بزرگوں اور بچوں کی صورتحال

محمد انور حسین

 

لاک ڈاون کے درمیان ملک کی نامور صحافی برکھا دتّ نے ایک بوڑھی خاتون کا انٹرویو نشر کیا تھا جو بہت وائرل ہوا ۔اس میں ایک بوڑھی عورت ممبی کے باندرا اسٹیشن پر اکیلی بیٹھی اپنی داستان سنا رہی تھی کہ کس طرح اس کے بیٹے نے اسے مارپیٹ کر گھر سے نکال دیا تھا ۔داستان درد بھری تھی، جس نے برکھا دت ہی نہیں، ہر ایک دیکھنے والے کی آنکھوں میں آنسو بھر د یے تھے۔
دوسری طرف ایک اور تصویر ہے جو ٹائمز آف انڈیا 16 ستمبر 2020 کی ہے جس کی سرخی اس طرح ہے کہ”A student commits suicide every hour” یہ دونوں تصویریں انتہائی درد ناک ہیں ۔ایک تصویر خاندان میں بزرگوں کی حالت زار کی داستان سنارہی ہے تو دوسری تصویر بچوں کو خاندان میں ملنے والے غیر موافق اور غیر صحتمند ماحول کی ۔
اس طرح کے کئی انٹرویوز ،اخباری رپورٹس اور مختلف خبریں واضح کرتی ہیں کہ ملک میں بزرگوں کی اور بچوں کی حالت اطمینان بخش نہیں ہے ۔
خاندان کی بنیاد بزرگ اور بچے
سماج کی بنیادی اکائی خاندان ہے ۔خاندان کی مضبوطی و استحکام ہی سماج میں استحکام پیدا کر سکتا ہے ۔بھارت کی قدیم روایت مشترکہ خاندان کی رہی ہیں ۔صنعتی ترقی اور شہروں کی ترقی کے عمل کے نتیجہ میں انفرادی خاندانی نظام کی روایتیں پروان چڑھنے لگیں۔ مشترکہ خاندان سے انفرادی خاندان کے اس سفر میں جو بے اعتدالیاں پیدا ہوئیں ہیں اس کا سب سے زیادہ خمیازہ بوڑھوں اور بچوں کو بھگتنا پڑرہا ہے ۔یہ خیال عام ہے کہ بچوں کی تعلیم وتربیت کے لیے مشترکہ خاندان کے مقابلے میںانفرادی خاندان زیادہ موزوں ہے، جبکہ بزرگوں کے متعلق کہا جاتا ہے کہ مشترکہ خاندان ان کے لیے نسبتاً بہتر ہے لیکن صورتحال اتنی دگر گوں ہے کہ ہمارے بزرگ اور بچے دونوں جگہ اپنی شناخت تلاش کر رہے ہیں ۔
بزرگوں کی حالت
بزرگوں کی حالت کی بات کریں تو بہت سے بزرگ آج اولڈ ایج ہوم میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں تو بہت سے بزرگ اپنے گھر ہی میں تنہائی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی ایک کثیر تعداد ایسی ہے جن کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ بزرگوں کے ساتھ خاندانوں میں بدکلامی،بے عزتی اور بے توجہی عام بات ہے۔ بعض جگہ تو بزرگوں کو مناسب غذا اور علاج و دوائیں بھی میسر نہیں ہیں۔ بہت سے بزرگوں کو گھر کے سارے کام کرنے پڑتے ہیں جو ان کے لیے کرنا مشکل ہوتا ہے ۔بعض جگہ بزرگوں کو اپنی اولاد کی طرف سے مارپیٹ بھی جھیلنی پڑتی ہے ۔بچوں کو بزرگوں کے ساتھ میل جول کرنے نہیں دیا جاتا۔غرض وہ بزرگ جو اپنے خاندان کی بنیاد تھے اپنے ہی گھر میں اپنی حیثیت اور اپنے وجود کو تلاش کر رہے ہیں ۔اس کے علاوہ ملک میں بزرگوں کی بڑھتی تعداد مزید تشویش میں اضافہ کر رہی ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں بزرگوں کی تعدادتیزی سے بڑھ رہی ہے۔ 2011ء کے مقابلے 2021ء میں کیرلا میں 12.6سے بڑھ کر 19.6ہوگئی۔ دوسرے نمبر پر ہماچل پردیش ہے جہاں یہ تناسب 10.2سے بڑھ کر 16.5ہوگیا۔
بچوں کی حالت
دوسری طرف بچوں کی حالت بھی اطمینان بخش نہیں ہے۔ بچوں کی ایک بڑی تعداد نقص تغذیہ کا شکار ہے،توکچھ تعلیم و تربیت سے محروم ہیں۔ بھارت میں آج بھی چار میں سے ایک بچہ اسکول سے محروم ہے۔ روزانہ تقریبا 150 بچے اغوا کرلیے جاتے ہیں۔ بچوں کے ساتھ جرائم میں پچھلے دس سالوں میں پانچ گنا اضافہ ہو اہے ۔امیر اور تعلیم یافتہ گھرانوں کے بچے کیریر پلاننگ کے دباؤ میں ہیں جو بعض اوقات خودکشی کی طرف بھی راغب ہوجاتےہیں ۔بچوں میں نفسیاتی بیماریاں تیزی کے ساتھ پھیل رہی ہیں۔بچوں میں عدم برداشت ،غصہ ،نفرت ،حسد جیسے جذبات تیزی سے پروان چڑھ رہے ہیں ۔
بے اعتدالی کی وجوہات
خاندانوں میں بچوں اور بزرگوں کے ساتھ بے اعتدالی کی وجوہات پر غور کریں تو سب سے بڑی وجہ مادہ پرستی ہے ۔موجودہ دور میں انسان مادہ کا اتنا عاشق ہوچکا ہے کہ اسے انسانی روح وجسم کی کوئی پرواہ نہیں ہے ۔انسان بچوں کو تعلیم اس لیے دلوارہا ہے کہ اس سے مال کا حصول آسان ہوجائے اور بزرگوں سے بے اعتنائی اس لیے برتی جارہی ہے کہ وہ اب ایک بے مصرف شئے محسوس ہورہی ہےاور خود بھی دولت کے حصول میں اتنا سرگرداں ہے کہ اسے نہ اپنی صحت کی فکر ہے نہ مقصد زندگی کی ۔بس ایک دوڑ ہے جو دوڑی جا رہا ہے ۔
دوسری اہم وجہ خاندانوں میں بے اعتدالی کی یہ ہے کہ انسان نے اپنی خواہشات کو اپنے خواب بنالیا ہے ۔اس کہ یہ خواہشات اس کے نفس کی اپچ ہے۔ دولت کمانے کی خواہش، عیش و عشرت کی خواہش ،آرام دہ مکانوں اور موٹر گاڑیوں کی خواہش، سماج میں اپنے آپ کو اعلی درجہ میں رکھنے کی خواہش، جنسی تلذذکی خواہش وغیرہ وغیرہ۔ پھر ان خواہشات کی تکمیل کے سلسلے میں بچوں اور بزرگوں کے ساتھ اس کے دو مختلف رویے ہیں ۔بچوں کو تعلیم دینے کا مقصد خواہشات کا حصول ہے ۔وہ بچوں پر خرچ کیے جانے والے مال کو انوسٹمنٹ سمجھتاہے اور امید کرتا ہے کہ وہ پروفٹ میں تبدیل ہوجاے گا۔ اس کا دباؤ والدین اور بچے دونوں پر ہوتا ہے ۔کتنی عجیب خود غرضی ہے کہ وہ اپنی خواہشات اورآزادی کو تو برقرار رکھنا چاہتا ہے لیکن بچوں کی آزادی اور خواہشات کا ذرا خیال نہیں ہے ۔
دوسری طرف بزرگوں کو وہ اپنی خواہشات کی ایک لامحدود فہرست کی تکمیل میں رکاوٹ سمجھنے لگتا ہے۔ وہ بزرگوں کے تجربات کو ایک دیوانہ کی بڑ قرار دیتا ہے ۔ان پر خرچ کیے جانے والے مال کو ڈیڈ انوسٹمنٹ سمجھنے لگتا ہے ۔نتیجتاً دو متضاد اور غیر معتدل رویے ہمارے سامنے آرہے ہیں ۔
تیسری وجہ یوروپ سے درآمد کردہ تہذیب و ثقافت، طرزِ فکر و عمل ہے۔آزادی، مساوات اور خواہشات کے نام پر ایسے نظریات عام کیے گئے جنھوں نے انسان کو حرص، لالچ، لوٹ، استحصال اور جنسی حیوان کے علاوہ کچھ نہیں بنایا۔ ان ہی نظریات کے اثرات نے خاندانی زندگی سے پیا ر،محبت ،ایثار و قربانی جیسے جذبات کو یکسر ختم کردیا ۔جس کے اثرات بچوں میں لالچ ،جنسی ہیجان ،قتل و غارت گری ،جرائم کی طرف رغبت اور بے مقصد زندگی کی صورت میں سامنے آنے لگے ہیں ۔
چوتھی وجہ بے مقصد زندگی ہے۔ زندگی کا مقصد متعین ہوتو انسانی زندگی اسی نہج پر تعمیر ہوتی ہے اور اگر مقصد واضح نہ ہو تو زندگی بھوکے جانور جیسی ہوجاتی ہے ۔انسانوں کی ایک بڑی تعداد ایک جانور کی طرح زندگی گزاررہی ہے جس کا ہدف کھانا ،سونا اور خواہشات کی تکمیل کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔اس طرز زندگی کے نتیجہ میں خاندان میں بزرگ اور بچے دونوں متاثر ہوگئے۔ماں باپ کی بے مقصد زندگی نے بچوں کو بےمقصد زندگی سے وابستہ کردیا۔اس بے مقصدیت نے لوگوں کو اسلامی تعلیمات سے بہت دور کردیا اور اسلامی تہذیب و ثقافت کا شعور معدوم ہوتا گیا۔اسلامی تہذیب کی بنیاد یہ ہے کہ تم مومن نہیں ہوسکتے جب تک تم بڑوں کی عزت اور چھوٹوں سے شفقت نہ کرنے لگو ۔
ایک امید
مغرب کے تمام نظریات اور ان کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی اقدار کا نتیجہ یہ ہوا کہ مغرب کا خاندانی نظام پارہ پارہ ہوگیا ۔اللہ کا شکر ہے کہ مسلمانوں نے اپنے خاندانی ادارہ کو ابھی تک سنبھال رکھا ہے ۔آج بھی مسلمانوں کے پاس شادی ایک مقدس ادارہ ہے۔ خدانخواستہ یہ ادارہ بھی اگر ہماری دسترس سے باہر ہوجاے تو ہمارہ وجود ہی مٹ جاے گا ۔اللہ کا شکر ہے کہ اولڈ ایج ہوم میں رہنے والے بزرگوں میں مسلمانوں کی تعداد بہت کم ہے۔ البتہ بزرگوں کے ساتھ عزت وتکریم میں کمی آئی ہے۔ ہمارے خاندانوں میں بہو اور ساس یہ دو الفاظ متضاد الفاظ مانے جاتے ہیں ۔اسلامی فقہ کے ماہرین کے فتوؤں کے سہارے یہ بات آسانی سے کہی اور برتی جاتی ہے کہ بہو کی ذمہ داری ساس سسر کی دیکھ بھال نہیں ہے، لیکن ایک گھر میں رہتے ہوئے نقطہ اعتدال کیا ہوسکتا ہے اس کا جواب فقہا کے پاس کم اور سماجی مصلحین کے پاس زیادہ مل سکتا ہے ۔ فقہی گنجائشیں تو نزاع کو سلجھانے کے لیے ہوتی ہیں ۔نزاع پیدا ہی نہ ہو اس کے لیے محبت ،ایثار اور قربانی کی ضرورت ہوتی ہے ۔مسلمانوں کے خاندان محبت ،ایثار اور قربانی کی بنیاد پر بزرگوں کو عزت وتکریم کا مقام دینے میں کامیاب ہوجائیں تو گھریلو تشدد ،طلاق اور بچوں کی نامناسب تربیت جیسے مسائل پر آسانی سے قابو پایا جاسکتا ہے ۔
بچوں اور بزرگوں سے متعلق اسلام کی تعلیمات پر غور کریں تو یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ اسلام جس طرز زندگی کی وکالت کرتا ہے وہ اخلاق اور تہذیب کی معراج ہے۔
بچوں اور بزرگوں سے متعلق اسلام
قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے بوڑھے ماں باپ کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے کہ
’’تیرے رب نے فیصلہ کر دیا ہےکہ:تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو گے ، مگر صرف اس کی ۔ والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو۔ اگر تمہارے پاس ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بوڑھے ہو کر رہیں تو انہیں اُف تک نہ کہو ، نہ انہیں جھڑک کر جواب دو، بلکہ ان سے احترام کے ساتھ بات کرو اور نرمی و رحم کے ساتھ ان کے سامنے جھک کر رہو، اور دعا کیا کرو کہ پروردگار ، ان پر رحم فرما جس طرح انہوں نے رحمت و شفقت کے ساتھ مجھے بچپن میں پالا تھا۔‘‘ ( 17:23،24)
دیکھیے کس درجہ احترام ،عاجزی اور انکساری کی تہذیب سکھائی جارہی ہے کیا اس حکم کے بعد بھی بزرگوں کے ساتھ ناروا رویہ کی ہمت کی جاسکتی ہے؟ چاہے وہ خاندان میں شوہر کے ماں باپ ہوں یا بیوی کے ماں باپ یا کوئی بھی بزرگ۔ایک اور جگہ اللہ رب العزت ارشاد فرمارہے ہیں کہ
’’اور حقیقت یہ ہے کہ ہم نے انسان کو اپنے والدین کا حق پہچاننے کی خود تاکید کی ہے۔ اس کی ماں نے ضعف پر ضعف اٹھا کر اسے اپنے پیٹ میں رکھا اور دو سال اس کا دودھ چھوٹنے میں لگے ۔ (اسی لیے ہم نے اس کو نصیحت کی کہ ) میرا شکر کر اور اپنے والدین کا شکر بجا لا، میری ہی طرف تجھے پلٹنا ہے۔‘‘ (31: 14)
یہاں قران اس فلسفہ کی جڑ کاٹ رہا ہے جو یہ کہتا ہے کہ بوڑھے اور ضعیف ماں باپ بوجھ ہیں بلکہ یہ کہہ رہا ہے کہ یہ لوگ تو باعث شکر و رحمت ہیں۔
نبی رحمت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’وہ ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی عزت نہ کرے۔‘‘ (جامع ترمذی)
یہاں تو ایمان کی بنیاد ہی بزرگوں اور بچوں سے شفقت پر استوار کی گئی ہے کیا یہ ایک حکم ہی پورے معاشرے میں محبت اور شفقت کے فروغ کے لیے کافی نہیں ہے ؟
حضرت ابو موسیٰؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :’’بوڑھے مسلمان کی تعظیم کرنا اللہ تعالیٰ کی تعظیم کا حصہ ہے، اور اسی طرح قرآن مجید کے عالم کی جو اس میں تجاوز نہ کرتا ہو اور اس بادشاہ کی تعظیم جو انصاف کرتا ہو۔‘‘(سنن ابوداؤد)
حضرت انسؓروایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا :’’بے شک میری اُمت کے معمر افراد کی عزت و تکریم میری بزرگی و عظمت سے ہے۔‘‘( کنز العمال)
حضور اکرم ﷺ نے فرمایا :’’جو جوان کسی بوڑھے کی عمر رسیدگی کے باعث اس کی عزت کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس جوان کے لیے کسی کو مقرر فرما دیتا ہے جو اس کے بڑھاپے میں اس کی عزت کرے۔‘‘ (جامع ترمذی)
کتنی خوبصور ت بات اور کتنے بہترین انعام کا وعدہ کیا جارہا ہے ۔مغربی نظریات کے سحر سے نکل کر کوئی انسان اس پر عمل کرلے تو کامیابی اس کا مقدر بن سکتی ہے ۔
اسی طرح بچوں سے متلعق ماں باپ اور خاندان کی ذمہ داریوں کی وضاحت کی جارہی چنانچہ قران مجید کا ارشاد ہے کہ’’اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں۔‘‘(تحریم )
ماں باپ پر سب سے بڑی ذمہ داری جو ڈالی جارہی ہے وہ ہے اولاد کی تربیت، وہ بھی اس طرح کہ وہ دوزخ کی آگ سے بچ جائیں ۔بچوں کی تربیت اور ان سے سلوک سے متعلق اتنا واضح وژن دنیا کے کسی نظریہ کے بس کی بات نہیں ہے ۔
ادب وہ نعمت ہے جو انسان کو اشرف بناتی ہے اور والدین کا اپنی اولاد کو سب سے بڑا انعام ادب سکھانا ہے۔
آپﷺ کا ارشادہے کہ ’’کوئی باپ اپنی اولاد کو اس سے بہتر عطیہ نہیں دے سکتا کہ اس کو اچھے آداب سکھادے۔‘‘(بخاری)
حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے:’’اپنی اولاد کوادب سکھلاؤ، قیامت والے دن تم سے تمہاری اولاد کے بارے میں پوچھا جائے گاکہ تم نے اسے کیا ادب سکھلایا؟ اور کس علم کی تعلیم دی؟‘‘ (شعب الایمان للبیہقی)
اشوز کا حل
دنیا کا کوئی بھی مسئلہ ہو اس کا حل اگر الٰہی ہدایات کی روشنی میں ڈھونڈا جاے تو کامیابی ضرور ملے گی ۔خالق انسان ہی بہتر بتا سکتا ہے کہ انسان کی عزت وتکریم کے معیارات اور بلندیاں کیا ہیں۔
محبت ،قربانی ،ایثار ،عزت ،تکریم، عاجزی،عفو و درگزر ،صبر و تحمل کی اسلامی روایات ہی خاندان میں بزرگوں اور بچوں کو ان کا حقیقی مقام دلاسکتی ہیں۔ ہمارے خاندانوں میں اسلامی مقصد زندگی اس کی تہذیب اور طرز زندگی کی ایسی فراوانی ہو کہ بچے، جوان اور بوڑھے سب محبت کا پیکر ہوجائے اور ہم میں سے ہر ایک یہ کہنے لگے جیسے حنا تیموری نے کہا :
ہم سے آداب جینے کہ سیکھو
ہم بزرگوں میں بیٹھے بہت ہیں
ll

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 14 فروری تا 20 فروری 2021