تھے اور آپﷺ نے فعال زندگی کو پسند فرمایا۔ جفا کشی آپﷺ کا وطیرہ تھی۔ فی زمانہ سستی و اضمحلال نے لوگوں سے قوت کارکردگی چھین لی۔ فعالیت اور چست روی نہ صرف اچھی صحت کے لیے ضروری ہے بلکہ خدمت اسلام کا ایک اہم تقاضہ بھی ہے۔
3۔ صفائی وستھرائی
دین اسلام میں پاکی و صفائی کی خوب حوصلہ افزائی کی گئی ہے یہاں تک کہ اسے نصف ایمان قرار دیا گیا ہے۔ صاف ستھرا رہنے سے انسان تندرست و توانا رہتا ہے۔ چنانچہ پانچ وقت نماز کے لیے وضو کرنے کا فائدہ یہ ہے کہ اعضائے وضو میل کچیل، گرد وغبار اور جرثوموں سے پاک ہو جاتے ہیں اور طبعیت بشاشت پیدا ہوتی ہے۔ ماہرینِ صحت اس امر کو تسلیم کرتے ہیں کہ صاف ستھرا رہنے کی عادت انسان کو کئی بیماریوں سے بچاتی ہے۔ ہاتھ دھونے کی عادت سے انسان بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے۔
کم خوری اور متوازن غذا کا استعمال
کھانا ہمیشہ وقت پر کھانا چاہیے اور شکم سیری سے بچنا چاہیے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے: ’’مومن ایک آنت میں کھاتا ہے اور کافر سات آنتوں میں کھاتا ہے‘‘ (ترمذی)
کم خوری کی ترغیب دیتے ہوئے آپﷺ نے یہ بھی فرمایا ’’ایک آدمی کا کھانا دو آدمیوں کے لیے کافی ہے‘‘۔ نبی ﷺ بغیر چھنے آٹے کی روٹی پسند فرماتے تھے۔ بہت زیادہ گرم کھانا جس میں سے بھاپ نکلتی ہوتی نہ کھاتے بلکہ ٹھنڈا ہونے کا انتظار فرماتے۔ اسی طرح آپﷺ نے تغذیہ بخش غذاوں جیسے کھجور، شہد اور گوشت کو پسند فرمایا ہے۔ غذا ایسی ہونی چاہیے جو نہ صرف بھوک مٹائے بلکہ اس سے تمام غذائی اجزاء جیسے وٹامن، پروٹین، کاربو ہائیڈریٹ، چکنائی، پانی اور معدنی نمکیات وغیرہ ہماری جسمانی ضرورت کے مطابق حاصل ہوجائیں۔
اعتدال و میانہ روی
اعتدال کا رویہ کامیاب زندگی کی کلید ہے۔ کھانے پینے، سونے جاگنے، جسمانی ودماغی محنت، ازدواجی تعلق، رفتار وگفتار غرض ہر چیز میں اعتدال ہونا چاہیے۔ نبی کریم ﷺکا ارشاد ہے ’’خوش حالی میں میانہ روی کیا ہی خو ب ہے، ناداری میں اعتدال کی روش کیا ہی بھلی ہے اور عبادت میں درمیانی روش کیا ہی بہتر ہے‘‘۔ (مسند بزار، کنز العمال)
احتیاط وپرہیز
غیر متوازن غذا سے احتیاط اور پرہیز کریں۔ مثلاً زیادہ مرغن غذا نہ لیں۔ حرام اور نشہ آور چیزوں سے دور رہیں۔ موسمی اثرات سے احتیاط برتیں۔ غرض زندگی کے تمام معاملات میں احتیاط کو ملحوظ رکھیں۔
(مضمون نگار جامعہ ریاض الصالحات حیدرآباد میں شیخ التفسیر ہیں)