بھارتی سیاست میں مذہب کا استعمال

ماضی کے ناکام تجربے کے باوجود ہندو دھرم کی بالادستی قائم کرنے کی ایک مرتبہ پھر کوشش

شبیع الزماں

بھارت کثیر مذہبی ملک ہے۔یہ کئی بڑے مذاہب کا پیدائشی وطن ہیں جیسے ہندو مت، بدھ مت، جین مت یا سکھ مذہب جنہیں ہندوستانی مذاہب کہا جاتا ہے۔اسی طرح یہاں دنیا کے سبھی بڑے مذاہب کے ماننے والوں کی خاصی تعداد پائی جاتی ہے جیسے اسلام ہندوستان کا دوسرا جبکہ مسیحیت تیسرا بڑا مذہب ہے۔
بھارت کی تاریخ اس اعتبار سے بڑی دلچسپ ہے کہ یہاں موجود سبھی بڑے مذاہب جیسے بدھ مذہب،ہندو ازم،اسلام اور عیسائیت کے ماننے والوں کو کبھی نہ کبھی یہاں سیاسی عروج حاصل ہوا ہے۔ بھارت کی تاریخ میں مذہب ،ملکی ثقافت کا ایک اہم حصہ رہا ہے اس کے باوجود مذہبی تنوع بھارت کی تاریخ کی حقیقت رہا ہے اور اس مذہبی تنوع ختم کرنے کو ششیں بھی یہاں ہوتی رہی ہیں ۔حکمرانوں نے بارہا کوششیں کیں کہ ریاست کی طاقت کے بل پر اپنے مذہب کو پھیلائیں اور ریاست کو مستحکم کریں۔
سمراٹ اشوک نے تیسری صدی قبل مسیح میں بھارت میں پہلی مرتبہ ملکی سطح کی حکومت قائم، ریاست کے استحکام کے لیے جب اسے کسی نظریہ کی ضرورت پڑی تو اس نے بدھ مذہب کو سرکاری مذہب کے طور پر اختیار کرلیا اور اس کی تبلیغ کی تاکہ ریاست میں ایک ہی مذہب کے ماننے والے ہوں جس سے ریاست کو استحکام ہو۔ اس نے ملک کے مذہبی تنوع ،تہذیبی کثرت اور سماجی اختلافات کو کم کرنے یا ختم کرنے کے لیے بدھ مذہب کا سہارا لیا اور کوشش کی بدھ مذہب ریاست کا غالب مذہب ہو۔ رومیلا تھاپر لکھتی ہیں:
(1) ’’موریا انتخابی ہونے کا رجحان رکھتے تھے اور متضاد فرقوں جینوں، اجیویکاس اور بدھسٹوں کی حمایت کرتے تھے حالانکہ وہ برہمنیت کے مخالف نہیں تھے۔ ان اختلافی فرقوں نے برہمن نظریات پر سوال اٹھائے اور زندگی اور فکر کے متبادل طریقے تجویز کیے۔ ویدک برہمنیت کے متبادل نظریات کی طاقت اور ان کی حمایت واضح تھی ۔۔۔اس طرح ریاست میں نئے ابھرتے ہوئے فرقوں کے مسائل بھی بڑھتے جارہے تھے۔ اس لیے ریاست میں مختلف قوتوں کے ساتھ ایک فوکس یا مشترکہ نقطہ نظر کی ضرورت تھی۔ سلطنت میں متعدد ثقافتی اور سماجی نظام شامل تھے۔ اس طرح کی تکثیریت کو یا تو طاقت سے دبایا جا سکتا ہے یا قائل کرکےکم کیا جا سکتا ہے۔ اشوک نے دوسرے طریقے کا انتخاب کیا‘‘
اے ایل باشم اپنی کتاب میں لکھتا ہے:
‏(2) ’’یہ اشوک کا ہی زمانہ تھا جب بدھ ازم ایک مقامی بھارتی فرقہ سے بڑھ کر عالمی سطح کا مذہب بن گیا۔ روایات کے مطابق پاٹلی پتر میں بدھسٹ اسکالرس کی ایک عظیم کونسل بلائی گئی۔ پالی زبان میں قانون تیار کیا گیا اور اس کے بعد ملک کے طول و عرض میں مشینریز کو بھیج دیا گیا۔‘‘
چوتھی صدی میں جب گپتا خاندان بر سر اقتدار آیا تو اس نے برہمنی ہندو دھرم کو سرکاری مذہب بنا لیا اور کوشش کی کہ بھارت کی اکثریت کا یہی مذہب ہوجائے ۔اسمتھ بدھ مت سے ہندوازم کے بدلاؤ کو بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے۔
(3) ’’سکّوں، کتبوں اور عمارتوں کی مجموعی شہادت سے ثابت ہوتا ہے کہ خاندان گپت کے زمانے میں برہمنی ہندو مت کا احیاء ہورہا تھا اور وہ بتدریج بدھ مذہب کی جگہ لے رہا تھا ۔ اس کے ساتھ ہی عوام کی علمی زبانوں کے مقابلے میں جن کی سرپرستی شاہان اندھر نے کی تھی اب قدیم سنسکرت کا بول بالا تھا اور حکومت اس کی سرپرست ہوگئی تھی۔‘‘
سولہویں صدی میں اکبر کو جب بھارت میں غلبہ حاصل ہوگیا تو اس نے بھی یہی کوشش کی کہ ایک ایسے مذہب کے ذریعے، کہ جس میں ہر بڑے مذہب کی خصوصیات ہوں لوگوں کو متحد کر سکے تاکہ اس کی رعایا میں مذہبی اختلاف ختم ہو۔ آر پی ترپاٹھی اکبر کی کوششوں کو بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے:
(4) ’’ اکبر تاریخ ہند کا سب سے بڑا بادشاہ تھا۔ وہ بیک وقت اپنے زمانے کی پیداوار اور اس کا جنم داتا بھی تھا ۔ اکبر کو جن مسائل کا سامنا کرنا پڑا وہ ان مسائل کے مقابلے میں جو چندر گپت، اشوک یا گپتا بادشاہوں کو لاحق ہوئے بہت پیچیدہ اور مشکل تھے۔ وہ ایک غیر ملکی ترک اور مسلمان تھا اور اس کو مختلف النوع فرقوں کے لوگ مثلاً ہندوستانیوں کو جن میں ہندو اور نو مسلم شامل تھے ترکوں، مغلوں اور ایرانیوں سے سابقہ پڑا اور آگے چل کر اس کو عیسائیوں سے بھی نمٹنا تھا۔ اکبر نے اپنی خدادا بصیرت ، تجربات اور میل جول کے سبب ایسے بنیادی اصول مرتب کیے جو اس کے اعمال کے محرک ہوئے۔سب سے پہلے تو یہ کہ اس کو اس بات کا پورا یقین ہوگیا تھا کہ بھارت کے دو بڑے فرقوں کے درمیان اتحاد قائم کرنا اشد ضروری ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اس نے سخت گیرانہ اقدامات کیے اور مذہبی بندشوں کو دور کر دیا۔۔ اکبر کا عقیدہ تھا کہ جب سب مذاہب دین الہیٰ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ پیغمبروں نے ان کی اشاعت کی ہے تو ان میں مشترکہ بنیادی باتیں ضرور ہونی چاہئیں۔ان مذاہب کے مقاصد کم و بیش ایک ہی جیسے ہیں لیکن وہ کسی نہ کسی طرح تٖفصیلات ، بدعات ،توہمات اور اسی قسم کے دوسرے پردوں میں گم ہوکر رہ گئے ہیں ۔ اگر ان مقاصد کو غیرجانبدارانہ تحقیقات کے ذریعے مدون کرلیا جائے تو یہ انسانوں کو مذہبی نقطہ نظر سے متحد کرنے میں بڑے اہم اور قیمتی ثابت ہوں گے ‘‘
اسی طرح سترہویں صدی میں اورنگ زیب نے بھی ریاست کے مسلم تشخص کو ابھارنے کی کوشش کی۔اسی قسم کی کوششیں انگریزوں نے بھارت میں اپنے اقتدار کے دور میں کیں تاکہ لوگوں کو عیسائی بناکر انہیں ریاست سے ہم آہنگ کیا جائے ۔ اس کام کے لیے انگریزوں نے جہاں مغربی تعلیم کو استعمال کیا وہیں عیسائی مشنریز کو بھی میدان میں اتاردیا۔ ڈاکٹر محمد مظفر الدین فاروقی اپنی کتاب ’’ بھارت میں مسلم دور حکومت کا خاتمہ اسباب و علل‘‘ میں لکھتے ہیں : ’’صرف انگریزی تعلیم ہی نہیں ۱۸۳۳ کے بعد یورپ سے پادریوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہو ا۔ ان پادریوں نے مذہبی تبلیغ کے جنون میں بھارت کے مذاہب پر بے جا حملے کرکے اہل ہند کی دل آزاری کا سلسلہ شروع کیا‘‘
ماضی کے ان تجربات کی روشنی میں جدید بھارت کو ایک سیکولر ریاست بنایا گیا تھا کہ جس میں ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوگا اور فرد کی مذہبی آزادی کو بنیادی حق تسلیم کیا گیا تھا، لیکن آجبھارت میں تاریخ کے اسی ناکام تجربے کو پھر سے دہرانے کی کوشش ہورہی ہے۔ برہمنی ہندوازم سے پیدا ہونے والے ہندوتوادیوں کی کوشش ہے کہ ہندو دھرم کو ریاستی مذہب بنا دیا جائے۔حالانکہ ماضی میں ان کوششوں میں جبر کا پہلو نہیں تھا اور اس بار ڈائیلاگ اور گفتگو کے بجائے زبردستی کا پہلو غالب ہے۔لیکن ان کوششوں میں نہ اشوک کو کامیابی ملی تھی نہ اکبر کو اور نہ ہی انگریز ہی کامیاب ہوپائے تھے۔ دیکھنا ہے کہ اب کی بار یہ کوششیں کتنا رنگ لاتی ہیں۔
۔۔۔
(1) History of early India from the Origin to AD 1300- Romila Thapar
(2) The wonder that was india. A.L. Basham
(3) The Early History Of India- Vincent A.Smith
(4) Rise and fall of the Mughal empire -by R. P. Tripathi
(5) ڈاکٹر محمد مظفر الدین فاروقی کی کتاب "ہندوستان میں مسلم دور حکومت کا خاتمہ اسباب و علل”
(6) Advance history of India-R.C Majumdar
***

 

***

 برہمنی ہندوازم سے پیدا ہونے والے ہندوتوادیوں کی کوشش ہے کہ ہندو دھرم کو ریاستی مذہب بنا دیا جائے۔حالانکہ ماضی میں ان کوششوں میں جبر کا پہلو نہیں تھا اور اس بار ڈائیلاگ اور گفتگو کے بجائے زبردستی کا پہلو غالب ہے۔لیکن ان کوششوں میں نہ اشوک کو کامیابی ملی تھی نہ اکبر کو اور نہ ہی انگریز ہی کامیاب ہوپائے تھے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  31 اکتوبر تا 6 نومبر 2021