آئی پی سی سی کی چھٹی تشخیصی رپورٹ خطرے کی گھنٹی

ہر سال سمندر کی سطح میں اضافہ تشویشناک۔ مستقبل میں دنیا کوسنگین خطرات درپیش

زعیم الدین احمد، حیدرآباد

گلوبل کامنز سروے جو جی ۲۰ ممالک میں کیا گیا۔ اقوام متحدہ کے بین حکومتی پینل برائے ماحولیات (آئی پی سی سی) کی ایک رپورٹ منظرِ عام پر آئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ دنیا کے تقریباً ہر خطہ کو آب و ہوا کی تبدیلی کی وجہ سے ناقابل تلافی نقصان ہو رہا ہے، اگلی چند دہائیوں میں عالمی درجہ حرارت میں ایک اعشاریہ پانچ فیصد کا اضافہ ہونے کا امکان ہے، امکان ہی نہیں بلکہ یقینی نظر آرہا ہے ۔ آئی پی سی سی کی چھٹی تشخیصی رپورٹ یقینی طور پر ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے ایک خطرے کی گھنٹی ہے ۔ آئی پی سی سی کی یہ رپورٹ چودہ ہزار اوراق پر مشتمل ہے اس رپورٹ کی تنقیح میں ساٹھ مختلف ممالک کے ۲۳۴ سائنس دانوں نے حصہ لیا۔ اس رپورٹ کی تیاری میں تقریباً پانچ سال کا عرصہ لگا ہے۔ اس رپورٹ کے تین حصہ ہیں آئی پی سی سی نے ایک حصہ کو ہی منظرعام پر لایا ہے مابقی دو حصوں کو وہ ۲۰۲۲ تک شائع کرے گی۔
آئی پی سی سی رپورٹ کیا ہےاور ہمارے لیے کیوں اہم ہے؟
۱۹۸۸ میں اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (یو ین ای پی) اور عالمی موسمیاتی تنظیم نے مل کر آئی پی سی سی کو قائم کیا۔ اس کا مشن یہ ہے کہ یہ عالمی سطح پر ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کا سائنسی اصولوں پر جائزہ لے اورماحولیات کو سدھار نے میں ممالک کی رہنمائی بھی کرے۔ آئی پی سی سی کی یہ رپورٹ موسمیاتی تبدیلی کا سائنسی بنیادوں جائزہ، اس کے اثرات اور مستقبل کے خطرات کا بھی جائزہ لیتی ہے ۔ آئی پی سی سی کی رپورٹ سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اس وقت دنیا کو ماحولیات کے حوالے سے کیا خطرات لاحق ہیں اور ان خطرات سے کیسے بچا جاسکتا ہے، تاہم رپورٹ میں کسی بھی قسم کی سفارشات نہیں کی گئی ہیں۔ آئی پی سی سی کی جانب سے اس طرح کی رپورٹ اس سے قبل ۲۰۱۳ میں بھی جاری کی گئی تھی۔ یہ مخصوص رپورٹ چھٹی تشخیصی رپورٹ (اے آر ۶) ’کلائمیٹ چینج ۲۰۲۱: دی فزیکل سائنس بیسز‘ کے نام سے آئی ہے۔ منظر عام پر آنے والی یہ رپورٹ آئی پی سی سی کی چھٹی تشخیص رپورٹ کا ایک حصہ ہے جس کی اشاعت میں تقریباً ایک سال تاخیر ہوئی ہے اس تاخیر کی وجہ کوویڈ-۱۹ کی وبا کو سمجھا جاتا ہے۔
شائع ہونے والی چھٹی تشخیصی رپورٹ ماحولیاتی تبدیلی کی طبعی سائنس کی بنیادوں پر مشتمل ہے۔ دوسری رپورٹ ماحولیاتی تبدیلی کے عوامی گروہوں پر ہونے والے اثرات کے موضوع پر ہوگی اور تیسری رپورٹ ماحولیاتی تبدیلی کے معیشت پر اثرات کے عنوان کا احاطہ کرے گی ۔ یہ دو رپورٹیں ۲۰۲۲ میں شائع ہونے کا امکان ہے ۔ آئی پی سی سی کی اس رپورٹ میں موسمیاتی تبدیلی کے علاقائی اثرات، موسم کا انتہائی شدید گرم ہونا اور تبدیل شدہ موسم کے انسانی سرگرمیوں پر اثرات جیسے موضوعات پر گفتگو کی گئی ہے۔ آئی پی سی سی اس رپورٹ کو ۱۹۵ حکومتوں کے ارکان نے مسلسل دو ہفتوں تک چلنے والے ورچوئل سیشنوں کے ذریعے منظوری دی ہے ۔
تشخیصی رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ اگلے بیس سالوں میں عالمی درجہ حرارت میں اوسطاً ایک اعشاریہ پانچ ڈگری سینٹی گریڈ تک کا اضافہ ہوگا یا اس سے بھی تجاوز کر جانے کی توقع ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ۱۸۵۰ تا ۱۹۰۰ سالوں کے دوران انسانی سرگرمیوں کے نتیجے میں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کی وجہ سے درجہ حرارت میں تقریباً ایک اعشاریہ ایک ڈگری سینٹی گریڈ تک کااضافہ ہوا ہے۔ مزید یہ کہ ان گرین ہاؤس گیسوں کی وجہ سے آب و ہوا میں تبدیلی واقع ہوئی جس کی وجہ سے سمندر کی سطح میں اضافہ درج کیا گیا یہ اضافہ جو پہلے کبھی صدی میں ایک بار ہوا کرتا تھاوہ اب ہرسال ہونے لگا ہے ۔رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں فوری طور پر بڑے پیمانے پر کمی نہیں لائی گئی تو عالمی درجہ حرارت میں دو ڈگری سینٹی گریڈ تک اضافہ ہو سکتا ہے ۔
لیکن یہ صرف درجہ حرارت میں اضافہ کا مسئلہ ہی نہیں ہے اس کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلیاں بھی واقع ہو رہی ہیں۔ مختلف علاقوں میں مختلف تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں۔ یہ موسمیاتی تبدیلیاں گرمی میں اضافے کی وجہ سے مزید تباہی کا باعث بنتی جارہی ہیں ۔ موسم کا اچانک خشک ہوجانا، اچانک اور بے موسم بارش کا ہوجانا، تیز وتند ہواؤں کا چلنا، برف کا پگھلنا، ساحلی علاقوں اور سمندروں کی سطح میں مختلف تبدیلیاں کا رونما ہونا وغیرہ یہ سب گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کے مسائل ہیں۔
رپورٹ میں عالمی درجہ حرارت میں اضافہ کی وجہ بتاتے ہوئے موسموں کی تبدیلی سے متعلق درج ذیل خطرات کی نشان دہی کی گئی ہے ۔
• ماحولیاتی تبدیلی آبی چکر کو تیز تر کر رہی ہے جس کی وجہ سے وقفہ وقفہ سے کہیں شدید بارشیں اور سیلاب آرہے ہیں تو کہیں شدید خشک سالی ہو رہی ہے۔
• ماحولیاتی تبدیلی بارش کے انداز کو بھی متاثر کر رہی ہے۔ عرض البلد میں بارش میں اضافہ جبکہ اس کے دوسرے حصوں میں کم بارش کا ہونا برسات کے موسم میں تبدیلی کا واقع ہونا جو ہر علاقے کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہے۔
• اس صدی کے دوران ساحلی علاقوں میں سمندری سطح میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آیاہے، جس سے نشیبی علاقوں میں شدید سیلاب کی صورتحال پیدا ہوئی اور ساحلی حصہ بھی کم ہوا۔ ایسے واقعات جو کبھی صدی میں ایک مرتبہ ہوتے تھے اس صدی کے آخر میں ہر سال ہو سکتے ہیں۔
• درجہ حرارت میں اضافہ کی وجہ سے گلیشیئرز اور برف کی چادروں کا پگھلنا، گرمیوں میں آرکٹک سمندری برف کا نقصان، پرمافراسٹ (زیر سطحی زمین جو مستقلاً منجمد ہوتی ہے) کا پگھلنا، موسمی ثلج (برف) کا پگھلنا جو ہمیشہ ڈھکے ہوئے ہوتے ہیں۔
• سمندری تبدیلیاں گرمی میں اضافہ، متعدد بار گرم سمندری لہروں کا آنا، سمندری تیزابیت میں اضافہ، آکسیجن کی سطح میں کمی جیسے عوامل کو راست طور پر انسانی کارستانیوں کا نتیجہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ بلا شبہ یہ تبدیلیاں سمندری ماحولیاتی نظام کو اور ان سے جڑے لوگوں کو شدید طور پر متاثر کر رہی ہیں۔
• شہروں کی سطح پر دیکھا جائے تو وہاں بھی ماحولیاتی تبدیلی سے بہت گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں جیسے گرمی میں اضافہ (شہری علاقے عام طور پر گردونواح سے زیادہ گرم ہوتے ہیں)، شدید بارش کا ہونا اور اس سے سیلاب کا ہونا، سمندر کی سطح میں اضافہ کی وجہ سے ساحلی علاقوں کا ختم ہونا۔
آئی پی سی سی کا کہنا ہے کہ ’’ہمارا مشاہدہ ہے کہ ماحولیات میں بہت تیزی کے ساتھ تبدیلیاں آ رہی ہیں جو ناقابل بیان حد تک نقصان پہنچانے والی ہیں۔ اندازہ ہے کہ یہ تبدیلیاں گزشتہ سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں سالوں میں بھی نہیں دیکھی گئی ہوں گی۔ جس تیزی کے ساتھ سمندروں کی سطح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے شاید وہ بھی گزشتہ سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں سالوں میں بھی نہیں ہوا ہو گا۔ اس کے اضافے میں کمی لانا ممکن نہیں” تاہم کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں مسلسل کمی ماحولیاتی آلودگی میں کمی لاسکتی ہے۔ اگر مسلسل کوششیں کی گئیں تو عالمی درجہ حرارت کو مستحکم کیا جاسکتا ہے البتہ اس کو مستحکم کرنے میں مزید بیس سے تیس سال لگ سکتے ہیں۔‘‘
***

 

***

 آئی پی سی سی کا کہنا ہے کہ’’ہمارا مشاہدہ ہے کہ ماحولیات میں بہت تیزی کے ساتھ تبدیلیاں آ رہی ہیں جو ناقابل بیان حد تک نقصان پہنچانے والی ہیں۔ اندازہ ہے کہ یہ تبدیلیاں گزشتہ سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں سالوں میں بھی نہیں دیکھی گئی ہوں گی۔ جس تیزی کے ساتھ سمندروں کی سطح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے شاید وہ بھی گزشتہ سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں سالوں میں بھی نہیں ہوا ہو گا۔ اس کے اضافے میں کمی لانا ممکن نہیں‘‘ تاہم کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں مسلسل کمی ماحولیاتی آلودگی میں کمی لاسکتی ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 29 اگست تا 4 ستمبر 2021