حسن اور اخلاق

کردار کی خوبصورتی زندگی کو خوشگوار بناتی ہے

محمد یوسف اصلاحی

محمد یوسف اصلاحی
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر یہ دعا مانگا کرتے تھے ’’ اے اللہ تونے میرے جسم کی ساخت بہت اچھی بنائی ہے ، پس اسی طرح تو میرے اخلاق بھی اچھے بنادے‘‘ (رواہ احمد)
جسم کی ساخت سے مراد جسمانی حسن و جمال ہے، جس میں موزوں اعضا حسین و جمیل صورت، صحت مند جسم، جاذب قلب و نظر خد و خال اور دل کش شخصیت سب کچھ شامل ہے۔
اللہ کے رسول جس طرح اخلاق و کردار میں بے مثال تھے، اسی طرح جسمانی حسن و جمال میں بھی بے مثال تھے۔ یہ حقیقت ہے کہ حسن و جمال بھی خدا کی نعمتوں میں سے ایک اہم نعمت ہے، اور خدا کے رسول ﷺ نے اس دعا میں خدا کی اس نعمت اور احسان کا اعتراف کرتے ہوئے یہ دعا مانگی ہے کہ خدایا جس طرح تو نے مجھے حسن صورت کی نعمت سے نوازا ہے اسی طرح حسن اخلاق کی نعمت سے بھی نواز دے!
رسول پاک ﷺ کی جو دعائیں احادیث میں ملتی ہیں تربیتی نقطہ نظر سے بھی ان کی بڑی اہمیت ہے، ان دعاوں سے ذہن و فکر کی اصلاح و تربیت ہوتی ہے ۔ سوچنے کا صحیح رخ ملتا ہے اور یہ سبق بھی کہ مومن کے دل میں کس قسم کی آرزوئیں اور تمنائیں ہونی چاہیئں ۔
اس حدیث سے یہ ہدایت ملتی ہے کہ حسن و جمال بھی خدا کی نعمت ہے اس پر بھی خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے لیکن خدا سے طلب کرنے کی چیز دراصل حسن اخلاق ہے۔ مومن کا اصل مقصود یہ ہونا چاہیے کہ وہ اعلیٰ اخلاق و کردار کا پیکر بنے ۔ حسن صورت تو ایک طبعی اور قدرتی انعام ہے، انسان کی کوشش و کاوش اور طلب کو اس میں قطعاً کوئی دخل نہیں ہے اور نہ صورت کی تبدیلی کے لیے دعا کرنا ہی صحیح ہے۔ البتہ اخلاق و کردار کی اصلاح اور سدھار کے لیے کوشش و کاوش بھی کرنی چاہیے اور خدا سے دعائیں بھی مانگتے رہنا چاہیے۔ حسن اخلاق دنیا کی زندگی میں بھی خدا کی سب سے بڑی نعمت ہے اور آخرت میں بھی انسان کی اصل قدر و عظمت اخلاق و کردار ہی کی بنیاد پر ہوگی۔
قبیلہ مزینہ کے ایک آدمی کا بیان ہے کہ بعض صحابہ کرامؓ نے نبی کریمﷺ سے پوچھا ’’یا رسول اللہ! انسان کو جو کچھ عطا کیا گیا ہے اس میں سب سے بہتر کیا ہے؟‘‘ فرمایا ’’حسن اخلاق ‘‘ (البیقہی)
ایک دوسرے موقع پر ارشاد فرمایا:
قیامت کے روز مومن کی میزان عمل میں سب سے زیادہ وزنی چیز جو رکھی جائے گی وہ اس کے اچھے اخلاق ہوں گے‘‘۔ (ابو داود ، ترمذی)
مرد ہو یا عورت ہر ایک چاہتا ہے کہ وہ حسین و جمال ہو، لیکن یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ سماجی زندگی میں عورت کے لیے حسن و جمال ایک بنیادی ضرورت ہے، شادی کے لیے پسند و انتخاب میں بھی حسن و جمال ایک بنیادی عامل ہے اور شادی کے بعد بھی زوجین کی باہمی محبت و موانست اور خوش گوار تعلقات کے لیے ایک موثر بنیاد ہے اس لیے بجا طور پر ہر دور میں عورتیں اپنے حسن و جمال پر ناز کرتی رہی ہیں، اور اپنی طبعی اور قدرتی حسن و جمال کو مزید نکھارنے اور دل کش بنانے کے لیے نت نئے ذریعے اور طریقے ایجاد کرتی رہی ہیں، زرق برق اور شوخ و رنگین لباس ، چمچماتے زیورات اور نوع بنوع پاوڈر اور غازے ہمیشہ عورت کی ضرورت سمجھے جاتے رہے ہیں اور نسوانی حسن کو چار چاند لگانے کے لیے ان چیزوں سے استفادہ ہمیشہ عورت کا فطری حق سمجھا جاتا رہا ہے۔
اسلام نے عورت کو اس جائز فطری خواہش کا احترام کیا ہے اور کچھ حدود آداب کا پابند بناکر اسے پوری آزادی دی گئی ہے کہ وہ جس طرح چاہے بناو سنگار کرے بلکہ خوش گوار ازدواجی زندگی کے لیے اس کو ایک ضرورت محسوس کرتے ہوئے صرف اس کی ترغیب دی گئی ہے بلکہ تاکید کی گئی ہے۔
حسن و جمال کی اس ضرورت و اہمیت کے باوجود یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ ازدواجی زندگی میں اصل اہمیت کی چیز حسن صورت نہیں حسن سیرت ہے۔
بے شک وقتی اور ہنگامی طور پر حسین صورت بھی اپنے اندر مرعوب و متاثر کرنے کی بے پناہ قوت رکھتی ہے اور فوری طور پر آدمی کو مسحور کردیتی ہے لیکن مستقل اور پائیدار اثر ڈالنے والا جو ہر حسن اخلاق ہے دل جس جوہر کی قدر و عظمت کا معترف ہوتا ہے اور جس کے لیے مستقل اعتراف و احترام کا جذبہ پیدا ہوتا ہے وہ سیرت و کردار کا حسن ہے؎
حسن صورت چند روزہ، حسن سیرت مستقل
اس سے خوش ہوتی ہیں آنکھیں اس سے خوش ہوتا ہے دل
خانگی اور گھریلو زندگی کے تجربات اور جائزے بھی یہی بتاتے ہیں کہ عورت کی وقعت و عظمت اور مستقل پذیرائی کا اصل راز اخلاق و کردار کا حسن ہے خوشگوار گھریلو تعلقات میں بھی موثر عامل ڈ کردار اور اخلاق ہی ہے، ہاں اخلاق و کردار کے حسن کے ساتھ اگر حسن و جمال بھی ہوتو تعلقات و موانست میں اور زیادہ خوش گواری اور استحکام پیدا ہوجاتا ہے ، اس کے برخلاف اگر کوئی خاتون اخلاق و کردار کے اعتبار سے گری ہوئی ہے تو اس گراوٹ کی تلافی حسن و جمال سے ہرگز نہیں ہوتی اور اگر کبھی یہ فریب کسی کو شکار کرتا بھی ہے تو بہت جلد اس فریب کا پردہ چاک ہوجاتا ہے، اس کے برخلاف اگر کوئی خاتون صورت کے اعتبار سے کچھ کمزور بھی ہوتو سیرت و کردار کی چمک دمک میں یہ کمزوری نگاہوں سے اوجھل ہوجاتی ہے۔ پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ صورت جیسی کچھ بھی خدا نے بنادی اس کو بدل ڈالنا انسان کے بس میں نہیں ہے، ہاں اخلاق و کردار کی کمزوریوں کو دور کرنا اور اخلاقی خوبیوں میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام حاصل کرنا انسان کے اختیار میں ہے اس کے لیے وہ مناسب کوشش و کاوش بھی کرسکتا ہے اور اپنے خدا سے دعائیں بھی مانگ سکتا ہے۔ یہ کوشش و کاوش بھی نتیجہ خیز ہوتی ہے اور اللہ بھی ایسی دعاوں کو قبول کرتا ہے۔
ناممکن چیزوں کے لیے نہ کوشش کار گر ہوسکتی ہے اور نہ دعا کرنا ہی صحیح ہے، مثلاً اگر کوئی پستہ قد ، اپنے قد کی درازی کے لیے دعا کرے یا کوئی لمبے چہرے کا انسان کتابی چہرے کے لیے دعا کرے تو یہ دعا کرنا نا پسندیدہ اور ممنوع ہے۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  31 اکتوبر تا 6 نومبر 2021