بھارت میں حقوق انسانی کی صورت حال اور حکومت کا رویہ

ظلم اور ناانصافی کے خلاف بولنے سے حکومت کو گریز کیوں ہے؟۔ملک کی سیاسی فضا اپنے حق میں کرنے کا رجحان غالب

نہال صغیر، ممبئی

بھارت میں مذہبی آزادی اور حقوق انسانی کی پامالی پچھلے کچھ برسوں سے کچھ زیادہ ہی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ مگر اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں حکومت کو تامل ہے۔ موجودہ حکومت میں حقوق انسانی اور مذہبی آزادی پر لوگوں کو بیدار کرنے والے گروپ عتاب کا شکار بنائے جاتے رہے ہیں اور جب کبھی بین الاقوامی سطح پر اس جانب بھارتی حکومت کی توجہ مبذول کرائی جاتی ہے تو وہ اسے یکسر مسترد کر دیتی ہے۔ 12 اکتوبر کو حقوق انسانی کمیشن کے یوم تاسیس کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے نہ صرف یہ کہ انسانی حقوق کی کسی پامالی سے انکار کیا بلکہ اس کے لیے برسر کار سماجی کارکنوں کو الزام دیا کہ وہ سیاست سے متاثر ہو کر ایسے الزامات عائد کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا ’’حال ہی میں کچھ لوگوں نے اپنے ذاتی مفاد کے لیے انسانی حقوق کو اپنے نقطہ نظر سے بیان کرنا شروع کیا ہے۔ ایک خاص صورت حال میں حقوق کی خلاف ورزی کو دیکھنے کے رجحان نے انسانی حقوق کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے، مساوی پوزیشن میں نہیں۔ حقوق انسانی کی خلاف ورزی اس وقت ہوتی ہے جب انہیں سیاست اور سیاسی فائدہ اور نقصان کے نظریہ سے دیکھا جائے۔ یہ انتخابی رویہ ہماری جمہوریت کے لیے نقصان دہ ہے‘‘۔ یہ رویہ ظاہر کرتا ہے کہ ہم دعوے تو کچھ بھی کریں مگر عالمی برادری کی تشویش کو خاطر میں نہیں لاتے۔
وزیر اعظم سے ملتی جلتی باتیں قومی حقوق انسانی کمیشن (این ایچ آر سی) کے چیئرمین جسٹس ارون مشرا نے بھی کہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان آج ایک مضبوط جمہوری قوتوں میں سے ایک ہے، لیکن بین الاقوامی قوتوں کے کہنے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام لگانے کا ایک نیا رجحان چل رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستانی مذہبی آزادی سے لطف اندوز ہوتے ہیں جو بہت سے دوسرے ممالک میں دستیاب نہیں ہے اور یہاں کے شہریوں کو مندر، گرجا گھر اور مساجد بنانے کی آزادی ہے۔ کہنے سننے میں تو یہ باتیں اچھی لگتی ہیں مگر حقیقت میں موجودہ حکومت کے سائے میں ایسی قوتوں نے زور پکڑا ہے جو مسلمانوں اور عیسائیوں کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ اپنے دستوری حق سے دستبردار ہو جائیں۔ جھوٹے پروپگنڈے عام کیے جاتے ہیں مگر ان پر حکومت کی جانب سے نکیل کسنے کی طرف کوئی پہل نظر نہیں آتی۔ مساجد، گرجا گھر اور دوسرے مذہبی مقامات کو سخت گیر ہندوؤں کی جانب سے نقصان پہنچانے کی خبر روز ہی اخبارات کی زینت بن رہی ہیں مگر کارروائیوں کے نام پر فسادیوں و شرارت پسندوں کو بچانے کا کام کیا جاتا ہے۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ہے لکھیم پور کھیری معاملے کو ہی دیکھ لیں کس طرح ایک اشتہاری ملزم کو بچانے کی کوشش کی گئی اور اسے گرفتار کرنے میں تساہل برتا گیا۔ سوشل میڈیا پر مسلسل اس کے خلاف مہم چلنے کے بعد اور عدالت کے دباو میں اشیش مشرا کو گرفتار کیا گیا۔
جسٹس مشرا نے کہا کہ یہاں کی طرح آزادی بہت سے دوسرے ممالک میں دستیاب نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کئی ممالک میں اس طرح کی آزادی نہیں ہو مگر ہمیں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کو دیکھنا چاہیے کہ وہاں کی صورتحال کیا ہے۔ وہاں انصاف کا پیمانہ کیا ہے اور ہمارے یہاں کیا ہے۔ ہمارے یہاں کی آزادی کا یہ حال ہے کہ دی لائیو ٹی وی کے اینکر کو پاکستان میں عدلیہ کی آزادی نیز مندروں کی مسماری کے بعد اس کی فوری مرمت وتعمیر کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے بار بار یہ کہنا پڑا کہ وہ پاکستان کی تعریف نہیں کر رہا ہے۔ مطلب یہ کہ دشمن کی خوبیاں بیان کرنا اور خود اس سے سبق لینا بھی ہمارے یہاں ناگوار سمجھا جاتا ہے۔ جبکہ پاکستان میں عدلیہ نے ثابت کیا ہے کہ وہ سب سے طاقتور ہے۔ اس نے نواز شریف کو نااہل قرار دیا اور پھر گرفتار بھی کروایا۔ ہمارے یہاں اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ہمارے یہاں تو عدلیہ نے بابری مسجد پر سارے ثبوتوں کے باوجود آستھا کا حوالہ دے کر رام مندر کے حق میں فیصلہ دیا۔پاکستان کے تعلق سے آنجہانی کلدیپ نیر نے ایک بار لکھا تھا ’’آپ پاکستان کی خواہ کتنی ہی برائی کرلیں مگر یہ حقیقت ہے کہ وہاں عدلیہ اور ذرائع ابلاغ آزاد ہے‘‘۔ ہمارے یہاں دوسروں کی خامیاں نکال کر اپنی خامیوں پر پردہ ڈالنے کا چلن عام ہو چکا ہے۔ حالانکہ کسی کا جرم یا برائی ہمارے لیے جواز نہیں بن سکتا۔
کسی بھی ادارہ کے لیے سب سے پہلی ضرورت قابل افراد ہوتے ہیں جو اس کے مطابق اپنی ذمہ داریاں ادا کریں مگر جب ایک ایسے فرد کو کسی ایسے ادارہ کا سربراہ بنا دیا جائے جو حکومت کی بے جا تعریفیں کرنے والا ہو تو پھر اس ادارہ کی آزادی کا اللہ ہی حافظ ہے۔ ایسا ہی حال ہمارے یہاں قومی حقوق انسانی کمیشن کا ہوا ہے۔ سپریم کورٹ کے سابق جج ارون کمار مشرا کو جج کی کرسی پر رہتے ہوئے وزیر اعظم کی تعریفوں کے پل باندھنے کا انعام یہ ملا کہ سبکدوش ہونے کے بعد انہیں قومی حقوق انسانی کمیشن کا چیئر مین بنا دیا گیا۔ اب جبکہ وہ ایک ایسے شخص کی تعریف کھلے عام کر رہے ہیں جسے سپریم کورٹ نے ہی گجرات بدر کردیا تھا اور کئی مقدمات کو گجرات سے باہر منتقل کر دیا تھا تو ان سے انسانوں کے حقوق کی سلامتی کی امید کیوں کر کی جا سکتی ہے؟ جسٹس ارون مشرا حقوق انسانی کمیشن کے یوم تاسیس کے پروگرام میں کہتے ہیں ’’میں وزیر داخلہ امیت شاہ کا تہہ دل سے استقبال کرتا ہوں۔ آپ کی انتھک کوششوں کی وجہ سے جموں وکشمیر اور شمال مشرق میں امن وامان کے ایک نئے دور کا مشاہدہ ہوا ہے‘‘۔ کشمیر میں کس قسم کا امن قائم ہوا ہے کہ نوے کی دہائی کے بعد پہلی مرتبہ وہاں شہری ہلاکتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے اور فوجیوں کے مرنے کی بھی تعداد 2014 کے بعد نئی بلندیوں پر ہے۔ گزشتہ ایک ہفتہ میں ہی کم وبیش سات فوجی جنگجووں کا نشانہ بنے ہیں۔ جموں وکشمیر کے حالات پر جو کوئی بھی لکھتا ہے وہ بہت احتیاط برتنے کی کوشش کرتا ہے۔ پتہ نہیں وہاں کہ حالات کب اس قابل ہوں گے کہ اصل صورتحال عوام کے سامنے آئے۔ حالیہ شہری ہلاکتوں کے تعلق سے مقتولین کے وارثین سے تعزیت کے لیے سب سے زیادہ مسلمان ہی آئے اور مقتول کے لواحقین کی باتوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وہاں ہندو مسلم منافرت کی کوئی فضا نہیں ہے جسے ذرائع ابلاغ کے ذریعہ یہ بتانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ کشمیری مسلمانوں میں کشمیری پنڈتوں یا دیگر اقلیتوں کے تئیں منافرت پائی جاتی ہے۔
بین الاقوامی سطح پر مذہبی آزادی پر نگاہ رکھنے والے امریکی حکومتی کمیشن نے بھارت کو مسلسل دوسرے برس خاص تحفظات کے حامل ملکوں کی فہرست میں شامل کرنے کی سفارش کی تھی۔ یو ایس سی آئی آر ایف نے 2021 کی سالانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ بھارت میں مذہبی آزادی کی منظم انداز میں خلاف ورزی ہوئی ہے۔ دہلی فسادات میں حکومت اور پولیس کے کردار پر بھی ہندوستانی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ اسی رپورٹ میں لکھا گیا ہے’’دہلی میں ہونے والے فسادات کے دوران ہندو ہجوم کو کلین چٹ دی گئی اور مسلمانوں پر انتہائی طاقت کا استعمال کیا گیا‘‘ آسام میں این آر سی کے نفاذ کے بعد قائم حراستی مراکز کے تعلق سے رپورٹ میں لکھاگیا ’’آسام میں تیار کیے گئے بڑے حراستی مراکز آنے والے دنوں میں مزید تباہی پھیلائیں گے‘‘۔کوئی ایک معاملہ ہو تو بیان کیا جائے یہاں تو ساری دنیا کے لیے تباہی کا پیغام لے کر آنے والے کورونا وبا کے دور میں بھی یہاں کی حکومت اور ہندوتوا تنظیموں نے اسے مواقع کے طور پر استعمال کیا اور تبلیغی جماعت کے بہانے مسلمانوں کے خلاف اشتعال پھیلایا جس کی وجہ سے کئی جگہوں پر مسلمانوں کو ہجومی تشدد کا نشانہ بننا پڑا۔جسٹس ارون مشرا مذکورہ پروگرام میں یوں مخاطب تھے جیسے وہ حکومت کے ترجمان ہوں جبکہ انہیں آزادانہ اور منصفانہ طرز پر حقوق انسانی کے مسائل کو پیش کرنا تھا۔ انہوں نے بہت سی باتوں کے ساتھ کسی سرکاری ترجمان کی طرح یہ بھی کہا کہ ’’کسی کو بھی اداروں کو تباہ کرنے کی آزادی نہیں ہے‘‘۔ دانشوروں اور سماجی کارکنوں کو خوب معلوم ہے کہ اداروں کو کون تباہ کر رہا ہے، اس کی اہمیت وافادیت کو کس نے ختم کیا لیکن وہی پرانی کہاوت ہے چور بولے زور سے۔ جو گروہ اداروں کو تباہ کرنے کا ذمہ دار ہے وہی ہمیں سبق پڑھاتا ہے کہ اداروں کو تباہ کرنے کی آزادی نہیں دی جائے گی۔
جسٹس مشرا نے تاریخ سے ایک حوالہ بھی دیا لیکن اس میں بھی بھارت کے ارباب اقتدار کے لیے سبق ہے اگر وہ لینا چاہیں، انہوں نے کہا ’’بیسویں صدی میں دنیا بھر میں تقریبا 12 کروڑ افراد سیاسی تشدد کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔ ہم معصوم انسانوں کے قاتلوں کی تعریف نہیں کر سکتے۔ ایسے دہشت گردوں کو آزادی پسند نہیں کہا جا سکتا۔ انسانی حقوق کے محافظوں کو سیاسی تشدد کی مذمت کرنی چاہیے‘‘۔ مشرا یہ کہنا چاہتے ہیں کہ حقوق انسانی کے کارکنوں کو سیاسی تشدد کی مذمت کرنی چاہیے۔ ایسا کہہ کر وہ وزیر اعظم کی اس بات کی تائید کر رہے ہیں کہ سیاسی مفاد کے لیے حقوق انسانی کی بات کی جاتی ہے ۔ حالانکہ سماجی یا حقوق انسانی کے کارکنان نے کبھی ایسا نہیں کیا انہوں نے بیک زبان کسی بھی قسم کے تشدد کی مذمت کی مگر موجودہ حکومت میں دیکھنے کا نظریہ خود ارباب اقتدار کا تبدیل ہو گیا ہے۔ انہوں نے اپنے حق میں فضا ہموار کرنے کے لیے جھوٹ کی ایک ایسی دیوار کھڑی کر دی ہے جس کو توڑنا مشکل نظر آتا ہے کیوں کہ قومی دھارے کے نوے فیصد سے زیادہ میڈیا گھرانے حکومت کے ہمنوا ہیں۔
سوال یہ ہے کہ فرقہ وارانہ فسادات، فرضی مقدمات میں مسلم نوجوانوں کو پھنسانا، تبلیغ دین کی دستوری آزادی کے باوجود مبلغین کی گرفتاری، ہجومی تشدد، دلتوں کے خلاف تشدد، خواتین کے خلاف بڑھتے جرائم اور ہندوتوا گروپ کی بڑھتی دہشت گردی کے خلاف دنیا میں بڑے پیمانے پر کوئی ردعمل کیوں نہیں ہوتا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا پر جمہوریت کی اوٹ میں سرمایہ دارانہ نظام حاوی ہے اور اس کے لیے اقدار نہیں سرمایہ اہمیت رکھتے ہیں۔ بھارت دنیا کی دوسری عظیم آبادی والا ملک ہے، سرمایہ دار اسے ایک بڑے بازار کے طور پر دیکھتے ہیں اسی لیے ہر کوئی یہاں کہ بازار سے مالی منافع کمانا چاہتا ہے، اسے انسانی حقوق وغیرہ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ کبھی اس پر زبانی جمع خرچ ہوتا بھی ہے تو محض دکھاوے کے طور پر۔ اس لیے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن یا امریکہ کے مذہبی آزادی کی کمیشن وغیرہ ایک عدد رپورٹ پیش کرکے بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔ سماجی وحقوق انسانی کے کارکنوں کو ایک لمبی جد وجہد کے لیے تیار ہونے کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی مظلوم طبقہ کو کمر کس کر ان کی مدد اور تعاون کے لیے آگے آنا پڑے گا، اپنے مفادات کی قربانی دینا ہو گی تب کہیں جاکر یہ لڑائی لڑی جا سکتی ہے جس میں واقعی انسانوں کے حقوق محفوظ ہوں اور حکومتوں کی طاقت ان کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ لیکن یہ ایک طویل اور صبر آزما دور سے گزرنے کے بعد ہی حاصل ہو گا۔
***

 

***

 سماجی وحقوق انسانی کے کارکنوں کو ایک لمبی جد وجہد کے لیے تیار ہونے کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی مظلوم طبقہ کو کمر کس کر ان کی مدد اور تعاون کے لیے آگے آنا پڑے گا، اپنے مفادات کی قربانی دینا ہو گی تب کہیں جاکر یہ لڑائی لڑی جا سکتی ہے جس میں واقعی انسانوں کے حقوق محفوظ ہوں اور حکومتوں کی طاقت ان کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ لیکن یہ ایک طویل اور صبر آزما دور سے گزرنے کے بعد ہی حاصل ہو گا۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 24 تا 30 اکتوبر 2021