بھارتی مسلمانوں کو طالبان سے جوڑنا اسلامو فوبیا کیوں ہے؟

یوپی الیکشن کے مد نظر ہندو انتہا پسند طاقتیں رائے دہندوں کی فرقہ وارانہ خطوط پر صف بندی کے لیے کوشاں

ابھئے کمار ،دلّی

افغانستان میں دوسری مرتبہ طالبان کے کنٹرول سنبھالنے کے فوری بعد بھارتی مسلمانوں کو طالبان کا حامی ظاہر کرتے ہوئے ان کی شبیہ کو نقصان پہنچانے کی ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا کے ذریعہ کوششیں کی جا رہی ہیں۔ مسلم اقلیت کے خلاف جھوٹ اور نفرت پھیلانے کی کوششوں میں ہندو دائیں بازو کی طاقتیں پیش پیش ہیں۔ ہندوستانی مسلمانوں کو طالبان کا حامی ٹھیراتے ہوئے گالی گلوج کی جارہی ہے نیز، مسلم مخالف تصاویر، کارٹون اور تبصروں کا سوشل میڈیا پرایک سیلاب امڈ آیا ہے جس پر کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔
آنے والے اترپردیش اسمبلی انتخابات کے مد نظر ہندو انتہا پسند طاقتیں رائے دہندوں کی فرقہ وارانہ خطوط پر صف بندی کررہی ہیں ۔ مسلمانوں کی رائے کو دانستہ طور پر مسخ کیا جارہا ہے اور بعد میں اس کا استعمال ان کے خلاف مقدمات دائر کرنے کی صورت میں کیا جارہا ہے۔ اترپردیش سے یہ خبر سامنے آئی ہے کہ اردو کے مقبول شاعر منور رانا کے خلاف طالبان اور والمیکی کے درمیان مبینہ طور پر تقابل کرنے کے لیے ایک ایف آئی آر دائرکی گئی ہے۔ ان پر ہندووں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔ ٹویٹر پر ایک پوسٹ میں انہیں ایک خفیہ دہشت گرد تک قراردیا گیا ہے۔ ایک اور پوسٹ میں 82 سالہ خاتون بلقیس بانو جنہیں سی اے اے مخالف موقف کے لیے شہرت حاصل ہوئی تھی اور انہیں شاہین باغ کی دبنگ دادی کا نام دیا گیا تھا ان پر اور سی اے اے مخالف جہد کار صفورہ زرگر ودیگر مسلم جہد کاروں اور صحافیوں پر طالبان کے خلاف خاموشی اختیار کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ اس تنازعہ میں مسلم پرسنل لا بورڈ کو بھی گھسیٹا گیا ہے۔ الزامات عائد کیے گئے ہیں بورڈ کے ایک سینئر رکن مولانا سجاد نعمانی نے طالبان کی مدح سرائی کی ہے۔ بورڈ نے باقاعدہ طور پر فوری ایک بیان جاری کرتے ہوئے ان الزامات کی تردید کی کہ ’’کل ہند مسلم پرسنل لا بورڈ نے طالبان اور افغانستان کی موجودہ سیاسی صورتحال پر نہ تو کوئی رائے ظاہر کی ہے اورنہ ہی کوئی بیان دیا ہے۔ بورڈ کے بعض ارکان کی رائے کو بعض میڈیا چینلوں نے بورڈ کے موقف کے طور پر پیش کیا ہے اور یوں ایک غلط بات بورڈ سے منسوب کی گئی ہے۔ یہ عمل صحافت کی روح کے خلاف ہے‘‘۔ ٹویٹر پر ایک اور پوسٹ میں سہارنپور، یو پی کے ۱۹ویں صدی کے قدیم مدرسہ دیوبند اور طالبان کے درمیان ایک ربط ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس پوسٹ میں کہا گیا ’’نوئیڈا سے صرف 160کلو میٹر دور ایک مدرسہ ہے جہاں سے طالبان نے نظریاتی تحریک حاصل کی ہے۔ مولانا مفتی ارشد فاروقی مفتی دارالعلوم دیوبند نے ایک حالیہ ویڈیو میں طالبان کی دہشت گردی کی ستائش کی ہے‘‘۔ دارالعلوم دیوبند کے خلاف یہ محض کسی ایک شخص کی رائے نہیں ہے۔ اس بات کی بھی اطلاعات ہیں کہ حکومت اترپردیش اور دیوبند میں انسداد دہشت گردی اسکواڈ (اے ٹی ایس) قائم کر رہی ہے کیونکہ وہ اس مقام کو ’’اسٹریٹجک اہمیت‘‘ کا حامل تصور کرتی ہے۔ دارالعلوم دیوبند کے خلاف اس بدگمانی کی جڑیں کافی گہری ہیں اور اسے بدنام کرنے کی دانستہ کوشش کی جارہی ہے کیونکہ یہ نہایت معروف تعلیمی ومذہبی اداروں میں سے ایک ہے جہاں دنیا بھر سے طلبہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے آتے ہیں۔ مزید برآں علما یا دارالعلوم دیوبند کے مذہبی اسکالرس استعمار کے خلاف ایک انقلابی وراثت رکھتے ہیں اور ہندو مسلم اتحاد کے بہت بڑے چمپین رہے ہیں۔ اس رسوا کن مہم کی حد یہ ہے کہ قدیم اور گھڑے ہوئے ویڈیوز کو بڑے پیمانے پر گشت کروایا گیا جس میں دکھایا گیا کہ طالبان افغانستان کی سڑکوں پر لوگوں پر گولیاں چلارہے ہیں۔ اس طرح کئی مسلمانوں کو گرفتار کیا گیا ہے مثال کے طور پر آسام پولیس نے سوشل میڈیا پوسٹس پر طالبان کی مبینہ حمایت کے لیے ۱۴ مسلمانوں کو گرفتار کیا ہے۔ شفیق الرحمن برق پر جو سنبھل سے سماج وادی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ ہیں طالبان کو ہندوستانی مجاہدین آزادی کے برابر قرار دینے پر غداری کا الزام عائد کیا ہے۔ ان کے خلاف ہندو دائیں بازو کے لیڈر نے مقدمہ دائرکیا ہے۔
مسلمانوں کی امیج کو تار تار کرنے کی کوششیں سادہ طور پر اسلاموفوبیا کی حرکتیں ہیں۔ میڈیا یہ کہنا نہیں چاہتا کہ ہندوستانی مسلمان اور طالبان بھلے ہی ایک ہی مذہب کے ماننے والے ہیں لیکن فطری طور پر وہ ایک دوسرے کےحامی نہیں ہیں۔ اس سارے بیانیہ میں اس بات کو فراموش کردیا گیا ہے کہ افغانستان میں طالبان کے مخالفین ہندو نہیں بلکہ مسلمان ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ مسلمان ان ممالک میں جہاں وہ اکثریت میں ہیں ذات، طبقہ، صنف، مذہب اور علاقہ کے پیچوں میں الجھے ہوئے اور منقسم ہیں اور ان کی ایسی ہی کیفیت ان ممالک میں بھی ہے جہاں وہ اقلیت میں ہیں۔ تاریخ اس تلخ حقیقت کی گواہ ہے کہ مسلمان ممالک نے دیگر مسلم ممالک کے خلاف لڑائیاں کی تھیں۔ ان کا مشترکہ مذہب دیگر تضادات کی یکسوئی نہیں کر پایا، پھر بھی اسلاموفوبیا کا بیانیہ، داخلی نزاع کی شناخت نہیں کرتا اور تمام مسلمانوں کو ایک ہی خانے میں رکھتا ہے۔ تمام مسلم معاشروں کی مذمت غارت گرِ امن کے طور پر کی جاتی ہے نیز انہیں باقی دنیا کے لیے ایک خطرہ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ مسلم دنیا کی تمام پیچیدگیوں کو اجاگر کرنے کے لیے صرف مذہب کا استعمال کیا جاتا ہے نہ کہ سیاسی معیشت یا نو آبادیات یا استعماریت کا؟
برطانیہ کی رنی میڈ رپورٹ نے 1997میں اسلاموفوبیا کی تشریح یوں کی ہے : تنگ نظری پر مبنی سلسلہ وار خیالات جو منفی وحقارت آمیز لگے بندھے طور طریقوں وعقائد کو مسلمانوں سے منسوب ومدلل کرتے ہوں اور اس کے نتیجہ میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پیدا ہونے والی نفرت، بغض اور عداوت ہی اسلامو فوبیا ہے۔ بمطابق جان ایل ایسپوسیٹو (The Challenge of Pluralism in the 21st Century, Oxford University Press, New York,2011,pp.xxii-xxiii))
بالفاظ دیگر عداوت اور بے بنیاد وجہ کی بنیاد پر مسلمانوں کے خلاف ڈر، نفرت اور دشمنی اسلاموفوبیا کی مثالیں ہیں۔
لیکن کونسی چیز اسلاموفوبیا کو تقویت دیتی ہے؟ دور دراز تک یہ کیسے پہنچ جاتی ہے؟ جے این یو کے پروفیسر عامر علی نے اپنی نئی کتاب ’’بریگزٹ اور لبرل جمہوریت :عوامیت، مقتدریت اور قومی ریاست (2021)‘‘ میں کم از کم 5 ایسے امور کی نشاندہی کی ہے جو اسلامو فوبیا کا محرک بنتے ہیں جن میں مشرقیت، کثیر قومی ثقافت کی عدم تسلیمیت، اسلام کو آزاد خیال جمہوریت سے غیر ہم آہنگ تصور کرنا ہے، دہشت گردی کے خلاف جنگ کی توجیہ اور میڈیا کا منفی رول شامل ہیں۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ نکات موجودہ مسلم مخالف نفرت سے بہت زیادہ مطابقت رکھتے ہیں۔ اولاً مستشرقین کے طرز والی علم کی تعمیر اور مسلم دنیا کی حقیقت کی تاراجی نے مسلمانوں کی ایک ٹھیٹ روایت پسند شبیہ تخلیق کی ہے۔ عالم اسلام کو مغرب کے برعکس قرار دیتے ہوئے مذمت کی جاتی رہی ہے۔ کولمبیا یونیورسٹی میں انگریزی تقابلی ادب کے پروفیسر ایڈورڈ نے اورینٹلزم پر اپنے اصولی مواد (1978) میں مدلل بحث کی ہے کہ مشرقیت پر مستشرقین اور اسکالرس کی تحریروں میں مشرق کو مغرب کے بالمقابل ایک چیز دیگر کے طور پر اجاگر کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر مغرب کو عقلیت پسند، روشن خیال، سائنٹفک ومستند قرار دیا گیا ہے جبکہ مشرق کو نامعقولیت پسند، ناپختہ کار، وحشی، بچکانہ، پسماندہ اور ہوس پرست کہہ کر مسترد کیا گیا ہے۔ طالبان کا معاملہ دیکھیں تو انہیں داڑھیاں رکھنے اور تشدد کرنے کے لیے پسماندہ اور وحشی قرار دیا گیا لیکن کوئی یہ سوال نہیں کرتا کہ یہ لوگ صرف لمبی داڑھیاں ہی نہیں رکھتے بلکہ عصری بندوقیں بھی رکھتے ہیں۔ اسلامو فوبیا کے بیانیہ کو اس طرح کے سوالات پوچھنے میں کم ہی دلچسپی ہوتی ہے کہ ان بندوقوں کو کس نے تیار کیا۔ طالبان کو ہتھیار کس نے سپلائی کیے۔ کیا انہی طالبان کی مدح وستائش کمیونزم کی برائیوں کے خلاف لڑنے والے مجاہدین آزادی کے طور پر نہیں کی گئی تھی؟ مغربی طاقتیں گزشتہ بیس برسوں سے افغانستان میں کیا کرتی رہیں؟ افغانستان کی تباہی کے لیے کون ذمہ دار ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کی ناکامیاں اور حصولیابیاں کیا ہیں؟
ثانیاً کثیر نوعی ثقافت کو تسلیم نہ کرنے سے ایک خلا پیدا ہوا ہے جو اسلاموفوبیا جیسے ردعمل کے نظریات سے پُر ہوا ہے۔ ہندوستان کے پس منظر میں دیکھیں تو یہی چیز سیکولرازم کے تناظر میں دکھائی دیتی ہے۔ ہندو دائیں بازو کی قوتوں کے عروج نے سیکولرازم جیسے ایک آئینی اصول کو ایک گندہ لفظ بنا دیا ہے۔ ہندو دائیں بازو کے مخالفین کی یہ کہہ کر مذمت کی جاتی ہے کہ یہ لوگ حقیقی سیکولرسٹ نہیں ہیں کیونکہ یہ لوگ مسلمانوں کی چاپلوسی کرتے ہیں اور ہندووں کے مفادات کے خلاف کام کرتے ہیں۔
طالبان کی شبیہ بھی مذہبی جنونیوں کے طور پر پیش کی جاتی ہے نہ کہ حقیقی سیکولر افراد کے طور پر ۔ یہ حقیقت ہے کہ طالبان نے اپنے سیاسی مقاصد کے لیے اسلام کا استعمال کیا ہے۔ انہوں نے اپنی مخالفت کرنے والوں پر بہت زیادہ سختیاں برتی ہیں لیکن حقیقی سیکولرازم کے نام نہاد حاملین اس وقت دوہرا معیار اختیار کرلیتے ہیں جب مذہب کا استعمال کسی اور کی جانب سے سیاسی فائدے کے لیے کیا جاتا ہے۔ ہندو دائیں بازو کی طاقتیں بامیان میں چھٹی صدی قدیم بدھا کے مجسموں کو مسمار کرنے پر طالبان کو تو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں لیکن دوسری طرف وہ ایودھیا میں چھٹی صدی قدیم بابری مسجد کے انہدام کو منصفانہ ٹھیراتے ہیں۔
ثالثاً اسلام کو آزاد خیال جمہوریت کے ساتھ ہم آہنگ نہ ہونے کا الزام دیا جاتا ہے۔ پروپگنڈہ میں ایسی باتیں کی جاتی ہیں مثلاً: مسلم ممالک کو شرعی قوانین چلاتے ہیں اور مذہب کی طاقتور موجودگی سیکولرازم کو جگہ فراہم نہیں کرتی بالفاظ دیگر اسلام، مذہب اور حکومت کو علیحدہ کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ اسلام کے خلاف اس قدر معاندانہ نقطہ نظر کا پروپگنڈہ کئی مغربی اسکالرس کی جانب سے کیا جاتا ہے جس کی نقالی اکثر ہندوستان میں فرقہ پرست طاقتیں کرتی ہیں۔ ڈونالڈ اسمتھ نے جو یونیورسٹی آف پنسلوانیہ میں شعبہ سیاسیات کے استاد ہیں اسلام پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ سیکولرازم کے نظریہ کے لیے زیادہ سازگار نہیں ہے: ’’تمام مذاہب روایات، رسوم اور تہوار تجویز کرتے ہیں جو ان کے ماننے والوں کی سماجی زندگی کے لیے اہمیت رکھتے ہیں لیکن بعض سماج کے ہر پہلو کو عملاً ضابطہ کا پابند بنانے کے لیے اس سے آگے بڑھ جاتے ہیں ذات پات کا نظام اور مسلم لا اس کی مثالیں ہیں‘‘(‘India as Secular State’ in Rajeev Bhargava.ed.,Secularism and its Ctitics,p.186).
با اثر مستشرق اسکالر برنارڈ لیوس (The Crisis of islam: Holy War and Unholy Terror) نے بھی اسلام اور مسلم سماج کی ایک روایت پرست امیج بنائی ہے اور سیکولرازم کے نظریہ کو اسلام کے لیے اجنبی قرار دیا۔ تاہم لیوس نے یہ تجزیہ کرنے میں کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی کہ بڑی مغربی طاقتیں کس طرح مسلم ممالک میں اپنی کٹھ پتلیوں کو بٹھا کر حکومتوں کے تختے الٹتے رہے ہیں اور انسداد شورش آپریشن میں قتل غارت گری کرتے رہے ہیں۔
رابعاً دہشت گردی کے خلاف مابعد جنگ کا بیانیہ اچانک مسلمانوں کے خلاف نفرت میں شدت پیدا کرتا ہے۔ تمام دہشت گرد مسلمان ہوتے ہیں جیسے نعرے بنتے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر کئی مسلم معاشروں پر قبضہ کرنے کے باوجود مغربی طاقتیں آج تک دہشت گردی کی ایک متفقہ تشریح پر نہیں پہنچ سکی ہیں۔
دہشت گردی اگر حقیقت ہے تو کیا صرف مسلمان مذہبی گروپوں کی حیثیت سے دہشت گردی کررہے ہیں اور قتل وغارت گری میں ملوث ہورہے ہیں ۔ ان غیر مسلمین کے بارے میں کیا خیال ہے جو گردن تک تشدد میں ڈوبے ہوئے ہیں، کیا یہ لوگ دہشت گرد نہیں ہیں؟ کیا اس بات کی تردید کی جاسکتی ہے کہ کئی موقعوں پر انسداد دہشت گردی اقدامات نام نہاد دہشت گرد سرگرمی سے زیادہ جان واملاک کے نقصان کا سبب بنتے ہیں۔ اسلحہ اور ہتھیار کون تیار کرتا ہے اور ان کے پھیلاو سے کون نفع کماتا ہے۔ ان سوالات کو اسلاموفوبیا طاقتوں کے ذریعہ عوامی سوچ کے دائرہ میں نہیں لایا جاتا۔
خامساً، میڈیا اور سوشل میڈیا کی جانب سے طے شدہ بیانیہ سے اسلامو فوبیا کو غذا ملتی ہے۔ سوشل میڈیا پر غیر مصدقہ مواد کا سیلاب، ٹیبلائیڈ پریس کی سنسنی خیز صحافت اور نیوز چینلوں کے اینکروں کی کھوکھلی چیخ وپکار مسلم مخالف نفرت کی ایک زمین تیار کرتی ہے۔ اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ ایک قدیم ویڈیو کو اب گشت کرایا جا رہا ہے اور اسے طالبان کی دہشت گردی سے جوڑا جا رہا ہے۔
اب یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ اسلاموفوبیا ہندوستان اور مابقی دنیا میں مسلم مخالف بیانیوں کو سمجھنے کا ایک اہم آلہ ہے۔ بعض لوگ اسلاموفوبیا کو رد کرتے ہیں اور اس سے مسلمان اور مسلم سماج کی برائیوں پر کسی بھی سخت تنقید کو مسترد کرنے کے لیے مسلم اشرافیہ کا ایک آلہ قرار دیتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلامو فوبیا کی جڑیں کافی گہری اور دوہری ہیں تاہم یہ بات بھی ذہن میں رکھنی ہو گی کہ مسلمانوں اور مسلم سماج کے خلاف تمام تنقیدوں کو اسلامو فوبک کہہ کر مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ اصلاحات اور حصولِ مساوات کے لیے کی جانے والی جائز تنقید کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔ ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ ایک مسلم ورکر اور ایک مسلم زمین دار یا فیکٹریوں کے مالک کے سماجی ومعاشی حالات یکساں نہیں ہو سکتے۔ اسی طرح مسلم خواتین مسلم مردوں کے ہاتھوں زیادتی کا شکار ہو سکتی ہیں۔ کسی بھی معاشرہ کی بقا کے لیے یہ بات اہم ہے کہ اصلاحات اور تنقید کے پہیوں کو گردش میں رکھا جائے اور کبھی بھی اسلامو فوبیا کے لبادے میں انہیں بند نہ کیا جائے۔ (بشکریہ:مادھیمم ڈاٹ کام۔ترجمہ:مجیب الاعلیٰ)
(مضمون نگار ایک آزاد صحافی ومصنف ہونے کے ساتھ ساتھ پولیٹیکل سائنس اور اردو پڑھاتے ہیں۔ اقلیتوں کے حقوق اور سماجی انصاف ان کی دلچسپی کے موضوعات ہیں)
***

 

***

 دہشت گردی اگر حقیقت ہے تو کیا صرف مسلمان مذہبی گروپوں کی حیثیت سے دہشت گردی کررہے ہیں اور قتل وغارت گری میں ملوث ہورہے ہیں ۔ ان غیر مسلمین کے بارے میں کیا خیال ہے جو گردن تک تشدد میں ڈوبے ہوئے ہیں، کیا یہ لوگ دہشت گرد نہیں ہیں؟ کیا اس بات کی تردید کی جاسکتی ہے کہ کئی موقعوں پر انسداد دہشت گردی اقدامات نام نہاد دہشت گرد سرگرمی سے زیادہ جان واملاک کے نقصان کا سبب بنتے ہیں۔ اسلحہ اور ہتھیار کون تیار کرتا ہے اور ان کے پھیلاو سے کون نفع کماتا ہے۔ ان سوالات کو اسلاموفوبیا طاقتوں کے ذریعہ عوامی سوچ کے دائرہ میں نہیں لایا جاتا۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 5 ستمبر تا 11 ستمبر 2021