بابری مسجدکے ملزمین کیوں بری ہوئے؟

بعض کو اقبالِ جرم کے باوجود سزا نہیں

معصوم مرادآبادی

 

علامہ بابری مسجد انہدام سازش کیس میں سی بی آئی عدالت کے فیصلے نے ان تمام لوگوں کو مایوس کیا ہے جو اس ملک میں انصاف اور قانون کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں۔بابری مسجد کی شہادت کے 28سال بعد ان تمام ملزمان کو باعزت بری کر دیا گیا ہے‘ جنہوں نے دن کے اجالے میں صدی کے سب سے گھناؤنے جرم کا ارتکاب کیا تھا۔ 6؍ دسمبر 1992کو جب بابری مسجد شہید کی گئی تو اس آخری درجے کے ظلم وبربریت کو پوری دنیا نے کھلی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ بابری مسجد کے گنبدوں پر چڑھنے والے دہشت گردوں کے چہرے اور ان کی تمام حرکتیں ہی کیمروں میں قید نہیں ہوئی تھیں بلکہ ان سیاست دانوں کو جشن مناتے ہوئے بھی دیکھا گیا تھا، جنہوں نے اس تباہی و بربادی کا پس منظر تیار کیا تھا۔ اس شرمناک واقعہ کے کلیدی کردار لال کرشن اڈوانی اپنے پورے لاؤ لشکر کے ساتھ وہاں موجود تھے اور وہ ان نام نہاد کارسیوکوں کا حوصلہ بڑھا رہے تھے جنہوں نے بابری مسجد کی پانچ سو سالہ قدیم تاریخی عمارت کو زمیں بوس کیا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس معاملے میں سی بی آئی نے عدالت کے روبرو جو ثبوت پیش کیے‘ ان سے یہ تو ثابت ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے کارسیوکوں کو اکسانے کا کوئی کام نہیں کیا اور ملزمان انہیں روکنے اور وہاں امن قائم کرنے کی اپیلیں کر رہے تھے۔ لیکن سی بی آئی نے ایسا ایک بھی ثبوت پیش نہیں کیا جو بابری مسجد کے انہدام میں ان ملزمان کے اصل کردار کو اجاگر کرتا ہو۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ عدالت نے ان تمام ملزمان کو مجرمانہ سازش کے الزامات سے ہی بری نہیں کیا ہے بلکہ انہیں ’امن کا مسیحا ‘ بھی قرار دیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ مستقبل میں کوئی اڈوانی اینڈ کمپنی کو اس معاملے میں امن کا نوبل انعام دینے کی بھی سفارش کر دے۔ کیونکہ ایودھیا تنازعہ کی وجہ سے ملک میں ’امن وآشتی‘ کا جو دور دورہ شروع ہوا تھا اس کے نتیجے میں آج ملک میں قومی یکجہتی کے ایسے گیت گائے جا رہے ہیں کہ یہاں اقلیتوں کا جینا حرام ہو گیا ہے۔
سی بی آئی عدالت کے خصوصی جج سریندر کمار یادو نے اپنی سبکدوشی سے ایک روز قبل فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ بابری مسجد مسماری کا واقعہ منصوبہ بند نہیں تھا بلکہ یہ ایک اچانک رونما ہو جانے والا واقعہ تھا اور اس کو ’نا معلوم‘ شر پسندوں نے انجام دیا۔ 350سے زیادہ گواہوں اور 600دستاویزی ثبوتوں کا مطالعہ کرنے کے بعد عدالت نے 2800صفحات کے فیصلے میں واضح کیا ہے کہ ملزمان کے خلاف پیش کیے گئے ثبوت ناکافی ہیں اس لیے سبھی 32ملزمان کو بری کیا جاتا ہے۔ سی بی آئی نے جب یہ مقدمہ قائم کیا تھا تو اس وقت ملزمان کی تعداد 49تھی لیکن ان میں سے 17کی موت ہو چکی ہے اور 32ہی زندہ ہیں۔ جب تک اس معاملے کو ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جائے گا اور اس کا حتمی فیصلہ صادر ہوگا تو اس وقت تک باقی 32ملزمان بھی پرلوک سدھار چکے ہوں گے اور اس طرح بابری مسجد کی شہادت کے معاملے میں کسی کو کوئی سزا نہیں ملے گی سوائے اس ایک دن کی علامتی سزا کے جو سپریم کورٹ نے کلیان سنگھ کو بطور وزیر اعلیٰ اپنے حلف نامے کی پامالی کے سلسلے میں دی تھی۔
سی بی آئی عدالت کی طرف سے بری کیے گئے کلیدی ملزمان لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی، کلیان سنگھ اور اوما بھارتی وغیرہ نے اس فیصلے پر راحت کی سانس لیتے ہوئے ایک بار پھر ’’جے شری رام‘‘ کا وہی نعرہ فضا میں اچھالا جو رام مندر کے خونی آندولن کے دوران وہ اور ان کی قبیل کے دیگر لوگ اچھالا کرتے تھے۔ اس سے قبل یہ کہا جا رہا تھا کہ اگر ان لیڈروں کو تین سال سے زیادہ کی سزا ہوئی تو انہیں جیل جانا پڑے گا۔ لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان میں سے بعض ملزمان کے اقبالِ جرم کے باوجود کسی کو سزا نہیں ملی۔ اوما بھارتی جیسے کچھ ملزمان نے تو لبراہن کمیشن کے سامنے ڈنکے کی چوٹ پر بابری مسجد انہدام میں شامل ہونے کا اعتراف کیا تھا۔ لیکن سی بی آئی، خصوصی عدالت میں ان میں سے کسی بھی لیڈر کے خلاف ایسا کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکی جس کی بنیاد پر اسے معمولی سزا بھی ملتی۔ اس فیصلے کا سب سے اہم پہلو وہ ہے جس میں عدالت نے ملک کی سب سے بڑی جانچ ایجنسی پر فرضی ثبوت پیش کرنے کا الزام لگایا ہے۔ عدالت نے کہا کہ پیش کی گئی تصویریں، ویڈیوز اور فوٹو کاپیاں ثبوتوں کے طور پر قابل قبول نہیں ہیں۔ ظاہر ہے کہ بدترین تباہی اور بربادی کے ایک اتنے بڑے مقدمے میں سی بی آئی نے جو بچکانہ شواہد پیش کیے وہ سب کے سب تاش کے پتوں کی طرح عدالت میں بکھر گئے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس معاملے میں سی بی آئی کی منشا شروع سے ہی ان ملزمان کو سزا دلوانے کی نہیں تھی بلکہ وہ اپنے سیاسی آقاؤں کے اشارے پر انہیں بچانے کے لیے ہر وہ ثبوت مٹارہی تھی جو مقدمہ میں کارگر ثابت ہو سکتا تھا۔
گزشتہ سال نومبر میں جب سپریم کورٹ نے بابری مسجد کی ملکیت کا فیصلہ رام مندر کے حق میں سنایا تھا تو اس میں نہ صرف یہ کہ بابری مسجد میں مورتیاں رکھے جانے کو غلط بتایا گیا تھا بلکہ بابری مسجد انہدام کو بھی غیر قانونی سرگرمی سے تعبیر کیا گیا تھا۔ عدالت کے اس رخ کو دیکھ کر اندازہ تھا کہ کم ازکم اس معاملہ میں مسلمانوں کے آنسو ضرور پونچھے جائیں گے اور جن لوگوں نے دن کے اجالے میں تاریخ کے اتنے گھناؤنے جرم کا ارتکاب کیا تھا، انہیں قرار واقعی سزا ملے گی۔ مگر بابری مسجد کے دیگر مقدموں کی طرح اس کیس میں بھی مسلمانوں کے ہاتھ مایوسی کے سوا کچھ نہیں آیا۔ اگر آپ بابری مسجد تنازعہ کی تاریخ پر سرسری نگاہ ڈالیں تو پائیں گے کہ یہ دراصل ظلم وبربریت اور نا انصافی کی ایک ایسی تاریخ ہے جس نے ہندوستان میں عدل وانصاف اور جمہوریت پر ایک سنگین سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے۔ ابتدا سے ہی اس معاملے میں جمہوریت کے چاروں ستون بدترین جانبداری کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں۔ 22 دسمبر 1949کی شب جب بابری مسجد میں بزور و زبردستی مورتیاں رکھی گئیں تو مرکزی قیادت نے فوری طور پر انہیں وہاں سے ہٹانے کی حکم دیا تھا لیکن اس وقت اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ گووند بلبھ پنت نے نظم ونسق کے بگڑنے کا حوالہ دے کر مورتیاں ہٹانے سے انکار کر دیا تھا اور بابری مسجد میں نماز کا سلسلہ منقطع کرکے وہاں قفل ڈال دیا گیا۔ میں نے 1987میں بابری مسجد کی آنکھوں دیکھی رپورٹنگ کے دوران اجودھیا میں موجود بابری مسجد کے آخری امام مولانا عبدالغفار کا انٹرویو بھی لیا تھا جس میں انہوں نے بتایا تھا کہ 22 دسمبر 1949کی رات کو انہوں نے آخری مرتبہ وہاں عشا کی نماز پڑھائی تھی۔
حکومت اگر چاہتی تو اسی وقت مسجد کا تقدس بحال کرسکتی تھی لیکن اس نے وہاں قفل ڈال کر مسجد کو قرق کرلیا۔ اس قفل کو کھلوانے کے لیے وشوہندو پریشد نے ایک سیاسی حکمت عملی کے تحت رام جنم بھومی مکتی آندولن شروع کیا اور مسجد میں ڈالے ہوئے قفلوں کی تصویریں ہندوؤں کو دکھا کر کہا کہ رام چندر جی قید میں ہیں انہیں آزاد کرانا بہت ضروری ہے۔ اس تحریک کا رخ ہندو مسلم منافرت کی طرف مُڑنا لازمی تھا چنانچہ یکم فروری 1986کو جب اس تحریک کے دباؤ میں آ کر مسجد کا قفل توڑا گیا تو پورے ملک میں آگ لگ گئی۔ فیض آباد کی جس عدالت نے قفل کھولنے کا حکم دیا تھا اس نے بابری مسجد کے مدعی سے اس معاملے میں رجوع ہی نہیں کیا جو کہ قانونی اور عدالتی نظام کی واضح خلاف ورزی تھی۔ اس معاملے میں صرف فیض آباد کے ایس ایس پی کی رائے لی گئی جس نے سرکار کی منشا کے مطابق نظم ونسق کے خراب نہ ہونے کی جھوٹی ضمانت دی اور اس طرح بابری مسجد میں عام پوجا پاٹ کا سلسلہ بلا روک ٹوک شروع ہو گیا۔ اسی دوران وشو ہندو پریشد نے 9نومبر 1989کو بابری مسجد کے روبرو رام مندر کا شیلا نیاس کا اہتمام پورے تام جھام کے ساتھ کرتے ہوئے یہ بھی اعلان کیا کہ وہ صرف رام مندر کا شیلا نیاس نہیں کر رہے ہیں بلکہ اس ملک کو ہندو راشٹر بنانے کی بنیاد ڈال رہے ہیں۔ شیلا نیاس کا آنکھوں دیکھا حال بھی میں نے اجودھیا سے رپورٹنگ کے دوران قلم بند کیا تھا۔ المیہ یہ ہے کہ شیلا نیاس کرنے کے لیے زمین کانگریس حکومت نے فراہم کی تھی جو اس وقت مرکز اور اتر پردیش دونوں جگہ برسر اقتدار تھی۔ اس کے بعد بی جے پی لیڈر لال کرشن اڈوانی نے 1990میں سومناتھ سے ایودھیا تک کی رتھ یاترا شروع کی۔ اس یاترا کے مقاصد اور نعرے اتنے خطرناک اور منافرانہ تھے کہ ہندو مسلم منافرت اپنی انتہاؤں تک پہنچ گئی اور مسلمان بالکل دیوار سے لگا دیے گئے۔ بابری مسجد کی شہادت کے لیے لوگوں کے ذہنوں میں گولہ بارود اسی رتھ یاترا کے نعروں نے بھرا تھا۔ ایک نعر ہ تھا ’’بچہ بچہ رام کا۔ قربانی کے کا کام کا‘‘۔ ان ہی خطرناک فرقہ وارانہ سرگرمیوں نے بابری مسجد کے خلاف ایسا ماحول تیار کیا کہ اسے 6؍ دسمبر 1992کو حرف غلط کی طرح مٹا دیا گیا۔ جس وقت مسجد شہید ہوئی تو جمہوریت کے چاروں ستون خاموش تماشائی کے روپ میں تھے اور کسی نے بھی اپنی دستوری، اخلاقی اور انسانی ذمہ داری ادا کرنے کی کوشش نہیں کی۔
سی بی آئی نے 28 سال تک جن ملزمان کے خلاف بابری مسجد انہدام سازش کیس میں مقدمہ چلایا تھا وہ سب اپنی پیشی کے دوران تمام الزامات سے مکرتے چلے گئے اور بیشتر نے تو یہ سفید جھوٹ بھی بولا کہ وہ موقعہ واردات پر موجود ہی نہیں تھے۔ جبکہ ان کی وہاں موجودگی کے اتنے ثبوت ہیں کہ انہیں کسی طرح جھٹلایا نہیں جا سکتا۔انہوں نے عدالت میں پوری بے شرمی اور بے غیرتی کے ساتھ کہا کہ وہ قطعی بے قصور ہیں اور انہیں ایک سازش کے تحت اس مقدمہ میں پچھلی سرکار نے انتقام لینے کے لیے پھنسایا تھا۔ مجرمانہ سازش میں گردن تک ڈوبے ہوئے لوگ ہی دوسروں پر سازش رچنے کا الزام لگا کر قانون اور انصاف کا مذاق اڑاتے رہے اور پوری مشینری بے بسی کے ساتھ یہ تماشا دیکھتی رہی۔ یہاں تک کہ گزشتہ 30؍ ستمبر کو سی بی آئی کے خصوصی جج اروند کمار یادو نے تمام 32ملزمان کو باعزت بری کرنے کا فیصلہ سنا دیا۔ سی بی آئی نے ان کے خلاف جو بھی ثبوت فراہم کیے تھے وہ سب عدالت کی نگاہ میں بوگساور فرضی تھے۔ ظاہر ہے کہ عدالت ان ناقص ثبوتوں کی بنیاد پر سزا کا فیصلہ نہیں کرسکتی تھی اور اس نے ایسا ہی کیا۔ یہ سی بی آئی کی خصوصی عدالت کی رولنگ ہے۔ اگر آپ ذرا پیچھے جا کربابری مسجد انہدام سازش کیس کی تحقیقات کرنے والے جسٹس منموہن سنگھ لبراہن کی رپورٹ کا مطالعہ کریں تو پائیں گے کہ انہوں نے ان سبھی ملزمان کو مجرمانہ سازش کا شریک کار بتایا تھا۔ جسٹس منموہن سنگھ لبراہن آج بھی اپنے اس موقف پر قائم ہیں کہ بابری مسجد کا انہدام ایک منصوبہ بند حکمت عملی کا حصہ تھا۔ یہ نامعلوم لوگوں کی کارستانی ہرگز نہیں تھی بلکہ اسے معلوم و مشہور انسانوں نے انجام دیا تھا۔ جسٹس منموہن سنگھ لبراہن نے اپنی منصفانہ تحقیقاتی رپورٹ 2009میں حکومت کو سونپی تھی جو آج بھی سرکاری خزانے میں خاک پھانک رہی ہے۔
[email protected]

350سے زیادہ گواہوں اور 600دستاویزی ثبوتوں کا مطالعہ کرنے کے بعد عدالت نے 2800صفحات کے فیصلے میں واضح کیا ہے کہ ملزمان کے خلاف پیش کیے گئے ثبوت ناکافی ہیں اس لیے سبھی 32ملزمان کو بری کیا جاتا ہے۔ سی بی آئی نے جب یہ مقدمہ قائم کیا تھا تو اس وقت ملزمان کی تعداد 49تھی لیکن ان میں سے 17کی موت ہو چکی ہے اور 32ہی زندہ ہیں۔ جب تک اس معاملے کو ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جائے گا اور اس کا حتمی فیصلہ صادر ہوگا تو اس وقت تک باقی 32ملزمان بھی پرلوک سدھار چکے ہوں گے اور اس طرح بابری مسجد کی شہادت کے معاملے میں کسی کو کوئی سزا نہیں ملے گی سوائے اس ایک دن کی علامتی سزا کے جو سپریم کورٹ نے کلیان سنگھ کو بطور وزیر اعلیٰ اپنے حلف نامے کی پامالی کے سلسلے میں دی تھی۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 11-17 اکتوبر، 2020