بچوں کا ادب اور ہمارے ادبا و شعرا

علامہ راشد الخیری سے لے کرمولوی اسماعیل میرٹھی تک

ڈاکٹر محمد حسین فطرتؔ بھٹکلی

مشاہیر ادب نے شاعری کے ذریعہ بچوں میں صالح فکر کو پروان چڑھایا
بچوں کا ادب اور شعراء، اس موضوع پر خامہ فرسائی کی جب میں نے نیت باندھی تو تھوڑی دیر کے لیے میں گویم مشکل وگرنہ گویم مشکل میں پڑ گیا۔ یعنی یہ مسئلہ زیر نظر آیا کہ کیا لکھوں، اس کے بعد یادداشت کی بیاض کے اوراق کے بعد دیگرے الٹنے لگا، اوراق گردانی کے دوران طائر خیال عہد ماضی کی طرف لوٹا۔ ذہن میں ایام رفتہ کی دھوپ چھاؤں کا منظر رقص کرنے لگا، طالب علمی کا دور یاد آیا، عشرت رفتہ کے نقش ونگار قلب و ذہن پر مرتسم ہونے لگے اوراب میرے قلم میں واقعی حرکت و جنبش پیدا ہوئی اور تخلیقی صلاحیت صحیفہ قرطاس پر نقوش ماضی ثبت کرنے میں مصروف و منہمک ہوگئی۔
یہ ایک المیہ ہے کہ بچوں کا ادب جس قدر اہم موضوع ہے، اتنا اسے قابل اعتناوالتفات نہ سمجھا گیا، حالانکہ بچوں کی بنیادی تعلیم وتربیت ہی ایوان مستقبل کا سنگ بنیاد ہے۔ میں جب اپنے زمانہ طالب علمی میں تحصیل علم میں کوشاں تھا، اس وقت ہمارے اردو نصاب میں متعدد ادباء وفضلاء کے ادب پارے زیر مطالعہ رہتے تھے، بالخصوص سرسید، مولانا حالی،علامہ راشد الخیری، مولا محمد حسین آزاد، مولوی ذکاء اللہ، ڈپٹی نذیر احمد، مولانا شبلی نعمانی، پنڈت رتن ناتھ سرشار، پنڈت دیا شنکر نسیم کے ادب پاروں سے استفادے کے مواقع حاصل تھے۔ راشد الخیری کے رشحات قلم کی دلگدازی ضرب المثل کی طرح مشہور ہے،ان کے مضامین میں حزن وملال کی عکاسی وغمازی کا وہ عالم ہے کہ غم جو ایک غیر مرئی چیز ہے محسوس پیکر کا روپ دھارتا ہے، گویا صفحہ قرطاس پر الفاظ نہیں بلکہ مظلوم ومجبور کے آنسو بکھرے ہوئے ہیں یا غم واضطراب کی مرمریں اصنام ڈھل گئے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ ان کو ’مصورغم‘ کے نام سے یاد کیا جا تا ہے ۔
ان کی تصانیف جہاں بڑوں کے لیے مفید وموعظت بردوش ہے، بالکل اسی طرح طلبہ اور نو جوانوں کے لیے دل پذیر اور سبق آموز ہیں ۔ راشدالخیری مشرقی تہذیب کو دل وجان سے عزیز رکھتے تھے، ان کو مغربی سیلاب میں ہر چیز ڈویتی نظر آ رہی تھی مولانا نے اسی مغربی سیلاب میں عورتوں کی حیا کو ڈوبتے دیکھا، انہوں نے اپنی ساری ادبی صلاحیتیں صنف نازک کی اصلاح وترقی کے لیے وقف کر دیں’’ شام زندگی‘‘ ’’صبح زندگی‘‘ ’’سیدہ کا لال‘‘ وغیرہ ان کی مایہ ناز تصانیف ہیں ۔
اسی طرح اپنے نصابی کتب میں خواجہ حسن نظامی کے ادب پاروں سے بھی استفادہ کرتے تھے، ہماری ادبی صلاحیتوں کی نشوونما میں ان رعنائی افکار اور شوخی گفتار کو بڑادخل ہے۔ موصوف کے خامہ معجز نما کے جلال و جمال کا حال کیا عرض کروں، حسن رقم اور کمال فن کا یہ عالم تھا کہ گونگے الفاظ کو زبانِ گویا حاصل ہوتی تھی۔ قم باذن اللہ کا ورد پڑھ کر بے جان الفاظ میں وہ ایک نئی روح پھونک دیتے تھے، دیا سلائی اور الو جیسے پیش پا افتادہ عنوان کو گنجینہ معنی بنا دیتے تھے، یہی وجہ ہے کہ ان کو ’مصور فطرت‘ کے نام سے یاد کیا جا تا ہے ۔انہوں نے اپنی انشاء پردازی کے اچھوتے انداز اور انوکھے خیال سے بعض مضامین کو کچھ سے کچھ بنا دیا،کون ایسا اردو داں ہے جس نے ان کا مضمون ’’الو‘‘ نہ پڑھا ہوگا، اس مضمون میں مولانا نے اپنی علمی ذکاوت اور لطیف مزاح اور تصوف میں غلطاں رجحان سےعجیب وغریب سماں پیدا کر دیا ہے ۔ یوں ہی سرسید کے مضامین سے بھی ہم نے اپنے طالب علمی کے دور میں خوب خوب خوشہ چینی کی ہے، ان کے ادب پاروں سے اردو ادب اور اور اردو لٹریچر کا صیح فہم ہم کو عطا ہوا اور متعدد اخلاقی قدروں سے بخوبی متعارف و روشناس ہوئے ۔
اردو کی مشاطگی میں سرسید کا نمایاں حصہ ہے،انہوں نے اردو ادب کو دلکش، باوقاراور ذی اعتبار بنانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا ۔اس وقت اگر چہ فورٹ ولیم کالج کے قیام نے اردو نثر کی کایا پلٹ دی تھی۔ سرسید کی امتیازی شان کچھ اور ہے، سرسید نے جب آثار الصنادید لکھی تو وہی قدیم اسلوب بیان اختیار کیا جس میں الفاظ کا شکوہ،عبارت آرائی مقفیٰ نگاری تشبیہات کی بھر مار، استعاروں کی فراوانی سب کچھ ہے بھی لیکن ان کی دور اندیشی کی عمدہ مثال ہے کہ جب آثار الصنادید‘‘ کا دوسرا ایڈیشن شائع ہوا تو آسان اردو اور سادہ زبان کا اہتمام تھا، آثارالصنادید کا دوسرا ایڈیشن ہی اردو کے اسلوب بیان کے لیے مشعل راہ بنا۔ بلکہ تہذیب الاخلاق نے بھی اردوادب کی فلاح وصلاح کے سلسلے میں مہتم بالشان پارٹ ادا کیا، نہ صرف یہ کہ سرسید نے اسلوب بیان پر ہی زور دیا ہو بلکہ علمی ، اخلاقی ، مذہبی ، سیاسی ، تاریخی اور فلسفیانہ مضامین پر بھی توجہ صرف کی ۔علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ کا اجراء بھی اردوزبان وادب کی ترویج وترقی میں ممد و معاون رہا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ مشاطگی کا کل ادب کا سلیقہ ہمارے اندر پیدا کرنے میں ہمارے درسی نصاب کی گونا گوں خصوصیات اور اس کے اعلیٰ معیار کو بڑا دخل ہے، اپنی تعلیمی کد وکاوش کی داستان سرائی کو میں نامکمل اور تشنہ سمجھوں گا ، اگر میں پنڈت رتن ناتھ سرشار کے خامہ افسوں طراز کی عکاسی وغمازی نہ کروں ۔ پنڈت رتن ناتھ سرشار کا ادب پارہ ’’فسانہ آزاد ‘‘لکھنو کی سوسائٹی کی جیتی جاگتی تصویر ہے ، سرشار کا یہ کارنامہ نہ صرف ادبی حیثیت سے قابل قدر ہے بلکہ تہذیبی اور تاریخی سرمایہ میں بھی ایک گرانقدر اضافہ ہے ،اس دور میں لکھنو کی تہذیب پورے طور پر ’فسانہ آزاد‘ کے کردار میں سموئی ہوئی ہے، ایک زوال آمادہ تمدن کی جو بھی خاصیتیں ہوتی ہیں ، سب’’فسانہ آزاد‘‘ کے صفحات پر بکھری نظر آتی ہیں، جاگیردارانہ نظام کی برکتیں اور ان برکتوں کے فیوض سے جو کچھ اثرات شخصیات پر مرتب ہوتے ہیں ان سب کی تفصیل ’’فسانہ آزاد‘‘میں ملتی ہیں ،سرشار نے لکھنو کی روز مرہ زندگی کو کچھ اس طرح پیوست کر دیا ہے کہ وہ اپنے خدوخال کھو دینے کے بعد بھی’فسانہ آزاد‘ میں زندہ جاوید بن گئی ہے، ’فسانہ آزاد‘ میں ہرقسم کا مزاج ملتا ہے ۔ طبقاتی تقسیم نے ہماری زندگی میں جس قسم کے مزاج کو جنم دیا ہے ، سرشار نے اس کو بڑی خوبی اور فنی چابکدستی کے ساتھ موردِ اظہار کیا ہے، ایک طبقہ ’پدرم سلطان بود‘‘ کی صہبائے تند سے مخمور ہے تو دوسرا طبقہ حد درجہ لا ابالی پن ، عیش پرستی، بے پروائی اور شکم پروری کا شکار ہے ، سرشار کے زمانے میں لکھنو بھانڈوں کی ظرافت کا مرکز تھا، لیکن سرشار کا کمال فن یہ ہے کہ اس نے ابتذال کو ایک ادبی جمال بخشا۔
ڈپٹی نذیر احمد نے بھی اپنے گرانقدر نثری افکار ونقوش سے بچوں کے ادب کو نگار خانه تعلیم وثقافت بنایا، ان کی بعض تصنیفات مثلا ’ابن الوقت‘، ’توبہ النصوح‘ وغیرہ نے افسانہ نگاری میں ایک نئی طرح ڈالی، یوں تو افسانہ اور حقیقت میں بعد المشرقین ہوتا ہے، مگر ڈپٹی نذیر احمد کے خامہ افسوں طراز نے افسانے کے اندر حقیقت کو اس طرح گھول دیا جیسے شیر وشکر کا امتزاج ہوتا ہے، بچوں کی دینی واخلاقی تربیت میں نذیر احمد کے افسانوں نے نا قابل فراموش حصہ ادا کیا ہے ۔
اسی طرح اور بھی ادباء وشعراء کے اسماء قابل ذکر ہیں جنہوں نے اپنی گرانقدر تخلیقات ونگارشات سے بچوں کے ادب کو مالا مال کیا۔ مولانا شبلی نعمانی ، مولوی اسماعیل میرٹھی ، علامہ اقبال ، حفیظ جالندھری، حامد اللہ افسر ،شفیع الدین نیر، تلوک چند محروم اور چکبست لکھنوی جیسے شعراء وفضلاء نے بچوں کے ادب کو گہوارہ تہذیب و تمدن بنایا۔
مولانا شبلی نعمانی نے بے شمار تاریخی واقعات کو منظوم شکل میں پیش کیا، بچوں کی نفسیات کو سامنے رکھ کر نہایت آسان اور عام فہم زبان میں تاریخی حقائق کوصفحہ قرطاس پر مرتسم کرنا گویا انہیں کا حصہ ہے، انہوں نے فاروق اعظم، مساوات اسلام، عدل جہانگیر، جنگ احد میں حضرت حمزہ کی شہادت جیسی معرکۃ الآرا نظمیں بچوں کے لیے لکھیں جن کی معنی خیزی اور ندرتِ بیان کا جواب نہیں ۔ تدریسی و تعلیمی کتب میں مولانا شبلی نعمانی کے نثری فن پارے بھی اردوادب کے نادر و نایاب نمونے ہیں، مثال کے طور پر مصر کی قدیم یادگار یں،ترکوں کے اخلاق و عادات اور طرز معاشرت وغیرہ مضامین نثری وادبی جواہر پاروں کا درجہ رکھتے ہیں ۔
حامداللہ افسر بھی بچوں کی نفسیات کے بڑے روشناس تھے، وہ اپنی ملکی پھلکی نظموں وسیلہ بچوں کے دل میں اترنے کا فن جانتے تھے، ان کی نظمیں گویا بچوں کے خوشنما اور رنگین کھلونے ہیں جن کی کشش اور دلآویزی بچوں کے ذہن ودل کو مسخر کر لیتی ہے۔ چاند کے عنوان پر مجھے ان کا ایک مصرعہ یاد ہے جس میں ادب کے جمال وجلال کی عکاسی کی گئی ہے، عام آدمی دریا کے کنارے پر رات کو چاند کا سماں دیکھتا ہے تو اسکی عکاسی یوں کرتا ہے کہ دریا کے کنارے چاند کا منظر بڑا خوبصورت معلوم ہوتا ہے ، مگر ایک شاعراس بات کو بڑے دلکش اور اچھوتے انداز میں یوں پیش کرتا ہے۔
تم ندی پر جا کر دیکھو
جب ندی میں نہائے چاند
بالفاظ دیگر اپنے مافی الضمیر کونہایت پرکشش اور دل نواز انداز میں بیان کرنا ادب کا دوسرا نام ہے اور شاعری کا فن بھی ایسی ہی منظر کشی اور افسوں طرازی سے عبارت ہے ۔ علامہ اقبال نے بھی اپنے شعری وادبی گلکاریوں سے بچوں کے ادب کو سبد گل اور کف گل فروش بنایا۔ انہوں نے بچوں کے ادب پر اپنی خصوصی توجہ صرف کی، طلبا کے اندر حصول علم کی لگن پیدا کرنے میں ان کے ادبی گل ولالہ نے نا قابل فراموش پارٹ ادا کیا ہے۔ ان کی بعض نظمیں مثلا ’لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری‘ اور ’ٹہنی پرکسی شجر کی تنہا‘ ’ سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘اور’ جگنو کی روشنی ہے کا شانہ چمن میں‘ اور’ آتا ہے یاد مجھ کو گزرا ہوا زمانہ‘ یگانہ روز کار تخلیقات ہیں ، جن کی کیمیا اثری کو کبھی فراموش ونظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
بچوں کے ادب کی تشکیل تخلیق کے سلسلے میں اپنی پرخلوص کاوشوں کا مظاہرہ کرنے والوں کی فہرست میں مولوی اسماعیل میرٹھی کا نام سرفہرست ہے۔ ان کی بے شمار نظمیں اردو کی تعلیمی نصاب کی روح رواں ہیں۔ انہوں نے بچوں میں تعلیمی واخلاقی روح پھونکنے کے سلسلے میں ایسی نادر ونایاب تخلیقات پیش کی ہیں جن سے ہزاروں طلبا اکتساب فیض کرتے رہے ہیں۔ بچوں کی نفسیات کو مدنظر رکھ کر ہلکی پھلکی نظموں کے ذریعے پتے کی باتیں بتلانا ان کے قلم کی مابہ الامتیاز خصوصیت ہے۔ ’العلم في الصغر كالنقش في الحجر‘ کے مصداق، پرائمری درجے میں پڑھے ہوئے مولوی اسماعیل میرٹھی کے اور بھی بہت سے اشعار ہنوز میرے بر زبان ہیں۔ سچ پوچھو تو ادبیات اطفال ایوان مستقبل کے لیے سنگ بنیاد کی حیثیت کی حامل ہے۔ ان کی روح پروری اور ذہن سازی مسلمات کا درجہ رکھتی ہے۔ (ماخوذ از مضامین فطرت)
***

 

***

 یہ ایک حقیقت ہے کہ مشاطگی کا کل ادب کا سلیقہ ہمارے اندر پیدا کرنے میں ہمارے درسی نصاب کی گونا گوں خصوصیات اور اس کے اعلیٰ معیار کو بڑا دخل ہے، اپنی تعلیمی کد وکاوش کی داستان سرائی کو میں نامکمل اور تشنہ سمجھوں گا اگر میں پنڈت رتن ناتھ سرشار کے خامہ افسوں طراز کی عکاسی وغمازی نہ کروں ۔ پنڈت رتن ناتھ سرشار کا ادب پارہ ’’فسانہ آزاد ‘‘لکھنو کی سوسائٹی کی جیتی جاگتی تصویر ہے۔ سرشار کا یہ کارنامہ نہ صرف ادبی حیثیت سے قابل قدر ہے بلکہ تہذیبی اور تاریخی سرمایہ میں بھی ایک گرانقدر اضافہ ہے ،اس دور میں لکھنو کی تہذیب پورے طور پر ’فسانہ آزاد‘ کے کردار میں سموئی ہوئی ہے، ایک زوال آمادہ تمدن کی جو بھی خاصیتیں ہوتی ہیں ، سب’’فسانہ آزاد‘‘ کے صفحات پر بکھری نظر آتی ہیں۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  28 نومبر تا 4 دسمبر 2021