بے ضمیر سیاست اور بے حس سیاست داں۔۔!

ہندوستان میں جمہوری اقدار خطرے میں

زعیم الدین احمد ، حیدر آباد

لکھیم پور کھیری کے واقعہ نے بتا دیا ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ اس واقعہ نے پورے ملک کو خوف زدہ کر دیا ہے۔ اس ناقابل بیان سانحے نے ساری قوم کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ لوگ سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ کیا اپنے حقوق کے لیے اور سماج میں ہونے والی نا انصافیوں کے خلاف آواز اٹھانے والوں کے ساتھ ایک جمہوری حکومت میں ایسا بھی ہو سکتا ہے؟ اس واقعہ نے حقوق کے لیے لڑنے والوں کو لرزا دیا ہے۔ وہ ڈر رہے ہیں کہ اگر وہ آواز اٹھائیں تو کہیں ان کا بھی یہی حشر نہ کر دیا جائے۔ حسب سابق اس واقعہ پر بھی سیاست دانوں کی بے غیرتی و بے حسی سامنے آرہی ہے ۔ حکمراں جماعت کے نمائندے تو بے شرمی اور دیدہ دلیری کے ساتھ واقعہ کو دوسرا رخ دینے کی کوشش رہے ہیں اور ان کا "گودی میڈیا ” بھی یہی رخ دیتا ہوا نظر آیا۔ کہا گیا کہ وہاں موجود احتجاجیوں نے ان کے کاروں کے قافلہ پھر ہتھیاروں سے حملہ کردیا تھا جس کے نتیجہ میں گاڑی بے قابو ہوگئی اور یہ واقعہ رونما ہوا۔ میڈیا اس نقطہ نظر کو سچ ثابت کر بھی دیتا جیسا کہ اسے عادت رہی ہے لیکن اچانک ایک تیس سیکنڈ کے ویڈیو نے ان کے جھوٹ کی پول کھول دی اور سارا واقعہ عوام کے سامنے آ گیا۔
اس ویڈیو میں صاف طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ کیسے اقتدار کے نشہ میں چُور ایک شوریدہ سر نے اپنی کار بے گناہ شہریوں پر چڑھا دی اور آن واحد میں نو آدمیوں کی ناحق جان لے لی۔ یقیناً یہ طاقت اور اقتدار کا نشہ ہی تھا۔ سیاست کا چولا اوڑھ کر غنڈوں کے ایک گروہ نے ایک بار پھر ہمارے گرتے ہوئے سیاسی اقدار اور زوال پذیر جمہوریت کو آشکار کیا ہے۔ جمہوریت میں موجود اداروں کا سیاست دانوں کے مفاد کے لیے کام کرنا جمہوری ملک میں نہایت پریشان کن بات ہے۔ ایک مخصوص نظریہ کے ماننے والوں کا سیاست میں غلبہ حاصل کرنا، ملک میں موجود دوسرے طبقوں سے عدم ہمدردی بلکہ کھلی دشمنی کرنا، غنڈہ عناصر کا عروج پانا، دیگر سیاسی جماعتوں کا مشکوک کردار کرنا، جمہوریت کے بنیادی اصولوں کا پامال ہونا، سماجی اور معاشی عدم برابری میں اضافہ،، انہی وجوہات سے ہمارا ملک جمہوری اشاریہ میں نچلی سطح پر گرتا جارہا ہے۔ پارلیمنٹ جسے جمہوریت کا سب سے اہم ستون مانا جاتا ہے لیکن وہاں بحث و مباحثے کے بغیر قوانین کو منظور کر لیا جاتا ہے اور حد یہ ہے کہ اگر کوئی رکن مخالفت کرتا ہے تو اس پر غداری کا الزام لگایا جاتا ہے۔ اس قدر ہٹ دھرمی اور سختی کہ منتخب عوامی نمائندوں کو اپنے ضمیر کی آواز تک پہنچانے کا موقع نہیں دیا جاتا جبکہ دستور نے انہیں اپنے خیالات کا اظہار کرنے کی آزادی دی ہے۔ یہ سب چیزیں مل کر پارلیمنٹ کی قانونی حیثیت پر ہی سوالات اٹھاتے ہیں۔
جمہوریت کا دوسرا ستون مانے جانے والے، انسانی حقوق کو برقرار رکھنے میں اور اس کے تحفظ میں بعض مثالی کارناموں کے باوجود، ہمارے ملک کی اعلیٰ عدالتیں آئینی اصول کے نگہبانی میں ناکام ہوتی نظر آرہی ہیں، ان کا کردار مشکوک نظر آنے لگا ہے۔ خاص طور پر سیاسی لیڈروں اور سیاسی مقدمات میں وہ انصاف پر مبنی فیصلے دینے میں ناکام ثابت ہو رہی ہیں۔ عوام کے لیے ایک فیصلہ اور خواص کے لیے دوسرا فیصلہ؟ ایسا لگتا ہے کہ ہمارے عدالتی نظام کی آزادی کو قید کردیا گیا جس کی وجہ سے اس کی ساکھ اور وقار پر سوال اٹھتا جا رہا ہے۔ پولیس کی جانب سے زیر حراست تشدد، روہنگیا پناہ گزینوں کے نام پر ہندوستانی مسلمانوں کو نشانہ بنانا، بھیما کورے گاؤں کی گرفتاریاں، شاہین باغ کا احتجاج، فادر اسٹان سوامی کا مقدمہ اور ان کی مشکوک موت، جے این یو کا احتجاج اور احتجاجیوں پر غداری جیسے مقدمات میں عدالت عالیہ اور عدالت عظمیٰ کا رول مایوس کن رہا ہے۔ اسی طرح کسانوں کے نئے زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کرنے کے حق پر سوال اٹھانا، ماہرین قانون کو تعجب اور حیرت میں مبتلا کردیا ہے جبکہ یہ معاملہ زیر سماعت ہے۔ حقیقت میں اس طرح کے تبصروں کو پرامن احتجاج کے بنیادی حق کی نفی کے طور پر دیکھا جانے لگاہے اور یقینی طور پر ان مقدمات میں اس کے فیصلوں نے اس کی اپنی قدر کو گھٹا دیا ہے جبکہ آئینی اعتبار سے اس کی حیثیت ایک اہم ثالث کے طور پر مانی جاتی ہے لیکن بد قسمتی سے اس نے اپنے اس کردار کو داغ دار کر لیا ہے۔
صحافت کو جمہوریت کا تیسرا ستون کہا جاتا ہے لیکن اس کے متعلق لکھتے ہوئے شرم محسوس ہوتی ہے کہ اس کا کام، جو کہ لوگوں کو حقیقتِ حال سے واقف کروانا تھا، اس کو چھوڑ کر وہ جھوٹ اور منافرت عوام میں منافرت پھیلا رہی ہے ، اس کی حیثیت کسی دلال (بروکر) سے کم نظر نہیں آتی۔ غیر حقیقی اور غیر جانچ شدہ میڈیا مقدمات ٹرائلز نے انصاف کے راستے کو مشکل ہی نہیں بلکہ مسدود کر دیا ہے اور جان بوجھ کر قانون کی حکمرانی کو کمزور کر رہا ہے۔ میڈیا ہاؤسز کا کارپوریٹائزیشن ہونا، سوشل میڈیا پر جعلی خبروں کا سیلاب جسے گپ شپ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، میڈیا کے تخیلاتی اسکینڈلز بے خوف ہوکر جھوٹ کو پیش کرنا وغیرہ یہ سارے عوامل مل کر جمہوریت کو کمزور کر رہے ہیں اور ساتھ ہی شہریوں کے بنیادی حقوق جیسے رازداری، عزت و وقار اور ان کی ساکھ سے محروم کر رہے ہیں۔
جمہوریت کے چوتھے ستون پولیس کی حالت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ عدالت عظمیٰ کو یہ کہنا پڑا کہ انسانی حقوق کو سب سے بڑا خطرہ کسی اور سے نہیں بلکہ پولیس سے ہے۔ آئینی کی تضحیک سب سے زیادہ یہی محکمہ اڑاتا ہوا نظر آتا ہے، کہیں فرضی و جھوٹے مقدمات میں معصوم عوام کو پھنساتا ہے تو کہیں شواہد مٹاتا ہے ۔ یہ کبھی کسی سیاسی جماعت کا آلہ کار بن جاتا ہے۔ اس کو دیکھ کر عوام تحفظ کے بجائے خوف محسوس کرنے لگتے ہیں۔ اس طرح دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویٰ کرنے والے ہمارے ملک کا دنیا بھر میں مذاق اڑتا ہے۔
سیاسی جماعتیں طاقت کے نشہ میں بے لگام اور اندھی ہوچکی ہیں، اس نشہ نے سیاست کو جو کبھی عوام کی خدمت کا بہترین ذریعہ تھی شجر ممنوعہ بنادیا ہے۔ سیاست دانوں نے ہماری بے شعوری کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے سیاست سے اخلاقیات کو الگ کر دیا ہے جس کے نتیجہ میں طاقت و سیاست کا ایک مہلک آمیزہ تیار ہوا جو اپنے ہی عوام کو ختم کرتا چلا جا رہا ہے۔ اب ہمیں اپنے بل بوتے پر آگے کا راستہ تلاش کرنا ہوگا اس کی ابتدأ ہمیں اپنے آپ سے کرنا ہوگا ، خود باشعور ہونا ہوگا، گرتی ہوئی جمہوریت کو بچانا ہوگا اور اس میں موجود غنڈہ عناصر کو اکھاڑ پھینکنا ہوگا، قابل اور بااعتماد قیادت کو پیدا کرنا ہوگا۔ ہمیں ان ساری خرابیوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہوگا جنہوں نے جمہوریت کے معیار کو نقصان پہنچایا ہے اور اپنے آپ کو ملک کی تجدیدکاری کے کام کے لیے دوبارہ تیار کرنا ہوگا تاکہ ہم ایک باضمیر ملک کے شہری کہلائیں۔ اخلاقی اقدار سے لبریز سیاست کو پروان چڑھانا ہوگا اس کی پرورش کرنا ہوگا تاکہ پورے سیاسی نظام میں اور اس کے طرز عمل میں اخلاقی اقدار، ایمان داری اور انصاف کا دور دورہ ہو، آئین کی حکمرانی ہو۔ جہاں ہر شہری بے خوف ہو کر اپنی رائے کا اظہار کرسکے، اس کی عزت و وقار اور رازداری کی حفاظت ہو سکے، جہاں اقلیتوں کو عدم تحفظ کا خوف نہ ہو۔

 

***

 سیاسی جماعتیں طاقت کے نشہ میں بے لگام اور اندھی ہوچکی ہیں، اس نشہ نے سیاست کو جو کبھی عوام کی خدمت کا بہترین ذریعہ تھی شجر ممنوعہ بنادیا ہے۔ سیاست دانوں نے ہماری بے شعوری کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے سیاست سے اخلاقیات کو الگ کر دیا ہے جس کے نتیجہ میں طاقت و سیاست کا ایک مہلک آمیزہ تیار ہوا جو اپنے ہی عوام کو ختم کرتا چلا جا رہا ہے۔ اب ہمیں اپنے بل بوتے پر آگے کا راستہ تلاش کرنا ہوگا اس کی ابتدأ ہمیں اپنے آپ سے کرنا ہوگا ، خود باشعور ہونا ہوگا، گرتی ہوئی جمہوریت کو بچانا ہوگا اور اس میں موجود غنڈہ عناصر کو اکھاڑ پھینکنا ہوگا، قابل اور بااعتماد قیادت کو پیدا کرنا ہوگا۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 17 تا 23 اکتوبر 2021