آن لائن تعلیم : ایک سروے

شہری علاقوں میں ۲۳ فیصد اور دیہی علاقوں میں صرف ۸ فیصد بچوں کی آن لائن تعلیم

ابو عافیہ، حیدرآباد

تعلیمی نقصان کی تلافی کے لیے موثر منصوبہ بندی اور تدابیر اختیار کرنے کی ضرورت
آن لائن تعلیم سے متعلق ایک سروے کیا گیا جس سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ دیہی علاقوں میں رہنے والے طلبہ کو آن لائن تعلیم سے کوئی فائدہ نہیں ملا۔ ان میں سے صرف ۸ فیصد بچے ہی باقاعدگی سے آن لائن تعلیم حاصل کر رہے ہیں، ۳۷ فیصد بچے ایسے ہیں جنہیں کسی بھی قسم کی آن لائن تعلیم حاصل نہیں ہو رہی ہے یعنی گزشتہ ڈیڑھ دوسالوں سے وہ بالکل بھی نہیں پڑھ پائے ہیں۔ جنہوں نے آن لائن تعلیم حاصل کی تھی ان میں سے نصف تعداد تو ایسی ہے جو چند الفاظ سے زیادہ پڑھ نہیں پڑھ سکتی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ صرف ۸ فیصد دیہی بچے ہی آن لائن تعلیم حاصل کر پا رہے ہیں، گاوں دیہاتوں میں بسنے والے ۷۵ فیصد بچوں کو خواندگی سے محرومی کا خطرہ لاحق ہے۔
"اسکول چلڈرن آن لائن آف لائن لرننگ” (اسکول) کے سروے کے مطابق طویل عرصے سے اسکول بند رہنے کی وجہ سے پسماندہ علاقوں کے بچے تعلیم سے محروم ہیں ۔ یہ سروے ہندوستان کی ۱۵ ریاستوں اور مرکزی زیر انتظام علاقوں (آسام ، بہار ، چندی گڑھ ، دہلی ، گجرات ، ہریانہ ، جھارکھنڈ ، کرناٹک، مدھیہ پردیش ، مہاراشٹر، اڈیشہ ،پنجاب، تمل ناڈو، اترپردیش ، مغربی بنگال ) میں اگست ۲۰۲۱ میں انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (آئی آئی ٹی) کی معاشیات کی پروفیسر ریتیکا کھیرا، ماہر معاشیات جین ڈریوز اور ریسرچر وپل پائکرا نے کیا تھا۔ یہ سروے غریب وپسماندہ علاقوں رہنے والے ۱۴ سو طلبہ پر کیا گیا تھا۔ ۱۳۶۲ گھروں کے بچے جنہوں نے اپنا داخلہ درجہ اول سے درجہ ششم کی جماعتوں میں کروایا تھا ان کی تباہ کن صورتِ حال کا عکاس ہے۔ یہ سروے اس لیے کیا گیا تھا تاکہ دیکھا جائے کہ بچوں پر لاک ڈاؤن کے دوران تعلیمی اثرات کس طرح پڑے ہیں۔ یہ سروے شہری اور دیہی علاقوں کی تقسیم کا آئینہ دار بھی ہے۔
کیا بچے پڑھ رہے ہیں ؟
*سروے کے وقت کی صورت حال (۱ تا ۸ جماعت کے طلبہ ) الگ تین ماہ کی بھی صورت حال یہی رہی ۔
اکثر والدین کا یہ احساس ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران ان کے بچوں کی پڑھنے اور لکھنے کی صلاحیتیں شدید طور پر متاثر ہوئی ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ اسکولوں کی دوبارہ کشادگی جلد از جلد عمل میں لائی جائے۔ ان میں سے بہت سوں کا یہ بھی احساس ہے کہ اسکول کی تعلیم ہی وہ واحد ذریعہ ہے جس سے ان کے بچے حقیقت میں تعلیم یافتہ بن سکتے ہیں۔
آن لائن تعلیم کی حقیقت:
"اسکول” کے سروے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آن لائن تعلیم کی رسائی بہت ہی محدود لوگوں تک ہے، کیونکہ وہ بچے جو باقاعدگی کے ساتھ آن لائن تعلیم حاصل کر رہے ہیں ان کا تناسب شہری علاقوں میں ۲۴ فیصد اور دیہی علاقوں میں ۸ فیصد ہے۔ یہ اعداد وشمار اس بات کا ثبوت ہیں کہ ملک میں تعلیم کی صورت حال کتنی تباہ کن و نا گفتہ بہ ہے۔ اتنی کم تعداد میں طلباء کے آن لائن تعلیم حاصل کرنے کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں جیسے اکثر والدین اسمارٹ فون کے متحمل نہیں ہوتے۔ اگر کسی کے زیادہ بچے ہوں تو اس کے لیے صورت حال مزید ابتر ہو گی۔ اگر کسی نے محنت ومشقت کے بعد اسمارٹ فون خرید بھی لیا تو انٹرنٹ کا ڈیٹا خریدنا اس کے لیے مشکل امر ہو گا۔ کئی علاقوں میں انٹرنیٹ کی عدم دستیابی بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ آن لائن تعلیم کے لیے یہ ضروری ہے کہ اسمارٹ فون ہو، انٹرنیٹ ڈیٹا ہو اور انٹرنیٹ خدمات دستیاب ہوں۔ ایک صورت حال یہ بھی ہے کہ جن کے پاس اسمارٹ فونز ہیں ان بچوں کا آن لائن تعلیم حاصل کرنے کا تناسب شہری علاقوں میں صرف ۳۱ فیصد اور دیہی علاقوں میں ۱۵ فیصد ہے۔ عام طور پر اسمارٹ فون گھر کے بڑوں کے پاس ہی ہوتا وہی اس کو استعمال کرتے ہیں، اسکول جانے والے بچوں کے پاس خاص طور پر چھوٹے بچوں کے لیے یہ آلات دستیاب نہیں ہیں (اسکول جانے والے بچوں میں صرف ۹ فیصد بچوں کے پاس ان کا اپنا اسمارٹ فون موجود ہے)۔
ایسے والدین جو یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کے بچے مناسب آن لائن تعلیم حاصل کر رہے ہیں ان کا تناسب شہری علاقوں میں صرف ۲۳ فیصد اور دیہی علاقوں میں ۸ فیصد ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ اسکول ان کے بچوں کو آن لائن مواد فراہم نہیں کر رہا ہے اور اگر کر بھی رہا ہے تو والدین اس سے آگاہ نہیں ہیں۔ آن لائن تعلیم سے خاص طور پر چھوٹے بچے دقت محسوس کرتے ہیں، انہیں شکایت ہے کہ سبق کی تفہیم صحیح سے نہیں ہو پاتی اور وہ اپنی توجہ مرکوز نہیں کر پاتے ہیں۔ انہیں سوالات کرنے کا موقع نہیں رہتا۔ اکثر بچے اسمارٹ فون کا استعمال ہی نہیں جانتے۔ والدین کی ایک بہت بڑی تعداد ایسی ہے جو آن لائن طریقہ تعلیم سے مطمئن نہیں ہے۔ ایک مختصر سا طبقہ ہی ہے جو اپنے بچوں کے آن لائن مطالعاتی مواد سے مطمئن نظر آتاہے۔ دو تہائی شہری علاقوں کے والدین یہ محسوس کرتے ہیں کہ لاک ڈاؤن کے دوران آن لائن طریقہ تعلیم سے ان کے بچوں کی پڑھنےاور لکھنے کی صلاحیتوں میں کمی آئی ہے۔
رہی بات ان بچوں کی جو آف لائن تعلیم حاصل کررہے ہیں وہ بھی باقاعدگی کے ساتھ تعلیم حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔ بچوں کی ایک بڑی اکثریت یا تو بالکل بھی تعلیم حاصل نہیں کر رہی ہے یا صرف وقتاً فوقتاً اپنے گھر میں ہی پڑھ رہی ہے۔ دیہی علاقوں میں تو یہ صورت حال انتہائی دگرگوں ہے۔ سروے کے دوران تقریباً آدھے بچے ایسے پائے گئے جو سرے سے کوئی تعلیم ہی نہیں لے رہے تھے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ بہت سی ریاستوں جیسے آسام، بہار، جھارکھنڈ اور اتر پردیش میں لاک ڈاؤن کے دوران بچوں کی تعلیم کے لیے کسی بھی قسم کی کوششیں نہیں کی گئیں۔ وہیں کچھ ریاستوں جیسے کرناٹک، مہاراشٹر، پنجاب، تلنگانہ اور راجستھان وغیرہ نے کچھ قدم اٹھائے۔ مثال کے طور پر "ورک شیٹ” دیے گئے، ٹی وی چینل پر لکچرس کے ذریعہ تعلیمی مواد فراہم کیاگیا تاکہ وہ گھر پر لکھ پڑھ سکیں یا اساتذہ کو وقتاً فوقتاً بچوں کے گھرجانے کی ہدایت دی گئی تاکہ وہ بچوں کو جانچ سکیں۔ تاہم ان میں سے بیشتر کوششیں تسلی بخش نہیں رہیں، بیشتر والدین اور بچوں نے اس بات کی گواہی دی کہ یہ تمام کوششیں ان کی تعلیمی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں بے اثر رہی ہیں خاص طور پر وہ بچے جو درجہ اول تا پنجم میں زیر تعلیم رہے ہیں وہ کسی بھی مدد سے محروم رہے ہیں۔
سروے کے دوران بچوں کی اکثریت یعنی (شہری علاقوں میں ۵۱ فیصد اور دیہی علاقوں میں ۵۸ فیصد) نے کہا کہ وہ اپنے استاد سے بالکل بھی نہیں ملے ہیں۔ والدین نے یہ شکایت کی کہ بچوں کے اساتذہ پچھلے ۳ ماہ کے دوران کبھی گھر نہیں آئے ہیں یا کسی بھی ذریعہ سے انہوں نے ان کے بچوں کی پڑھنے میں مدد کی ہو۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اکثر اساتذہ اپنے اسکولی بچوں سے رابطے میں ہی نہیں ہیں، بس علامتی طور پر کبھی کبھار آن لائن بات چیت کرتے ہیں یا یوٹیوب کے کچھ لنکس کو واٹس ایپ کے ذریعے بھیج دیتے ہیں اس کے علاوہ ان کا کوئی خاطر خواہ کام نظر نہیں آتا۔ کچھ مقامات پر اساتذہ نے اسکولی بچوں کے گھروں کا دورہ کیا ہے تاکہ ان بچوں کی مدد کی جا سکے۔ سروے کے دوران یہ دیکھنے میں آیا کہ کچھ اساتذہ نے بچوں کو پڑھانے کی کوششیں کیں کچھ اقدامات بھی کیے جیسے چھوٹے گروپوں کی شکل میں کلاسیں لی گئیں، بچوں کو یا تو کسی کے گھر بلایا گیا یا ان کے اپنے گھروں پر ہی انہیں بلا لیا گیا۔ بعض اساتذہ نے بچوں کے فونز ریچارج کروائے۔ ایسے بچے جن کے پاس پیسے نہیں تھے انہیں آن لائن پڑھنے کے لیے اپنا فون دیا۔ کچھ اساتذہ ہیں جو اب بھی بچوں کی مدد کر رہے ہیں۔ تاہم اس سروے نے ہمارے ملک کی تعلیمی صورت حال کو آشکار کر دیا ہے۔
***

 

***

 بچوں کی ایک بڑی اکثریت یا تو بالکل بھی تعلیم حاصل نہیں کر رہی ہے یا صرف وقتاً فوقتاً اپنے گھر میں ہی پڑھ رہی ہے۔ دیہی علاقوں میں تو یہ صورت حال انتہائی دگرگوں ہے۔ سروے کے دوران تقریباً آدھے بچے ایسے پائے گئے جو سرے سے کوئی تعلیم ہی نہیں لے رہے تھے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 26 ستمبر تا 02 اکتوبر 2021