تذکیر بالقرآن

عید الفطر کا پیغام

لئیق اللہ خاں منصوری ،ایم اے(بنگلور)

 

يَآ اَيُّـهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَتْكُمْ مَّوْعِظَـةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَشِفَـآءٌ لِّمَا فِى الصُّدُوْرِۙ وَهُدًى وَّرَحْمَۃ’‘ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ ہقُلْ بِفَضْلِ اللّـٰهِ وَبِرَحْـمَتِهٖ فَبِذٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوْاۖ هُوَ خَيْـرٌ مِّمَّا يَجْـمَعُوْنَ
(سورۃ یونس: 57،58)
’’لوگو، تمہارے پاس تمارے رب کی طرف سے ایک نصیحت آگئی ہے۔یہ وہ چیز ہے جو دلوں کے امراض کی شفاء ہے اور جو اسے قبول کرلیںان کے لیے رہنمائی اور رحمت ہے۔ اے نبی ؐ، کہو کہ’’یہ اللہ کا فضل اور اُس کی مہربانی ہے کہ یہ چیز اُس نے بھیجی، اس پر تو لوگوں کو خوشی منانی چاہیے، یہ اُن سب چیزوں سے بہتر ہے جنہیں لوگ سمیٹ رہے ہیں۔‘‘
سورۂ یونس کی ان دو آیتوں میں قرآن مجید کاتعارف پیش کرتے ہوئے اس کی عظمت بیان کی گئی ہے اور اہل ایمان کو قرآن کے ملنے پر خوشی منانے کا حکم دیا گیا ہے۔ رمضان کے اختتام پر یکم شوّال کو عید الفطر منائی جاتی ہے۔ آئیے ہم عید الفطر کے پیغام کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
٭’عید ‘کے معنی خوشی کے موقع کے ہیں۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں نے جب یہ مطالبہ کیا کہ وہ خدا سے درخواست کریں کہ وہ آسمان سے ایک دسترخوان نازل کرے تا کہ ہم اس سے متمتّع ہوں اور آپ کی رسالت کی تصدیق کرسکیں، تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے انہیں اللہ سے ڈرنے کی تلقین کرنے کے بعدجو دعا کی اس میں لفظ ’عید ‘کا تذکرہ موجود ہے۔ ’’عیسٰی ابن مریم نے دْعا کی ’’خدایا !ہمارے ربّ ! ہم پر آسمان سے ایک خوان نازل کر جو ہمارے لیے اور ہمارے اگلوں پچھلوں کے لیے ’’خوشی کا موقع ‘‘قرار پائے اور تیری طرف سے ایک نشانی ہو، ہم کو رزق دے اور تْو بہترین رازق ہے‘‘۔(سورۂ مائدہ ،آیت ۔۱۱۴)۔
٭اسلا م ایک فطری مذہب ہے۔ خوشی و مسرت کا اظہار انسانی فطرت ہے۔اسلام نے اس کا بھرپور لحاظ رکھا ہے۔ زندگی کے عام حالات میں بھی خوشی کے اظہار کو مستحسن قرار دیا گیا ہے۔ خوش مزاجی کو پسند اور خشک مزاجی کو ناپسند کیا گیا ہے۔ خوشی کے تمام جائز مواقع پر مفید حدود و شرائط کے ساتھ خوشی منانے کا پورا پورا حق دیا گیا ہے ۔ دوسری جانب اسلام نے اجتماعی طور پر پوری ملت اسلامیہ کے لیے باضابطہ خوشی منانے کے دو مواقع متعین کیے ہیں۔ایک موقع عید الفطر کا ہے اور دوسرا عید الاضحی کا ہے۔عموماً ہم ان دونوں موقعوںپر خوشی تو مناتے ہیں لیکن خوشی کیوں منائی جاتی ہے اوراس کی حکمتیں کیاہیں، ان سے اکثر لوگ ناواقف رہتے ہیں۔
٭اس آیت میں سارے انسانوں کو خطاب کیا گیا ہے۔’’لوگو، تمہارے پاس تمارے رب کی طرف سے ایک نصیحت آگئی ہے‘‘۔ یعنی قرآن مجید سارے انسانوں کے لیے پروردگار کی جانب سے ایک نصیحت ہے۔(اب یہ بات سارے انسانوں کو معلوم کرانے کی ذمہ داری ہم مسلمانوں کی ہے۔)
٭سورۂ یونس کی آیت ۵۷؍میں قرآن مجید کی چار صفات بیان کی گئیں ہیں۔(۱) موعظت و نصیحت ،(۲) دلوں کی بیماریوں کی شفا ،(۳) ہدایت، اور(۴) رحمت۔
٭ قرآن مجید ،امراض قلب کے لیے شفا ہے۔یہاں قلب سے مراد وہ روحانی قلب ہے جو انسانی زندگی کا مرکز ہے ۔ دل کی بیماریوں میں نفاق، حسد، بغض، دل کی سختی ، تکبر، حب دنیا، حرص و طمع، وغیرہ شامل ہیں۔ ’’قرآن کے نزدیک زندہ صرف وہی لوگ ہیں جن کے دل زندہ ہیں، جن کے دل زندہ نہیں وہ مردہ ہیں۔‘‘ (تدبر قرآن)
٭ان چار صفات کا تعلق ڈاکٹر اسرار احمدؒ نے اس طرح واضح کیا ہے: ’’آیت زیر مطالعہ میں الفاظ کی ترتیب پر غور کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ایک انسان کے حق میں قرآن سب سے پہلے وعظ و نصیحت ہے، پھر تمام امراض قلب کے لیے شفاء اور پھر ہدایت۔ کیونکہ جب دل سے بیماری نکل جائے گی ، دل شفایاب ہوگا، تب ہی انسان یہ سارے مراحل طے کرکے قرآن کی ہدایت کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھال لے گا تو پھر اس کو انعام خاص سے نوازا جائے گا اور وہ ہے اللہ کی خصوصی رحمت۔ کیونکہ یہ قرآن رب رحمن کی رحمانیت کامظہر اتم ہے: الرحمن علم القرآن‘‘(بیان القرآن)۔
٭آخری بات ان آیات میں یہ بیان ہوئی ہے کہ یہ قرآن اللہ کے فضل اور رحمت کا مظہر اور انسانوں پر اس کابہت بڑا احسان ہے۔ یہ سب سے بڑی دولت ہے ۔اس دولت کے ملنے پر لوگوں کو چاہیے کہ وہ خوشی منائیں۔ عید الفطر حقیقت میں اسی قرآن مجید کے ملنے پر خوشی کاعظیم الشان اظہار ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیںاس عظیم دولت کی قدر و منزلت کو پہچاننے اور اس سے دلی وابستگی پیدا کرتے ہوئے اس کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 9 مئی تا 15 مئی 2021