بنگلورو : مساجد کے تقدس پر سیاست کے سائے

مسجد کمیٹیوںمیں الیکشن، خدمت کے نام پر سیاست؟

رؤوف احمد ، بنگلورو

ملت کے سنجیدہ طبقے کو اس خطرناک رجحان پر قابوپانے کی کوشش کرنی چاہئے
ملک کے آئی ٹی شہر بنگلورو میں ایک ہزار سے زائد مساجد آباد ہیں۔ یہاں کی کئی مساجد جدید طرز تعمیر کا عمدہ اور خوبصورت نمونہ ہیں۔ ایک کروڑ سے زائد آبادی والے اس شہر کے کونے کونے میں مساجد کا آباد رہنا یہاں کے مسلمانوں کے جذبہ ایمانی، تقویٰ اور پرہیزگاری کی عکاسی کرتا ہے ۔ بنگلورو کی مساجد اس لیے بھی مثالی سمجھی جاتی ہیں کہ یہاں کی بیشتر مساجد کے ذریعہ تعلیمی، سماجی، فلاحی خدمات بڑے پیمانے پر انجام دی جاتی ہیں۔ کئی مساجد کے تحت تعلیمی ادارے قائم ہیں۔ شہر کی مرکزی مسجد’’سٹی جامع مسجد‘‘کے تحت جامعة العلوم میں بڑی تعداد میں طلباء تعلیم پارہے ہیں۔ اسی مسجد کے تحت ماہانہ مفت اجتماعی شادیوں کا پروگرام منعقد ہوتا ہوا آرہا ہے۔ بنگلورو کی ایک اور مسجد ’’مسجد اہل حدیث چارمینار‘‘میں ڈائلاسیس کے مریضوں کو ماہانہ بلا لحاظ مذہب و ملت مالی مدد فراہم کی جاتی ہے۔ شہر کے ٹیانری روڈ پر واقع مسجد حضرت بلال کی انتظامی کمیٹی نے لاک ڈاؤن میں بڑے پیمانے پر راشن تقسیم کرنے کے ساتھ ضرورت مند مریضوں کے لیے آکسیجن کا انتظام کیا تھا۔ اس طرح شہر کی اکثر مساجد عبادت کے ساتھ خدمت خلق کے کاموں کا بھی مرکز رہی ہیں ۔
لیکن افسوس کہ گزشتہ چند سالوں سے یہاں ایک خطرناک رجحان جنم لے رہا ہے۔ مسجدوں میں خدمت کے نام پر سیاست دیکھنے کو مل رہی ہے۔ مسجدوں کے انتظامات کے لیے تشکیل پانے والی کمیٹیوں میں اتفاق رائے سے نہیں بلکہ الیکشن کے ذریعہ ممبرز منتخب ہو رہے ہیں۔ مسجد کمیٹی کا الیکشن اور اس الیکشن کے بعد جشن کا منانا ایک رجحان بنتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ حال ہی میں شہر کی تین مسجدوں کے انتخابات ہوئے۔ ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے علاقے میں کارپوریشن یا اسمبلی کا الیکشن ہورہا ہو ۔ الیکشن سے قبل، ووٹنگ کے دن اور ووٹوں کی گنتی کے بعد مسجدوں کے باہر خوب ہنگامہ آرائی، دھوم دھام، یہاں تک کہ ایک مسجد کے باہر آتش بازی کی گئی۔ یہ تمام مناظر مسجد کے تقدس کے منافی دکھائی دے رہے تھے۔
کرناٹک کی مسجدوں کی یہ روایت رہی ہے کہ انتظامی امور کو سنبھالنے کے لیے یہاں اتفاق رائے سے کمیٹیوں کی تشکیل عمل میں آتی رہی ہے۔ لیکن اب آپسی اختلافات، عدم اعتمادی کی وجہ سے انتخابات منعقد کرنے کی نوبت آرہی ہے۔ بنگلورو میں موجود ایک ہزار سے زائد مساجد میں تقریباً 800 مساجد کرناٹک ریاستی وقف بورڈ کے تحت رجسٹرڈ ہیں۔ پوری ریاست میں دس ہزار سے زائد مساجد وقف بورڈ میں رجسٹرڈہیں۔
کرناٹک ریاستی وقف بورڈ کے خصوصی افسر مجیب اللہ ظفاری کہتے ہیں کہ وقف ایکٹ میں وقف اداروں کے لیے کہیں بھی الیکشن کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ وقف اداروں میں مسجد، درگاہ، خانقاہ، عاشور خانہ شامل ہیں۔ وقف ایکٹ میں صرف وقف بورڈ کے لیے انتخابات کا تذکرہ ہے۔ لیکن وقف ادارے اپنے بائی لاز میں کمیٹی کی تشکیل کے لیے انتخابات کی گنجائش پیدا کررہے ہیں۔
مسجد کمیٹی کی تشکیل نو کا طریقہ
کرناٹک ریاستی وقف بورڈ کی ہدایت کے مطابق کسی بھی مسجد کمیٹی کی میعاد تین سال تک ہونی چاہیے ۔ جب یہ میعاد جب تکمیل کو پہنچنے لگے تو نئی کمیٹی کی تشکیل کے لیے تیاری شروع کی جانی چاہیے۔ یعنی میعاد کے ختم ہونے سے تین ماہ قبل موجودہ کمیٹی کو جنرل باڈی اجلاس طلب کرتے ہوئے مسجد کے حدود میں رہنے والے لوگوں کی رائے طلب کرنا ہوگا۔ میعاد کے آخری تین جمعہ کے دوران کمیٹی کی تشکیل نو کا اعلان کردینا چاہیے، اس کے بعد مسجد کی خدمت کے خواہش مند احباب اپنے نام پیش کریں۔ پہلے اور دوسرے جمعہ میں اعلان اور امیدواروں کے نام سامنے آنے کے بعد تیسرے جمعہ میں وقف بورڈ کے افسر کی موجودگی میں جنرل باڈی اجلاس منعقد ہوتا ہے جس میں اتفاق رائے سے حتمی فیصلہ لیا جاتا ہے۔ نئی میعاد کے لیے صدر، نائب صدر، سکریٹری اور ممبرز طئے کرنے پڑتے ہیں۔ جنرل باڈی اجلاس میں نئی میعاد کے لیے اتفاق رائے سے ارکان کا انتخاب ہونا چاہیے ۔ اگر اتفاق رائے قائم نہ ہوا، تو وقف بورڈ کا افسر حالات کا جائزہ لینے کے بعد انتخابات کروانے کی سفارش کرسکتا ہے۔
کرناٹک وقف بورڈ کے خصوصی افسر مجیب اللہ ظفاری کہتے ہیں انتخابات کی سفارش جب وقف بورڈ کے سامنے آتی ہے تو بورڈ اس پر غور وخوض کرتا ہے۔ اگر موجودہ کمیٹی کی میعاد مکمل ہو چکی ہے تو بورڈ کی جانب سے ایک کیئر ٹیکر افسر کی تقرری عمل میں لائی جاتی ہے، مسجد کے انتظامات کے ساٹھ بینک اکاؤنٹ بھی اس نگراں کار افسر کے تحت آجاتا ہے۔ اس کے بعد مسجد کمیٹی کے لیے انتخابات منعقد کرنے کا عمل شروع ہوتا ہے۔ مسجد کے حدود میں رہنے والے 18 سال سے زائد عمر کے مسلمان مرد حضرات کو ووٹروں کی فہرست میں اپنے نام اندراج کروانے کے لیے ایک اعلان جاری کیا جاتا ہے ۔ ووٹر لسٹ کے شائع ہونے کے بعد لسٹ میںموجود ہر فرد کو ووٹر آئی ڈی کارڈ دیا جاتا ہے۔ کل گیارہ عہدوں کے لیے ایک ساتھ انتخابات منعقد کیے جاتے ہیں۔ امیدواروں کو نمبر اور نشان مختص کیے جاتے ہیں۔ پولنگ کے دن ہی ووٹوں کی گنتی اور نتائج کا اعلان کیا جاتا ہے۔ اس طرح تقریباً 2 ماہ کے وقفے کے دوران انتخابات کا یہ عمل مکمل کرلیا جاتا ہے۔ ایک الیکشن منعقد کرنے کے لیے 10 ہزار سے 50 ہزار روپے تک خرچ ہوتے ہیں جو مسجد کمیٹی کے فنڈ سے ادا کیے جاتے ہیں۔ اس طرح اتفاق رائے قائم نہ ہونے کی صورت میں اگر انتخابات ناگزیر ہوجائیں تو وقف بورڈ مسجد کمیٹی کے فریقین کے مطالبہ اور وقف آفیسر کی سفارش کے بعد انتخابات کی تیاری کرتا ہے۔
اس طرز پر حال ہی میں بنگلورو کے شیواجی نگر کی پنشن محلہ مسجد، یارب نگر کی مسجد قبا اور السور کی جامع مسجد کے انتخابات ہوئے ہیں۔ ان مسجدوں کی کمیٹیوں کے الیکشن کا چرچا تقریبا پورے شہر میں ہوا ۔ الیکشن سے قبل اور جیت حاصل کرنے کے بعد سوشل میڈیا میں امیدوار اپنی اپنی تشہیر کرتے ہوئے دکھائی دیے۔ انتخابات میں جیت حاصل کرنے والے گروپ نے اپنی جیت کا خوب جشن منایا ہے۔ تین مسجدوں کی کمیٹیوں کے الیکشن کے دن پولیس کا سخت بندوبست بھی دیکھنے کو ملا ۔ نتائج کے بعد بھیڑ پر قابو پانے کے لیے پولیس کو تگ و دو کرنی پڑی۔
بنگلورو کے السور علاقے کی جامع مسجد کے لیے پچاس سال میں پہلی مرتبہ الیکشن ہوا۔ الیکشن میں حصہ لینے والے ایک امیدوار محمد یوسف نے کہا کہ اب تک اس مسجد کے لیے اتفاق رائے سے کمیٹی کی تشکیل عمل میں آتی رہی ہے لیکن اس مرتبہ مسجد کمیٹی کے عہدوں کے لیے کئی امیدوار آگے آنے کے سبب الیکشن ہورہا ہے۔
بات صرف ان تین مسجدوں تک محدود نہیں ہے بنگلورو کا ایک اہم ملی ادارہ جمعہ مسجد ٹرسٹ بورڈ ان دنوں شدید اختلافات سے دوچار ہے۔ حالانکہ جمعہ مسجد ٹرسٹ بورڈ وقف بورڈ کے تحت نہیں آتا، لیکن اس ادارے میں اختلافات اور بدعنوانی کے الزامات سے مسلمانوں کا سر شرم سے جھک گیا ہے۔ جمعہ مسجد ٹرسٹ بورڈ کے تحت تین مساجد اور شہر کا مرکزی عیدگاہ اور قبرستان موجود ہیں، اس ادارے کے ٹرسٹی ایک دوسرے پر الزام عائد کرتے ہوئے پولیس اسٹیشن اور عدالت تک جا پہنچے ہیں۔ ٹرسٹیوں نے ایک دوسرے کے خلاف الزامات عائد کرتے ہوئے پریس کانفرنس بھی کی ہیں۔
کرناٹک حکومت کے ریٹائرڈ ڈپٹی سکریٹری محمد رحمت اللہ کہتے ہیں کہ مسجد میں سیاست کا داخل ہونا افسوس ناک ہے۔ مسجد کمیٹیوں میں داخل ہوکر شہرت پانے کی خواہش، کہیں نہ کہیں سیاسی پارٹیوں اور سیاسی لیڈروں سے قریب ہونے کی کوشش، مسجد کی آمدنی اور حساب کتاب میں شفافیت کا نہ برتنا، یہاں تک کہ مسجد کی آمدنی میں ہیرا پھیری کی حرکت کی وجہ سے انتخابات کی نوبت پیدا ہورہی ہے۔ حالانکہ خلوص اور نیک نیتی کے ساتھ خدمت کرنے والے بھی لوگ موجود ہیں۔ محمد رحمت اللہ کہتے ہیں کہ ایک وقت تھا جب علاقے کے لوگ ہی کسی شخص کے خلوص، سمجھداری اور خدمت کے جذبے کو دیکھ کر اس پر بھروسہ کرتے ہوئے، مسجد کے انتظامات کی ذمہ داری سونپ دیا کرتے تھے اور ایسے افراد اللہ کو راضی کرنے کے لیے خاموش طریقہ سے اپنے فرائض انجام دیتے لیکن اب مسجد کمیٹی کا چیرمین بننا یاممبر بننا خدمت سے کہیں زیادہ نام و نمود حاصل کرنے، یا اثر و رسوخ قائم کرنے کا ذریعہ سمجھا جارہا ہے۔ اس لیے بڑی تعداد میں لوگ اپنے اپنے علاقے کی مسجد کمیٹی میں گھسنے کی کوشش کررہے ہیں۔ محمد رحمت اللہ کہتے ہیں کہ اگر خوف خدا اور خدمت کا جذبہ صحیح معنوں میں موجود ہو تو اتحاد و اتفاق خود بخود قائم ہوگا، الیکشن کی ضرورت ہی پیدا نہیں ہوگی اور مساجد الیکشن کی سیاست سے ہمیشہ دور رہیں گی۔
وقف بورڈ کے افسر مجیب اللہ ظفاری کہتے ہیں کہ اگر تمام وقف ادارے الیکشن کا مطالبہ کرتے رہیں تو وہ دن دور نہیں کہ وقف بورڈ بھی ایک دن الیکشن کمیشن کہلایا جانے لگےگا۔ جبکہ وقف بورڈ کا عین مقصد وقف جائیدادوں کی حفاظت اور ترقی ہے۔
بہرحال مساجد کمیٹیوں کی تشکیل کے لیے اتفاق رائے اور سمجھوتہ کے بجائے الیکشن کا طریقہ اور اس الیکشن کی آڑ میں سیاست اور خدمت کے نام پر شہرت حاصل کرنے کا رجحان اللہ پاک کے گھر کے تقدس کو خطرہ میں نہ ڈالے، اس لیے اس حساس مسئلہ پر پوری ملت کو سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔
( مضمون نگار الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ معروف صحافی ہیں)
***

 

***

 کرناٹک ریاستی وقف بورڈ کی ہدایت کے مطابق کسی بھی مسجد کمیٹی کی میعادتین سال تک ہونی چاہیے ۔ جب یہ میعادجب تکمیل کو پہنچنے لگے تو نئی کمیٹی کی تشکیل کے لیے تیاری شروع کی جانی چاہیے۔ یعنی میعادکے ختم ہونے سے تین ماہ قبل موجودہ کمیٹی کو جنرل باڈی اجلاس طلب کرتے ہوئے مسجد کے حدود میں رہنے والے لوگوں کی رائے طلب کرنا ہوگا۔ میعادکے آخری تین جمعہ کے دوران کمیٹی کی تشکیل نو کا اعلان کردینا چاہیے، اس کے بعد مسجد کی خدمت کے خواہش مند احباب اپنے نام پیش کریں۔ پہلے اور دوسرے جمعہ میں اعلان اور امیدواروں کے نام سامنے آنے کے بعد تیسرے جمعہ میں وقف بورڈ کے افسر کی موجودگی میں جنرل باڈی اجلاس منعقد ہوتا ہے جس میں اتفاق رائے سے حتمی فیصلہ لیا جاتا ہے۔ نئی میعادکے لیے صدر، نائب صدر، سکریٹری اور ممبرز طئے کرنے پڑتے ہیں۔ جنرل باڈی اجلاس میں نئی میعادکے لیے اتفاق رائے سے ارکان کا انتخاب ہونا چاہیے ۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 24 تا 30 اکتوبر 2021