توہین رسولﷺ ناقابلِ برداشت ہے، حکومت ایکشن لے

غلط فہمیوں کا ازالہ وقت کی اہم ضرورت۔مسلمان سیرت طیبہ کو عام کریں

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

 

عالمی سطح پر شر پسندوں کی جانب سے وقتاً فوقتاً قرآن مجید اور خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ کی اہانت کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔ اس معاملے میں ہمارا ملک ہندوستان بھی پیچھے نہیں ہے۔ چنانچہ یہاں بھی ایسے بد باطن اور دریدہ دہن افراد پائے جاتے ہیں جو وقتاً فوقتاً اپنی خباثت کو اگلتے رہتے ہیں اور قرآن کی تعبیر کے مطابق ’’جن کے دل کا بغض ان کے منھ سے نکلا پڑتا ہے اور جو کچھ وہ اپنے سینوں میں چھپائے ہوئے ہیں وہ اس سے شدید تر ہے۔‘‘(آل عمران:۱۱۸)
ایسی ہی خباثت اور بد باطنی کا مظاہرہ ایک ہفتہ قبل پریس کلب آف انڈیا نئی دہلی میں ہوا، جہاں اکھل بھارتیہ سنت پریشد کی طرف سے پریس کانفرنس منعقد کی گئی تھی۔ اس کا مہمان خصوصی ایک شدت پسند ہندو تنظیم ’ہندو سوابھیمان ‘ کا لیڈر، مذکورہ پریشد کا صدر اور ڈاسنہ( غازی آباد، اترپردیش) کے دیوی مندر کا ہیڈ مہنت یتی نرسنگھ آنند سرسوتی تھا۔ یہ وہ شخص ہے جس نے اسلام، قرآن، پیغمبر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے میں شہرت حاصل کی ہے۔ یہ پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ اس سے قبل بھی وہ متعدد مرتبہ اس قسم کی ہرزہ سرائی کر چکا ہے۔ گزشتہ ماہ اسی مندر میں ایک گیارہ سالہ مسلمان لڑکے کے پانی پینے پر بہت بے دردی سے اس کی پٹائی کی گئی تھی۔ اس واقعہ کے بعد میڈیا میں ایک بھونچال سا آگیا تھا۔ شر پسندوں نے اسے بنیاد بنا کر مسلمانوں کے خلاف بغض نکالنا شروع کر دیا تھا۔ دیوی مندر کا یہ مہنت اسی وقت سے سوشل میڈیا پر بہت سرگرم تھا۔ یو ٹیوب پر اس کی بہت سی ویڈیو کلپس موجود ہیں جن میں وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اپنی بھڑاس نکال رہا ہے۔ اس پر بھی اسے چین نہ آیا تو اس نے پریس کانفرنس کر کے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بے سر وپا باتیں کہیں، یہاں تک کہ پیغمبرِ اسلام حضرت محمد ﷺ کی پاکیزہ سیرت پر بھی کیچڑ اچھالنے کی نا پاک کوشش کی۔ مضمون نگار کا قلم اس بد باطن شخص کے جملے نقل کرنے سے قاصر ہے۔ ایسا کر کے وہ اپنے قلم کی حرمت کو پامال نہیں کرنا چاہتا۔
اس طرح کے واقعات ملکِ عزیز میں آئے دن پیش آتے رہتے ہیں۔ ان پر روک لگانے اور پابندی عائد کرنے کے لیے مسلم سربرآوردہ شخصیات، علما اور دانشوروں کو حکمت کے ساتھ منصوبہ بندی کرنی ہو گی۔ اس سلسلے میں چند نکات پیش کیے جاتے ہیں:
۱۔ ہمارے ملک کا دستور تمام مذہبی اقلیتوں کو اپنے اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی دیتا ہے ساتھ ہی تمام مذہبی شخصیتوں کا احترام کرنا سکھاتا ہے اس کا اطلاق مسلمانوں کی مذہبی شخصیات پر بھی ہوتا ہے۔ کسی بھی فرد کو اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ ان پر حرف زنی کرے اور ان کے بارے میں ایسی باتیں کہے جن سے مسلمانوں میں اشتعال پیدا ہو اور وہ آپے سے باہر ہو جائیں۔ خاص طور پر یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ مسلمانوں کو اپنے پیغمبر خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ سے غیر معمولی محبت اور عقیدت ہے۔ وہ آپؐ کے بارے میں ایک بھی نا زیبا لفظ کو برداشت نہیں کرسکتے۔ کوئی آپؐ کی توہین کرے تو ان کا خون جوش مارنے لگتا ہے۔ اس لیے اگر ملک کے حکم راں فرقہ وارانہ ہم آہنگی باقی رکھنا چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ وہ ایسے خبیث افراد کی زبان کو لگام دیں۔
۲۔ ملک کی انتظامیہ، عدلیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمے داری ہے کہ اگر کوئی شخص کسی مذہبی شخصیت کی توہین کرے تو وہ فوراً ایکشن لیں، ایسے شخص کو قانون کی گرفت میں لائیں اور اسے قرار واقعی سزا دیں۔ یہ بات باعثِ اطمینان ہے کہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کے بعد پارلیمنٹ اسٹریٹ پولیس اسٹیشن میں اس مہنت کے خلاف مختلف دفعات کے تحت کیس درج کیا گیا ہے۔ اوکھلا (نئی دہلی) اسمبلی حلقہ کے ایم ایل اے جناب امانت اللہ خاں اور معروف مسلم لیڈر جناب اسد الدین اویسی کی طرف سے بھی ایف آئی آر درج کرائی گئی ہے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ملک کے مختلف حصوں میں اس شخص کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی جائیں اور اس کی خباثت پر اسے سزا دینے کا مطالبہ کیا جائے۔
۳۔ ہندوستان میں مختلف مذاہب کے ماننے والے صدیوں سے ساتھ رہتے آئے ہیں ان کے درمیان رواداری کی روشن مثالیں پائی گئی ہیں۔ لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے ان کے درمیان فرقہ وارانہ منافرت کو ہوا دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کچھ طاقتیں وقفہ وقفہ سے ایسی چیزوں کو ابھار کر پیش کرتی ہیں جن سے ان کے درمیان گہری خلیج پیدا ہو جائے۔ ایسا کر کے وہ دو مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں: ایک یہ کہ مسلمانوں کے خلاف ہندوؤں متحد کیا جائے اور ان میں مذہبی جذبات بھڑکائے جائیں تاکہ ان کی توجہ ملک کے اصل مسائل سے ہٹ جائے۔ دوسرے، مسلمانوں کو مختلف مسائل میں برانگیختہ کیا جائے تاکہ وہ انہی میں الجھے رہیں اور تعلیمی، سماجی، معاشی اور دیگر میدانوں میں ترقی نہ کر سکیں۔
۴۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ شر میں سے خیر کا پہلو نکالنا سیکھیں۔ ہمارے دشمن چاہتے ہیں کہ وہ اسلام، پیغمبر اسلام اور قرآن مجید کے خلاف ملک کے عام باشندوں کے ذہنوں کو مسموم کر دیں اور ان کے دلوں میں نفرت پیدا کر دیں۔ وہ قرآن کے مختلف مقامات سے کچھ آیتوں کو نکال کر اور انہیں سیاق و سباق سے کاٹ کر یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ قرآن اپنے ماننے والوں کو دوسرے مذاہب والوں کو قتل کرنے پر ابھارتا ہے۔ پیغمبر اسلام کے بارے میں بھی وہ ایسی گندی اور گھناؤنی باتیں پھیلاتے ہیں جن سے لوگوں کے دلوں میں آپؐ سے نفرت پیدا ہو جائے۔ ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ ہم برادرانِ وطن سے اپنے روابط بڑھائیں، ان تک اسلام کا پیغام پہنچائیں، اللہ کے رسول ﷺ کی پاکیزہ سیرت سے انہیں روٗشناس کرائیں اور ان کی غلط فہمیاں دور کرنے کی کوشش کریں۔ موجودہ صورت حال کو ہمیں ’موقع‘ (Opportunity) میں بدلنا ہوگا تبھی ہم فرقہ وارانہ منافرت کو ختم کرنے میں کام یاب ہو سکیں گے۔
(مضمون نگار جماعت اسلامی ہند شعبہ اسلامی معاشرہ کےسکریٹری ہیں )
***

کچھ طاقتیں وقفہ وقفہ سے ایسی چیزوں کو ابھار کر پیش کرتی ہیں جن سے ان کے درمیان گہری خلیج پیدا ہو جائے۔ ایسا کر کے وہ دو مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں: ایک یہ کہ مسلمانوں کے خلاف ہندوؤں متحد کیا جائے اور ان میں مذہبی جذبات بھڑکائے جائیں تاکہ ان کی توجہ ملک کے اصل مسائل سے ہٹ جائے۔ دوسرے، مسلمانوں کو مختلف مسائل میں برانگیختہ کیا جائے تاکہ وہ انہی میں الجھے رہیں اور تعلیمی، سماجی، معاشی اور دیگر میدانوں میں ترقی نہ کر سکیں۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 11 تا 17 اپریل 2021