تعیشات کی حرص ماحولیاتی بحران کا سبب

کووڈ۔۱۹ :نظام فطرت سےبغاوت نہ کرنے کا درس

ڈاکٹر نازنین سعادت

 

کووڈ-۱۹ کی عالمی وبا نے انسانی زندگی کے مختلف شعبوں کو متاثر کیا ہے اور انسانوں کو بہت سے سبق سکھائے ہیں۔ ماحولیاتی بحران کا اس وبا کے جنم اور پھیلاو سے بھی تعلق ہے اور وبا نے ماحول سے متعلق بہت سے اہم اور چشم کشا سبق بھی سکھائے ہیں۔
ماحولیاتی بحران کا بنیادی سبب تعیشات کی دوڑ اور انسانوں کی ہوس ہے۔ صنعتی انقلاب کے بعد زیادہ سے زیادہ مادی ترقی اور آسودگی کی دوڑ نے قدرتی وسائل کی بے لگام لوٹ کو جنم دیا۔ جنگلات کی کٹائی، گاڑیوں اور صنعتوں سے نکلنے والا دھواں اور فضلات، جنگوں میں استعمال ہونے والا بارود، ندیوں اور آبی ذخائر میں صنعتی فضلے کی نکاسی، ان سب عوامل نے ہماری فضا اور پانی کو زہر سے بھر دیا۔ موسم بدل گئے۔ اوزون کی حفاظتی پرت میں چھید ہو گئے۔ جنگلات کی کٹائی کی وجہ سے حیوانات ونباتات کی بہت سی انواع ناپید ہو گئیں اور حیاتیاتی تنوع کو خطرات لاحق ہو گئے۔ فضا میں گیسوں کا تناسب متاثر ہونے لگا اور ان سب کیفیات نے انسانوں اور دیگر جانداروں کی صحت کے لیے شدید خطرات پیدا کر دیے۔ یہی ماحولیاتی بحران کا خلاصہ ہے۔
ماحولیاتی بحران اور کووڈ کی وبا کا تعلق
کووڈ-۱۹ کا تعلق بیماریوں کے اس گروپ سے ہے جسے زونوٹک بیماریاں Zoonotic Diseases کہا جاتا ہے۔ یہ وہ بیماریاں ہیں جو جانوروں میں پائے جانے والے وائرس کے انسانوں کو منتقل ہونے سے لاحق ہوتی ہیں۔ اس دنیا میں وائرس اور بیکٹیریا کی اربوں کھربوں قسمیں ہیں۔ ہمارے جسم میں بھی ان گنت قسم کے خوردبینی انواع microorganisms پائے جاتے ہیں جو ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچاتے بلکہ بعض تو فائدہ مند ہوتے ہیں۔ بہت سے وائرس انسان کی قوت مدافعت کو مضبوط کرتے ہیں۔ بعض نقصاندہ بیکٹیریا سے بچاتے ہیں۔ اب تو دواوں میں بھی علاج کے لیے خوردبینی جرثوموں کا استعمال ہونے لگا ہے۔ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ بعض وائرس ہم کو کینسر جیسی بیماریوں سے بھی بچاتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ہر جاندار کے جسم کے لیے الگ الگ طرح کے وائرس بنائے ہیں۔ بیماریوں کے جن وائرس سے انسان صدیوں سے مقابلہ کرتا آیا ہے، اُن کا مقابلہ کرنے کا نظام بھی ہمارے جسم میں موجود ہوتا ہے۔ لیکن جب وائرس کسی اجنبی جسم میں داخل ہوتا ہے یعنی مثلاً کسی جانور کا وائرس انسان کے جسم میں آجاتا ہے تو شدید نقصان پہنچا سکتا ہے۔ جانوروں سے انسان کو منتقل ہونے والے وائرس کا معاملہ ایسا ہی ہے۔ حالیہ دنوں میں کئی مہلک بیماریاں پھیلی ہیں مثلاً ایوین فلو، سوائن فلو، مڈل ایسٹ ریسپیریٹری سنٖڈروم MERS، برڈ فلو، سارس وغیرہ۔ یہ سب جانوروں سے انسانوں کو منتقل ہونے والے وائرسوں کی پیدا کردہ بیماریاں یعنی زونوٹک بیماریاں Zoonotic Diseases ہیں۔ کووڈ-۱۹ بھی ایسی ہی ایک بیماری ہے۔
وائرس جانوروں سے انسانوں کو کیوں منتقل ہوتے ہیں؟ وائرس کو اپنے پھیلاو اور بقا کے لیے جاندار جسم کی ضرورت ہوتی ہے۔جب جنگلات کی کٹائی اور انسانی مداخلت کی وجہ سے جانوروں کو ان کے فطری ماحول habitat سے بے دخل کیا جاتا ہے تو ان کے وائرس کو پھیلنے کے لیے اس نوع کے جانور دستیاب نہیں رہتے۔ اور جانور اُن انسانوں کو متاثر کرتا ہے جو جانوروں سے قریب ہوتے ہیں۔ اس طرح انسانوں میں نیا وائرس داخل ہو جاتا ہے۔ متعدد تحقیقات آچکی ہیں کہ نیول کرونا جیسے نت نئے جرثومے انسانی زندگیوں کو جس خطرے سے دوچار کر رہے ہیں اس کا ایک اہم سبب ماحولیاتی بحران ecological crisis ہے۔ اکثر بیماریاں حیاتیاتی تنوع کے مراکز Biodiversity hotspots سے نکل رہی ہیں اور اس کا اصل سبب ان علاقوں میں انسانوں کی صنعتی سرگرمیاں اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والا ماحولیاتی بحران ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق گزشتہ پچیس سالوں میں ۲۹ کروڑ ہیکٹر جنگلات ضائع ہوئے ہیں۔ یعنی ہمارے ملک کے رقبہ سے کچھ کم علاقہ جنگلات سے خالی ہو گیا ہے۔ اس سارے علاقہ میں موجود اربوں جانور، پرندے، اور کیڑے مکوڑے یا تو ختم ہوئے یا یہاں سے بے دخل ہوئے۔ بے دخل ہونے کے بعد ان میں سے بہت سے انسانی آبادیوں میں یا ان سے قریب پہنچ جاتے ہیں۔ ان پر موجود وائرس کو منتقل ہونے اور پھیلنے کے لیے جب اُس طرح کے جانداروں کے مزید جسم دستیاب نہیں رہتے تو وہ قریب کے انسانوں میں منتقل ہوجاتے ہیں۔ اس طرح ایسے وائرس انسانوں میں منتقل ہو جاتے ہیں جن سے انسانی جسم مانوس نہیں ہوتا اور نہ ان سے مقابلہ کا سسٹم ان کے جسموں میں پایا جاتا ہے اس کے نتیجے میں یہ وائرس انسانوں میں خطرناک بیماریوں اور وباوں کو جنم دینے کا ذریعہ بنتے ہیں۔
وائرس سے مقابلے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہمارے جسم میں طاقتور مدافعتی نظام بنایا ہے۔ اگر یہ سسٹم مضبوط ہو تو اس طرح کے جرثوموں کا مقابلہ کر لیتا ہے۔ لیکن ماحولیاتی بحران یعنی فضائی آلودگی اور آبی آلودگی ہمارے اس مدافعتی نظام کو کمزور کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ بہت سی تحقیقات آچکی ہیں کہ جہاں آلودگی زیادہ ہے وہاں یہ بیماری زیادہ تیزی سے پھیلی۔ خود ہمارے ملک میں سب سے زیادہ متاثر وہی شہر (دلی ، بمبئی، بنگلور وغیرہ) ہوئے ہیں جو ملک میں سب سے زیادہ آلودہ ہیں۔ ہمارے ملک میں آج بھی دیہاتوں میں یہ بیماری بہت زیادہ نہیں پھیل پائی کیونکہ وہاں کی فضا نسبتاً بہتر ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہاں کے لوگوں کا مدافعتی نظام مضبوط ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اس بحران کے ذریعہ انسانوں کو متوجہ کیا ہے کہ وہ اللہ کی قدرت اور اس کی بڑائی کو تسلیم کریں۔ غرور وتکبر چھوڑیں۔ فطرت سے لڑنا چھوڑیں۔ اللہ کے احکام کی پیروی کریں۔ اللہ تعالیٰ نے اس وبا میں جو حالات پیدا کیے اس سے بھی ماحولیاتی تحفظ کے بہت سے سبق ہم کو ملے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بہت سی سہولتوں سے ہم کو وقتی طور پر محروم کر کے یہ سمجھایا ہے کہ اس دنیا میں ہماری ضرورتیں بہت مختصر ہیں۔ گاندھی جی کہتے تھے کہ دنیا میں انسان کی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے کافی وسائل موجود ہیں لیکن انسان کے لالچ کی تکمیل کے لیے وہ کافی نہیں ہیں۔
اس آفت نے ساری دنیا کو یہ بات سمجھائی ہے کہ ہم نے اپنی ضرورتوں کا دائرہ غیر فطری طور پر بڑھا دیا تھا۔ کووڈ-۱۹ میں بہت سی سہولتوں کے بغیر بھی ہم نے زندگی گزارلی۔ مطلب یہ ہے کہ وہ چیزیں ہمارے لیے ضروری نہیں تھیں۔ ہم چاہیں تو ان کے بغیر بھی رہ سکتے ہیں۔ تعیشات کی حرص نے ہی ماحولیاتی بحران پیدا کیا ہے۔ اگر ہم سادہ زندگی شروع کریں تو اس بحران پر قابو پا سکتے ہیں۔ اس لاک ڈاون میں ضروریات کو محدود کرنے اور سادہ زندگی کا جو سبق فطرت نے ہم کو پڑھایا ہے اگر وہ ہمیں یاد ہو جائے تو شاید انسانیت کے بہت سے مسائل حل ہو جائیں۔
اسلام نے جو ہدایات دی ہیں ان کی پیروی ماحول کے تحفظ کو یقینی بنا سکتی ہے۔ یہ ہدایات آج بھی ماحولیاتی تحفظ کی کوششوں کے لیے مشعل راہ بن سکتی ہیں۔ قرآن مجید نے انسان کی یہ حیثیت بتائی ہے کہ وہ دنیا میں اللہ کا خلیفہ ہے۔إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً خلیفہ ہونے کی حیثیت سے انسان کی یہ ذمہ داری ہے کہ اللہ کی دی ہوئی امانتوں کی حفاظت کرے اور اللہ کے احکام کی پیروی کرے امانت کے سلسلہ میں وہ خدا کے سامنے جوابدہ ہے۔ ان حالات میں ہم درج ذیل کام کرسکتے ہیں۔ (i) ہمیں اجتماعات، جلسوں، کانفرنسوں اور دیگر عوامی ذرائع سے ماحولیات، اسکے تحفظ اور اس کے اسلامی نقطہ نظر کے تعلق سے مسلم عوام میں بیداری لانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ (ii) کوشش کرنی چاہیے کہ ہماری مسجدیں، گھر، آبادیاں، محلے صاف ستھرے اور ہرے بھرے ہوں اور ماحولیات کو نقصان پہنچانے والے کام وہاں نہ ہوں۔ اسی طرح گھریلو خواتین کے اندر ماحول دوست باورچی خانوں، بچوں اور نوجوانوں کے اندر ماحول دوست محلے، صنعت کاروں اور تاجروں کے اندر ماحول دوست تجارت اور صارفین کے اندر ماحول دوست خریداری کا شعو ر بیدار کرنا چاہیے۔ماحول کے تحفظ میں خواتین کا رول بہت اہم ہوتا ہے۔ گھر کا بجٹ، اشیائے صرف کا انتخاب، معیار زندگی کا تعین یہ سب اکثر گھرانوں میں عورتوں کے ہاتھوں میں ہوتا ہے۔ خواتین چاہیں تو اس سیلاب کے آگے بند باندھ سکتی ہیں۔گھر کی اشیاء کی بھرپور حفاظت کی جائے۔ اگر آپ دولت مند ہوں تب بھی یاد رکھیں کہ ایک چھوٹی سی چیز کا نقصان ماحولیات کا نقصان ہے۔ جو اشیاء پرانی ہو جائیں چاہے وہ مصنوعات ہوں، کپڑے ہوں یا کوئی اور شئے انہیں نہ تو کچرے کی ٹوکری میں پھینکیں اور نہ گھر میں بے کار پڑی رہنے دیں۔ یا تو اسے ردی میں فروخت کر دیں یا کسی غریب کو استعمال کے لیے دے دیں۔اس بات کو شدت سے یقینی بنایا جائے کہ پکا ہوا کھانا کسی صورت نہ تو سڑے اور نہ ضائع ہو۔ اول تو یہ احتیاط کی جائے کہ کھانا کم بنے۔ اگر بچ ہی جائے اور دوبارہ استعمال ہو سکتا ہے تو ٹھیک ہے ورنہ تھوڑی سی زحمت اٹھا کر کسی غریب کو دے آئیں۔ جدید دور میں ماحول، صحت اور دولت کے نقصان کا ایک بڑا ذریعہ گاڑیاں ہیں۔ گاڑیوں کے استعمال میں احتیاط بھی اسلامی تہذیب کا ایک جز ہونا چاہیے۔ چھوٹے فاصلے پیدل طے کیے جائیں۔ مسجد کو پیدل جانا افضل ہے۔ عید کی نماز کے لیے پیدل جانا افضل ہے۔ یہ تعلیمات اس ذیل میں ہماری واضح رہنمائی کرتی ہیں۔ جہاں ایک گاڑی سے کام چل سکتا ہو وہاں دو گاڑیاں استعمال نہ کی جائیں۔ جہاں پبلک ٹرانسپورٹ آسان اور سہولت بخش ہو اور وقت بھی ضائع نہ ہو رہا ہو وہاں اپنی گاڑی استعمال کرنا محض ٹریفک کے مسائل میں اضافہ کرنا ہے۔ماحول کا تحفظ یہ اللہ کی بنائی ہوئی اس خوبصورت دنیا میں موجود تمام مخلوقات کا حق ہے۔ ہماری آنے والی نسلوں کا حق ہے۔ اس وقت پہلے ہی فضا اور پانی زہر سے بھر گئے ہیں۔ اگر یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہا تو ہم اپنے بچوں کے لیے بھیانک جہنم چھوڑ کر جائیں گے۔ یہ ان کا حق ہے کہ ان کو پاک صاف ہوا، پاک صاف پانی اور اچھا ماحول ملے۔ اس میں ہم سب کو اپنا رول ادا کرنا ہے۔
***

جانوروں میں موجود وائرس کو منتقل ہونے اور پھیلنے کے لیے جب اُس طرح کے مزید جسم دستیاب نہیں ہوتے تو وہ قریب کے انسانوں میں منتقل ہوجاتے ہیں۔ اس طرح ایسے وائرس انسانوں میں منتقل ہوجاتے ہیں جن سے انسانی جسم مانوس نہیں ہوتے اور نہ ان سے مقابلہ کا سسٹم ان کے جسموں میں پایا جاتا ہے اس کے نتیجے میں یہ وائرس انسانوں میں خطرناک بیماریوں اور وباوں کو جنم دینے کا ذریعہ بنتے ہیں۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 6 جون تا 12 جون 2021