بچہ مزدوری بدستور ایک سنگین مسئلہ

کووڈ نے لاکھوں بچوں کو جبری مزدوری کے دلدل میں دھکیل دیا

زعیم الدین احمد، حیدرآباد

 

اسکول واپسی اور سماجی تحفظات کے منصوبہ پر کام کرنے کی ضرورت
دنیا میں ہر دس میں ایک بچہ مزدوری کرتا ہے اور یہ شرح پچھلے دس سالوں میں اپنی اعلیٰ ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ وبائی مرض کوویڈ-19 نے مزید 90 لاکھ بچوں کو بچہ مزدوری کے بھنور میں دھکیل دیا ہے۔ عالمی سطح پر بچہ مزدوری کی روک تھام پر لڑی جانے والی لڑائی تعطل کا شکار ہوگئی ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ اس لڑائی کے خلاف پیشرفت جیسے تھم سی گئی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بین الاقوامی برادری کا 2025 تک بچہ مزدوری کے خاتمے کے نشانہ حاصل نہیں ہو پائے گا، چنانچہ بچوں کا مستقبل خطرے میں نظر آرہا ہے۔
انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) اور یونیسیف، چائلڈ لیبر کی جانب سے کی جانے والے عالمی تحقیق کے مطابق 2020 میں عالمی سطح پر یہ پایا گیا ہے کہ پانچ سال سے گیارہ سال کی عمر کے بچوں کو کام کرنے پر مجبور کیا گیا اور یہ صورت حال میں پچھلے چار سالوں سے مسلسل اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ بچوں کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ مزدوری کریں اس طرح انہیں جبراً مزدوری کے دلدل میں دھکیلا جاتا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ انہیں ایسی مزدوری پر مجبور کیا جاتا ہے جو ان کی صحت کے لیے شدید نقصاندہ ہے۔ 2020 کے اعداد وشمار پر نظر ڈالی جائے تو ہمیں معلوم ہوگا کہ دنیا بھرمیں سولہ کروڑ بچے بچہ مزدوری کرتے ہیں جن میں سے نو کروڑ تیس لاکھ لڑکیاں اور نو کروڑ ستر لاکھ لڑکے ہیں۔ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ ان بچوں میں سے آدھے یعنی سات کروڑ نوے لاکھ بچے ایسی مزدوری کرتے ہیں جن سے نہ صرف صحت بلکہ ان کی اخلاقیات بھی متاثر ہوتی ہیں۔
آئی ایل او کے ڈائریکٹر جنرل گائے رائڈر نے کہا کہ ’’یہ اعداد وشمار حیران کرنے والے ہیں ہمیں اس پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا اور اس کا پائیدار حل نکالنا ہوگا ہم اس معاملہ میں خاموش تماشائی بن کر نہیں رہ سکتے جب کہ ہماری نئی نسل کو خطرہ لاحق ہو۔ سماجی تحفظات اور معاشی مشکلات کے باوجود لوگوں کو چاہیے کہ اپنے بچوں کو تعلیم سے آراستہ کریں۔ حکومتیں دیہی ترقیات پر توجہ دیں اس شعبہ میں سرمایہ کاری کو بڑھائیں۔ ہم آج ایک اہم موڑ پر کھڑے ہیں اس لمحے ہمیں ایک نئے عزم اور توانائی کے ساتھ اس کی روک تھام کے لیے اقدامات اٹھانے چاہئیں ہمیں موجودہ حالت کو بدلنا ہوگا عوام کو غربت اور بچوں کو بچہ مزدوری کے دلدل سے نکالنا ہوگا‘‘۔
رپورٹ میں موجود کچھ اہم دریافتیں: لڑکیوں کی بہ نسبت لڑکوں میں بچہ مزدوری کا رجحان زیادہ ہے اور یہ ہر عمر کے لڑکوں میں ہے۔
شہروں کے مقابلہ میں دیہی علاقوں میں بچہ مزدوری زیادہ پائی جاتی ہے۔
ستر فیصد بچے کھیتی باڑی وزراعت کی مزدوری کا کرتے ہیں۔
اس رپورٹ کے مطابق اگر فوری کارروائی نہ کی گئی تو یہ تعداد بڑھ کر چار کروڑ ساٹھ لاکھ تک پہنچ جائے گی۔
رپورٹ میں اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ کوویڈ-19 وبائی مرض کی وجہ سے ملازمت کے ختم ہونے کی وجہ سے لوگ معاشی طور پر بد حال ہوگئے تو یہ لوگ مجبور ہوگئے کہ اپنے بچوں کو مزدوری پر لگائیں تاکہ انہیں اس سے کچھ آمدنی ہوسکے۔ پھر دوسری طرف اسکولوں کا بند ہونا بھی ان کے یہ فیصلے میں مدد گار ثابت ہوا۔
2016 سے لے کر 2020 کے درمیان بچہ مزدوری میں اسی لاکھ بچوں کا اضافہ ہوا ہے جب کہ سنہ 2000 سے عالمی بچہ مزدوری کی لڑائی میں کمی دیکھی جارہی تھی، لیکن پچھلے چار سالہ مدت کے دوران اس لڑائی میں نمایاں کمی دیکھی گئی ہے گزشتہ چار سالوں میں پینسٹھ لاکھ بچوں سے مزدوری کے نام پر انتہائی پُر خطر کام لیے گئے جو ان کی صحت واخلاقیات کو تباہ وبرباد کر دینے والی تھی یقیناً عالمی سطح پر بچہ مزدوری کے خاتمے کے لیے لڑی جانے والی لڑائی میں عالمی برادری دھکا لگا ہے۔ اس رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا میں غریب بچوں کی کیا صورت حال ہے اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ حکومتوں کو اس جانب فوری طور پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے اور مسلسل اس کے خاتمے کے لیے اقدامات اٹھائے جانے چاہئیں۔
بچہ مزدوری کے معاملہ میں ہمارا ملک کسی سے پیچھے نہیں ہے۔ آئی ایل او کے مطابق تقریباً ایک کروڑ انتیس لاکھ انڈین بچے جن کی عمریں سات سے سترہ سال کے درمیان ہیں مختلف مزدوری کے کام میں مصروف ہیں۔ یہ لاکھوں لڑکے اور لڑکیاں ہر روز مختلف کانوں میں، فیکٹریوں میں کام کرتے ہیں یا سڑک پر سگریٹ بیڑی بیچتے ہیں۔ حقیقت میں یہ بچے اپنے گھر کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے کام کرتے ہیں تاکہ ان کا اور ان گھر والوں کا پیٹ پالا جا سکے، یہ بچے روزآنہ پندرہ تا سولہ گھنٹے کام کرتے ہیں لیکن یہ اعداد وشمار بھی حقیقتِ حال کی عکاسی نہیں کرتے کیوں کہ اس سے کہیں زیادہ تعداد ہمارے ملک میں بچہ مزدوری کی ہے۔ جب بچے بڑے ہوتے جاتے ہیں تو ملازمت میں بھی ان کی شمولیت بڑھ جاتی ہے۔
بھارت جیسے کثیر آبادی والے ملک میں میں بچوں کی مزدوری کے درست پیمانے کی پیمائش کرنا انتہائی مشکل ہے کیوں اکثر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ بچہ مزدوری کرنے والوں بچوں اعداد وشمار کو ہمیشہ سے پوشیدہ رکھا گیا ہے، اگر پوشیدہ نہ بھی رکھا گیا ہو تو کم ازکم اس کی تعداد کم بتائی گئی ہے۔ ملک میں بہت سے بچے محض اس لیے کام کرتے ہیں کہ انہیں کچھ کھانے کے لیے مل جائے، یہ بچے ٹیکسٹائل، اسٹیل فیکٹریوں، قالین بنانے کے کارخانوں، اینٹوں کی بھٹوں یا ہوٹلوں میں کام کرتے ہیں۔ تمباکو کی صنعت میں بھی بچے مزدوری کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ بڑی بڑی صنعتیں انہیں اس لیے استعمال کرتی ہیں کیونکہ سستے میں کام نکل جاتا ہے۔ زراعت کے شعبہ میں ان سے بطور بندھوا مزدوری کے کام لیا جاتا ہے۔ ایک اور افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ ملک میں لڑکے اور لڑکیوں کی اسمگلنگ بھی ہوتی ہے، انہیں جرائم کی دنیا میں دھکیلاجاتا ہے، بچوں کی تجارت جنسی استحصال کے لیے بھی کی جاتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ملک میں بارہ لاکھ بچوں کو جسم فروشی کے کاروبار میں دھکیلا گیا ہے۔
آخر اس مسئلے سے کیسا نمٹا جائے؟ تو اس سلسلے میں آئی ایل او اور یونیسیف نے ایک پانچ نکاتی منصوبہ دیا ہے جس سے بچہ مزدوری کی لعنت سے چھٹکارہ پایا جا سکتا ہے۔
ا- سب کو معاشرتی تحفظ فراہم کیا جائے، اس کے لیے عالمی سطح پر کوششیں ہونی چاہئیں۔
۲- اسکولوں کی دوبارہ کشادگی ہو، بچوں کو اسکول میں داخل کروانے کے لیے مہم چلائی جائے اور بچوں کو مفت معیاری تعلیم فراہم کی جائے۔
۳- والدین اور خاندان کے بالغ افراد کو کام فراہم کیا جائے جس کے ذریعہ وہ اپنے خاندان کو پال سکیں، ان کی آمدنی کو بڑھایا جائے تاکہ وہ اپنے بچوں کو اسکول بھیج سکیں، بچوں کی مزدوری پر ان کا انحصار نہ ہو۔
۴- صنفی امتیاز ختم ہو، جو بچہ مزدوری میں اضافہ باعث بنا ہوا ہے اور جو بچے زیر کفالت ہیں ان میں امتیاز ختم ہو۔
۵- بچوں کے تحفظ کا نظام بنایا جائے، دیہی علاقوں میں عوامی خدمات کو فروغ دیا جائے، شعبہ زراعت کو ترقی دی جائے اس میں سرمایہ کاری کی جائے۔
یونیسف کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ہنریٹا فور کا کہنا ہے کہ "ہم بچوں کی مزدوری کے خلاف جنگ ہارتے جا رہے ہیں، پچھلا سال ہمارے لیے انتہائی دشوار کن رہا ہے، یہ لڑائی اتنی آسان نہیں ہے۔ عالمی سطح کی تالا بندی، اسکولوں کا بند ہو جانا، معاشی سرگرمیوں کا رک جانا، کاروبار میں رکاوٹوں اور اس کے ساتھ ساتھ حکومتوں کا اس پروگرام کے لیے بجٹ میں کمی کرنا یہ ساری وجوہات ہیں جن سے غریب عوام اپنے دل پتھر رکھ کر اپنے بچوں سے مزدوری کرانے پر مجبور ہو گئے‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’ہم حکومتوں اور بین الاقوامی ترقیاتی بینکوں سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ ایسے پروگراموں میں کی جانے والی سرمایہ کاری کو ترجیح دیں جو بچوں کو مزدوری کے دلدل سے نکال کر اسکولوں میں واپس لے جاسکیں اور سماجی تحفظات کے منصوبے بنائے جائیں تاکہ غریب خاندان اپنے بچوں کو مزدوری کرانے پر مجبور نہ ہوں‘‘
***

بچہ مزدوری کے معاملہ میں ہمارا ملک کسی سے پیچھے نہیں ہے۔ آئی ایل او کے مطابق تقریباً ایک کروڑ انتیس لاکھ انڈین بچے جن کی عمریں سات سے سترہ سال کے درمیان ہیں مختلف مزدوری کے کام میں مصروف ہیں۔ یہ لاکھوں لڑکے اور لڑکیاں ہر روز مختلف کانوں میں، فیکٹریوں میں کام کرتے ہیں یا سڑک پر سگریٹ بیڑی بیچتے ہیں۔ حقیقت میں یہ بچے اپنے گھر کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے کام کرتے ہیں تاکہ ان کا اور ان گھر والوں کا پیٹ پالا جا سکے، یہ بچے روزآنہ پندرہ تا سولہ گھنٹے کام کرتے ہیں لیکن یہ اعداد وشمار بھی حقیقتِ حال کی عکاسی نہیں کرتے کیوں کہ اس سے کہیں زیادہ تعداد ہمارے ملک میں بچہ مزدوری کی ہے۔ جب بچے بڑے ہوتے جاتے ہیں تو ملازمت میں بھی ان کی شمولیت بڑھ جاتی ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 11 تا 17 جولائی 2021