تعلیم کے ذریعہ تخلیقی صلاحیتوں کا ارتقا ضروری

زندگی کی مہارتیں صرف کتابی تعلیم میں نہیں

خالد پرواز، گلبرگہ

مولانا مودودیؒ سے پوچھا گیا کہ آپ سفر میں کونسی کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ میں سفر میں کتابوں کا نہیں بلکہ کتاب کائنات کا مطالعہ کرتا ہوں۔
یقیناً خدا کی بنائی ہوئی عظیم کائنات کو دیکھنا اس پرغوروفکر کرنا،علم کے دروازوں کو کھولتا ہے۔اس کائنات میں پائی جانے والی مختلف توانائیوں اور قوتوں کا احساس،شعور و آگہی کو بیدار کرتا ہے۔ قدرت کے کمالات کی جستجو، اس کے سر بستہ رازوں کو جاننے کی کوشش ،انکشافات کا ذریعہ بنتی ہے۔اس کائنات میں موجود غیر معلوم اور ان دیکھے چیزوں کی تحقیق، دریافت کا ذریعہ بنتی ہے۔حقیقی تعلیم یہی ہے کہ طلبہ خود کی اور کائنات کی حقیقت سے روشناش ہوں ۔احساس و شعور کو بیدار کرکے تحقیق و جستجو کے ذریعہ نئے انکشافات اور دریافتیں کر سکیں۔
لیکن موجودہ دور میں تعلیم کے معنی کسی اسکول کے کمرے میں بیٹھ کر کسی مضمون کی کتاب کی چند سطور یاد کرلینااور امتحان میں ان یاد کی ہوئی چیزوں کو لکھ کر اچھے نمبرات حاصل کر لینا اور کسی نوکری کے اہل بننا ہے۔ لیکن اس کے ذریعےان میں اوصاف حمیدہ کی تشکیل ،ایک مضبوط شخصیت کی تعمیر اور ایک کامیاب زندگی گزارنے کے لیے زندگی میں جن چیزوں میں مہارتوں کی ضرورت ہوتی ہے ان کی کمی بہت محسوس کی جاتی ہے۔
ہم نے کئی بزرگوں کو دیکھا ہے جو اسکول یا یونیورسٹی کے فارغین تو نہیں ہوتے لیکن ان میں بلا کی ذکاوت وذہانت ہوتی ہے۔وہ فرد شناسی و معاملہ فہمی کے ماہر ہوتے ہیں ،پیچیدہ سےپیچیدہ مسائل کو پل بھر میں حل کر دیتے ہیں۔ان میں لوگوں سے رابطے کی صلاحیت غیر معمولی ہوتی ہے۔محلے اور گاؤں کے تمام لوگوں کو وہ جانتے ہیں اور ان سے بہترین تعلقات رکھتے ہیں۔وہ اپنی بات کو سلیقے سے رکھنے کا ہنر جانتے ہیں۔ وہ سند یافتہ تو نہیں ہیں لیکن ایک کامیاب زندگی گزارنے کےتمام ہنر جانتے ہیں۔وہ خواندہ تو نہیں ہیں لیکن ان کو ہم تعلیم یافتہ کہیں گے کیو نکہ وہ تمام صفات ان میں موجود ہیں جو تعلیم کا حاصل ہوتی ہیں۔ اس کی دوسری جانب کوئی لکھنا پڑھنا تو جانتا ہو اور سند یافتہ بھی ہو لیکن اچھی صفات اور صلاحیتوں سے دور ہو تو اس شخص کو خواندہ تو کہیں گے لیکن وہ تعلیم یافتہ نہیں ہو سکتا۔
موجودہ نسل میں تعلیم کے ساتھ دیگراہم فنون کی تربیت بھی ضروری محسوس ہوتی ہے ۔اس لیے اس کے حصول کی کوشش ہونی چاہیے۔ فہم و ادراک یا کسی معاملے کو سمجھنے ،اس کی گہرائی میں جاکر اس کا تجزیہ کرنے صلاحیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہر مرحلے میں پیش آنے والے مسائل کا سامنا کرنا،اس کے ممکنہ حل کو تلاش کرنا اور مسئلے کو حل کرنے کی صلاحیت ان میں پیدا کرنا ضروری ہے ۔
زندگی میں پیش آنے والے حادثات کو حقیقت پسندانہ انداز میں دیکھنا اور جذبات کا شکار ہوئے بغیر حواس پر قابوپاکر بہتر رویہ پیش کرناچاہیے۔قوت فیصلہ بھی ایک اہم خصوصیت ہےجس کی ضرورت زندگی کے ہر موڑ پرمحسوس ہوتی ہے، اکثر ایسا ہوتا ہے کہ وقت پرصحیح فیصلہ نہ کرنا بہت بڑے نقصان کا باعث ہو سکتا ہے ۔اپنی بات کو اچھے انداز میں کہنا اور اپنے مافی الضمیر کا اظہار کرنا ،دباؤ کے وقت بھی اپنی زبان پر قابو رکھنا ایک اہم قابلیت ہے ۔دوسروں سے رابطہ رکھنا ان کی توقیر کرنا ، ان کی بات کو سننا، ان کے نقطہ نظر کو سمجھنا بھی ایک اہم چیز ہے جو ہماری نئی نسل کو سکیھنے کی ضرورت ہے۔ٹیم اسپرٹ کے بغیر کوئی مہم سر نہیں کی جا سکتی اس لیے مل جل کر کام کرنے کامادہ پیدا کرنا چاہئے ۔ کسی ادارے یا کمپنی میں اس صفت کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔تخلیقیت و قیادت کے اوصاف بھی آج کے دور میں بڑے معنی رکھتے ہیں۔ یہ تمام زندگی کی مہارتیں، بچوں کی تعلیم و تربیت کا محاصل ہونا چاہیے ۔
 ان مہارتوں کے حصول کے لیے اساتذہ کی تربیت ضروری ہے کہ وہ معلومات کے تبادلہ کو ہی تعلیم نہ سمجھیں بلکہ ان صلاحیتوں اور اوصاف کو بھی ان کی شخصیت کا حصہ بنایئں۔والدین کا کردار بھی اس میں بہت اہم ہے چونکہ بچے زیاہ وقت گھر میں گزارتےہیں اور گھر والوں کو دیکھ کر ہی بہت ساری چیزیں سیکھتے ہیں۔
آئیے غور کریں کہ زندگی کی مہارتوں کی تشکیل بچوں میں کیسے کی جائے۔
 شخصیت کی ارتقاء کے لیے اور اس کو صحیح سمت میں پروان چڑھانے کے لیے خود آگہی بہت ضروری ہے، فرد میں کون کون سی خوبیاں اور کون کون سی کمزویاں ہیں۔وہ کن باتوں میں دلچسپی لیتا ہے اور کن چیزوں میں دلچسپی نہیں لیتا۔کون سے کاموں کو بہتر طریقے سے کرسکتا ہے اور کونسے کام اس کو بھاری لگتے ہیں۔اپنی خوبیوں،خامیوں،دلچسپیوں اور صلاحتوں کو جاننے کا نام ہی خود آگہی ہے۔
اس کے لیے ان کو الگ الگ کام کا موقع دیا جائے۔کام کے دوران وہ اپنی خوبیوں اور خامیوں کو جان سکتے ہیں۔اگر بچے اسکول میں یا گھر میں مختلف مقابلوں میں حصہ لیں گے ۔تحریری ،تقریری ،ڈرائنگ ،نظم گوئی ،ماڈل سازی ہو یا کھیل کے مقابلے ہوں ۔اس کے علاوہ غیر نصابی سرگرمیاں مختلف دن منانے ہوں یا مہمات ، ان میں حصہ لے کر بچے یہ جان سکتے ہیں کہ وہ کس میدان کے لیے مفید ہیں ۔
اسکول یا گھر کی تقریبات میں بچوں کی شمولیت ان کے لیے خوشی کا سبب بنتی ہیں ساتھ میں مختلف صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کی وجہ بھی ہو سکتی ہے۔
تقریب کی منصوبہ بندی سے سامان کی خریدی تک،مہمانوں کے انتظام سے پکوان کی نگرانی تک ،اس طرح کے چھوٹے چھوٹے کام بچوں میں خود اعتمادی کا ذریعہ بنتے ہیں ، اس کے دوران منصوبہ بندی، قوت فیصلہ ،ٹیم ورک اور لوگوں سے رابطوں کی صلاحیت پروان چڑھتی ہے۔
اسکول یا گھر کے معاملات میں بچوں کو شامل کرنا ، مجلسوں میں ان کو بڑوں کے ساتھ بیٹھنے کا موقع دینا ،ان سے مشورہ لینا ، ان میں غور و فکر کرنے ،معاملہ فہمی اور مسائل کے حل کی قابلیت پیدا کرتا ہے۔
 بچے کام سے سیکھتے ہیں مخلتف کام دے کر سیکھنے کے عمل کو دلچسپ بنائیں اور موثر بھی۔ اس کے ذریعےان میں معلومات کی گہری سمجھ پیدا ہوتی ہے۔ایسے طریقہ تدریس جس کے ذریعہ بچوں کو مختلف کام دے کر ان میں زندگی کی مہارتیں پیدا کی جانی چاہئیں۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 5 ستمبر تا 11 ستمبر 2021