تذکیر بالقرآن

اعتکاف کی روح

لئیق اللہ خاں منصوری، ایم اے (بنگلورو)

 

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَ اَنْتُمْ عٰکِفُوْنَ فِی الْمَسٰجِدِ (البقرۃ :۱۸۷) ’’اور جب تم مسجدوں میں معتکف ہو۔
سورہ بقرہ کی ایک آیت کا یہ فقرہ اُس رکوع کا حصہ ہے جس میں رمضان کے احکام بیان ہوئے ہیں۔ آیت کے اس فقرے میں رمضان کے اعتکاف کا ذکر کیا گیا ہے۔
٭ اس آیت میں اعتکاف کو مساجد کے ساتھ جوڑا گیا ہے اور اسے اللہ کی حدوں سے تعبیر کیا گیا ہے۔اعتکاف کہتے ہیں اپنے آپ کو روکے رکھنے، کسی چیز پر قائم رہنے اور اس سے وابستہ رہنے کو۔ شریعت کی اصطلاح میں اعتکاف اس چیز کا نام ہے کہ آدمی ایک خاص صورت سے مسجد میں ٹھہرا رہے۔ گویا مسجد میں قیام کرنے اور وہاں اپنے آپ کو روکے رکھنے کا نام اعتکاف ہے۔ یہ اعتکاف رمضان کے آخری عشرے میں کیا جاتا ہے۔ (رمضان کی ۲۰؍ تاریخ کی مغرب سے یکم شوال کا چاند دیکھنے تک)
٭ قرآن مجید میں ہے ’’اور ابراہیمؑ اور اسماعیلؑ کو تاکید کی تھی کہ میرے اس گھر کو طواف اور اعتکاف اور رکوع اور سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک رکھو۔‘‘ (البقرہ: ۱۲۵)
٭ اعتکاف کی شرعی حیثیت سنّتِ مؤکدہ علی الکفایہ کی ہے۔ یعنی یہ ایک ایسی سنت مؤکدہ ہے جس کا اہتمام ہر مسجد میں کسی ایک فرد کے ذریعہ بھی ہو جائے تو سب کی جانب سے ادا ہو جاتا ہے، لیکن اگر کوئی ایک بھی اعتکاف کے لیے خود کو فارغ نہ کرے تو سارے اہل محلہ پر اس کا گناہ آئے گا۔
٭ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ نبی ﷺ رمضان کے آخری دس دنوں میں اعتکاف کیا کرتے تھے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو وفات بخشی۔ پھر آپؐکے بعد آپؐ کی ازواج مطہرات اعتکاف کیا کرتی تھیں۔ (بخاری، مسلم) اس سے مراد آپؐ کا وہ معمول ہے جو مدینہ طیبہ میں رہا کیونکہ رمضان کے روزوں کا حکم مدینہ طیبہ میں آیا۔ فتح مکہ کے سال آپ اعتکاف نہ کر سکے۔ اگلے سال آپؐ نے بیس دنوں کا اعتکاف فرمایا۔
٭ ازواج مطہرات کا اعتکاف مسجد نبوی میں نہیں بلکہ اپنے حجروں میں ہوتا تھا۔ عورتوں کا اعتکاف ان کے اپنے گھروں کے حجروں ہی میں ہونا چاہیے۔
٭ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اعتکاف کرنے والے کے بارے میں فرمایا: اعتکاف کرنے والا چونکہ (اعتکاف کے زمانے میں) گناہوں سے رُکا رہتا ہے اس لیے اس کے حق میں وہ تمام نیکیاں لکھی جاتی ہیں جو اس شخص کے حق میں لکھی جاتی ہیں جو تمام نیکیوں پر عمل پیرا ہو۔ (ابن ماجہ)
٭ اعتکاف دراصل ’’تَبَتُّلْ اِلَی اللّٰہِ ‘‘ہے۔ یعنی سب سے کٹ کر اللہ ہی کے ہو جانا۔ سورہ مزمل میں ہے: ’’سب سے کٹ کر اسی کے ہو رہو۔‘‘(آیت:۸)
٭ اعتکاف کی ایک بڑی حکمت اور ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ اعتکاف کرنے والا لیلۃ القدر کے اجر سے محروم نہیں ہوتا۔ چونکہ شب قدر کی فضیلت یہ ہے کہ وہ ہزار مہینوں سے بہتر ہے اور شب قدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرنے کی ترغیب ہے تو لا محالہ اعتکاف کرنے والا اس اجر کو ضرور حاصل کر لیتا ہے۔
٭ اعتکاف کا ایک اہم مقصد یہ ہے کہ بندہ خدا سے قریب ہو اور اس کے کلام پاک کا حامل بننے کی جستجو کرے۔ اللہ کے رسول ﷺ نبوت سے پہلے اکثر غارِ حرا میں تشریف لے جاتے اور کئی کئی دن وہاں قیام کرتے۔ آپ وہاں کم کھاتے تھے، کم سوتے تھے۔ خدا کی کائنات میں غور و فکر آپؐ کا مشغلہ تھا۔ اللہ کو پہچاننے کی جستجو تھی۔ ان کیفیات کو اگر ایک نام دیا جائے تو وہ ’’اعتکاف‘‘ کی ہی کیفیت تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کیفیت میں اپنا کلامِ پاک آپ پر نازل کرنا شروع کیا۔
٭ اب سوال یہ ہے کہ اعتکاف میں کونسے اعمال زیادہ پسندیدہ ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ سارے مسنون کام جن سے ہم اللہ سے قریب ہو سکتے ہوں اختیار کیے جائیں۔ جیسے: نمازوں کا اہتمام (قیام اللیل، تہجد، نوافل وغیرہ)۔ قرآن کی تلاوت، اس کی سمجھ، اس پر غوروتدبر، اس کا اجتماعی مطالعہ، تفاسیر کا مطالعہ، دینی کتابوں کا مطالعہ وغیرہ
٭ جو لوگ پورا عشرہ اعتکاف نہیں کر سکتے وہ ایک دن یا ایک سے زائد دن بھی اعتکاف کر سکتے ہیں، لیکن ان کا یہ اعتکاف نفلی ہوگا۔ یہاں تک کہ جب بھی مسجد میں داخلہ ہو اور اعتکاف کی نیت کرلی جائے تو جب تک مسجد میں قیام ہوگا اعتکاف کا اجر لکھا جائے گا۔ ان شاء اللہ
اللہ تعالیٰ ہمیں رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف (کم از کم نفلی اعتکاف) کے اہتمام کی توفیق عطا فرمائے آمین۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 2 مئی تا 8 مئی 2021