بھکمری سے بچانے کے لیے قومی غذائی سلامتی ایکٹ کا تحفظ ضروری

ملک میں پیداوار کاتناسب اطمینان بخش مگر تقسیم کا نظام انتہائی ناقص

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

 

عالمی وبا کورونا نے ساری دنیا کو تہہ و بالا کرکے رکھ دیا ہے۔ کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا ہے کہ حالات کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ کورونا کی دوسری لہر نے تو اب زیادہ ہی تباہی مچانے کا تہیہ کرلیا ہے۔ ایک طرف معیشت کی بربادی تو دوسری طرف سیاست کی الجھنیں۔ معاشرت، اخلاقیات، اور اقدار میں نت نئی طرح کی پیچیدگیاں پیدا ہورہی ہیں، اس طرح مصیبتوں کا انبوہ ہے جو چاروں طرف اپنے پیر پسار رہا ہے۔ عوام کے مسائل حل نہیں ہورہے ہیں اس لیے وہ زیادہ ہی پریشان ہیں۔ اس کے علاوہ کئی طرح کی پریشانیاں بھی سامنے آرہی ہیں۔ اس وقت حکومت کو مشکلات میں گھرا دیکھ کر عوام زیادہ ہی پریشان ہورہے ہیں کیونکہ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ اس کا خمیازہ بھی آخر کار انہیں کو بھگتنا ہے۔ ایسے حالات میں حکومت کی شقاوت تو دیکھیے کہ اصلاح کے نام پر قومی غذائی سلامتی ایکٹ (این ایف ایس اے) کو کمزور کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے جو غذائی سلامتی کو بے وقعت کرکے رکھ دے گی۔ نیتی آیوگ نے ایک ریسرچ پیپر کی وساطت سے قومی غذائی سلامتی ایکٹ سے استفادہ کرنے والوں کی تعداد کم کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ اس میں واضح کیا گیا ہے کہ اس منصوبہ سے استفادہ حاصل کرنے والی دیہی آبادی کی تعداد 75 فیصد سے گھٹا کر 60 فیصد اور شہری آبادی کی تعداد 50 فیصد سے گھٹا کر 40 فیصد کردینی چاہیے۔ جس سے غذائی سبسیڈی پر ہونے والے اخراجات میں 47,229 کروڑ روپے کی کمی آسکتی ہے۔ این ایف ایس اے ترمیم کا صرف یہی منصوبہ نہیں ہے اس کے علاوہ ایک سال قبل 2020 کے آغاز میں پیش کردہ معاشی سروے میں عوامی تقسیم طریقہ کار (پی ڈی ایس) کی وساطت سے ملنے والے 3روپے کیلو موٹا چاول، دو روپیے کیلو گیہوں اور ایک روپے کیلو موٹے اناج کے دام کو بڑھانے کی سفارش کی گئی ہے۔ واضح رہے کہ قومی غدائی سلامتی ایکٹ 2013 میں نافذ کیا گیا تھا اور 2015 سے مکمل طور سے اپنی عملی شکل میں کام کررہا ہے۔ 6 سال سے جاری ایسے اصلاحات کا ضرور ہی استعمال ہونا چاہیے کیونکہ غذا پر ہر انسان کا واجبی حق ہے فی الحال اس این ایف ایس اے کے غلط استعمال کا ایسا کوئی مطالعہ سامنے نہیں آیا ہے مگر حکومت اس میں اصلاح کے نام پر تخفیف کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ محققین یا اداروں کے ذریعہ نجی طور پر کیے جانے والے چھوٹے موٹے سروے سے یہی واضح ہوا ہے کہ تغذیہ میں اصلاح اور بے کس و حاشیے پر پڑے طبقوں کی غذائی سلامتی متعین کرنے کے لیے قومی غذائی سلامتی ایکٹ کے دائرہ اور حجم بڑھانے کی ضرورت ہے نہ کہ گھٹانے کی۔ مشکل یہ ہے کہ فی الحال جس ایکٹ کی اصلاح پر بحث چل رہی ہے اس میں زیادہ زور غذائی سبسیڈی کم کرنے پر ہے نہ کہ اس ایکٹ کی افادیت بڑھانے کی۔ اس مالی سال میں 4.22 لاکھ کروڑ روپے کی تقسیم عمل میں آئی ہے اس اسکیم کے تحت حکومت اپنے بجٹ کے علاوہ دیگر فنڈس کا استعمال کرتی ہے۔ مذکورہ رقم میں فوڈ کارپوریشن آف انڈیا (ایف سی آئی) کے گزشتہ قرض کی ادائیگی بھی شامل ہے۔ اس لیے نئے سال میں 2.4 لاکھ کروڑ روپے ہی تقسیم ہوئے۔ اگر آئندہ سال قرض کی ادائیگی والی رقم نکال دیں تو غذائی سبسیڈی ہماری جی ڈی پی کا محض ایک فیصدی رہے گا اور یہ رقم اتنی ہی ہے جب این این ایف ایس اے نافذ نہیں ہوا تھا۔ گزشتہ سال جلدبازی میں نافذ کیے گئے غیر منصوبہ بند لاک ڈاون کی وجہ سے مستفید افراد کی تعداد بڑھی ہے۔ حد سے زیادہ خرید اور زیادہ اسٹاک میں جمع غلہ بھی غذائی سبسیڈی کو لے کر غلط فہمی پیدا کرتا ہے۔ مثلاً ایف سی آئی کے گوداموں میں یکم مارچ 2021تک 8.05 کروڑ ٹن چاول اور گیہوں تھا جو بفر اسٹاک کی ضرورت کا تقریباً 4 گنا ہے۔ زیادہ غذائی سبسیڈی غلہ کی خرید اور اس کے اسٹاک کے غلط انتظام کا نتیجہ ہے۔ ہمارے گوداموں کا پیٹ جگہ کی قلت کی وجہ سے پھول رہا ہے لیکن عوام بھکمری کا شکار ہیں۔ ایک جائزے کے مطابق گزشتہ سال ایک تہائی آبادی بے روزگاری اور آمدنی کی قلت کی وجہ سے راتوں کو بھوکے سونے پر مجبور ہوئی۔ مجوزہ اصلاحات کو تسلیم کرنے کا مطلب ہوگا این ایف ایس اے کے استفادہ کرنے والے لوگوں کی تعداد میں زیادہ کے ہدف سے منھ موڑنا۔ اس کے بعد یہ ایکٹ محض نام کا خود مختار رہ جائے گا۔ پی ڈی ایس سے استفادہ کرنے والوں کی تعداد میں تخفیف کرنے سے ہم اہداف کے پی ڈی ایس کے پرانے دور میں چلے جائیں گے جو ایک غلط نظام تھا اور ان میں کئی طرح کے سوراخ بھی تھے۔ پھر استفادہ کرنے والے افراد کی تعداد کو کم کرنے کا اسٹینڈرڈ اور اعداد و شمار بھی نہیں ہے۔ اس زمرے میں ایک دہائی قبل سماجی اور معاشی حالات کو سامنے رکھا گیا تھا۔ قومی خاندانی صحت سروے کا حالیہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ تغذیہ اور غذائیت کے محاذ پر ہماری حصولیابی تھی وہ تھم گئی ہے اور کئی معاملات میں تو ہم پستی کی طرف جا رہے ہیں۔ ہمارے ملک میں 1400کروڑ روپے کھانے کی ہر سال بربادی ہوتی ہے۔ 30 تا 40 فیصد غلہ کولڈ اسٹوریج کی کمی کی وجہ سے خراب ہوجاتا ہے۔ ہمارا ملک دنیا کے 10 بڑے پیداواری ملکوں میں ایک ہے۔ بھارت میں مسئلہ پیداوار کا نہیں بلکہ عادلانہ اور ایماندارانہ تقسیم کا ہے کیونکہ ہمارا تقسیم کا نظام (پی ڈی ایس) انتہائی ناقص اور بدعنوانیوں سے پر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی بھوک انڈیکس (بی ایچ آئی) میں ہمارے ملک کی حالت دن بدن بدسے بدتر ہوتی جارہی ہے۔ جی ایچ آئی 107 ممالک کے فہرست میں 2020 کی رپورٹ کے مطابق ہم 94ویں مقام پر ہیں۔ ہم سے بہتر حالات میں ہمارے پڑوسی ممالک نیپال، بنگلہ دیش سری لنکا وغیرہ ہیں جس کا اعتراف گزشتہ ماہ کے اخیر میں وزیر زراعت اور زرعی فلاح نریندر سنگھ تومر نے بھی کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ حکومت نے بھارت میں بھکمری کی سطح کی گنتی کے لیے استعمال کئے جانے والے اعداد و شمار اور اس کی صحت کے بارے میں ویلٹ ہنگر لائف کے ساتھ بھارت کی تشویش کو اٹھایا ہے۔ مزید انہوں نے کہا کہ بھوک اور تغذیہ کی کمی دور کرنے کے لیے حکومت نے کئی محاذ پر اقدامات کیے ہیں جن میں تغذیہ مہم، قومی غذا کی سلامتی ایکٹ وغیرہ شامل ہیں۔ وزیر اعظم نے ایک لاکھ کروڑ روپے کا ایگریکلچر انفراسٹرکچر فنڈ کا منصوبہ بنایا ہے۔ post-harvest management کے لیے استعمال میں لایا جائے گا۔ موجودہ حالات میں کورونا وبا نے غذائی سلامتی اور گزر بسر کی مصیبت کو بہت ہی خطر ناک بنا دیا ہے۔ لہذا اصلاح کے نام پر قومی غذائی سلامتی ایکٹ کو کمزور اور بے وقعت کرنے کی کوئی بھی کوشش غذائی اور تغذیہ (nutrition) کی سلامتی کو بے معنی بنا دے گا۔ اس کے بجائے ایف سی آئی گوداموں میں اناج کے بڑی مقدار کے مد نظر اس ایکٹ کو موثر طور پر عوامی فلاح کے لیے سود مند بنانا چاہیے۔ جب تک حالات معمول پر نہ آئیں اسے مزید مفید بنانے کے لیے دال اور کھانے کا تیل بھی شامل کیا جانا چاہیے۔

عالمی بھوک انڈیکس (بی ایچ آئی) میں ہمارے ملک کی حالت دن بدن بدسے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ جی ایچ آئی 107 ممالک کے فہرست میں 2020 کی رپورٹ کے مطابق ہم 94ویں مقام پر ہیں۔ ہم سے بہتر حالات میں ہمارے پڑوسی ممالک نیپال، بنگلہ دیش سری لنکا وغیرہ ہیں جس کا اعتراف گزشتہ ماہ کے اخیر میں وزیر زراعت اور زرعی فلاح نریندر سنگھ تومر نے بھی کیا ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 11 تا 17 اپریل 2021