انسانوں سے ’ محبت‘ اسلامی قوانین کی روح

قرآنی ہدایات صفت رحمت کا لازوال بیانیہ

ابوفہد، نئی دلی

’’9 اکتوبر 2021 کی خبرہے کہ ایک 25 سالہ امریکی خاتون کو چار دن کے لیے جیل کی سزا سنائی گئی ہے اور ایک ہزار ڈالر کا جرمانہ عائد کیا گیا ہے۔ اس خاتون کا جرم یہ تھا کہ اس نے یلو اسٹون نیشنل پارک (Yellowstone National Park) میں بھورے ریچھ کے بہت قریب جاکر اس کی فوٹو لینے کی کوشش کی تھی۔ پارک کے قوانین کے مطابق ریچھ اور بھیڑیوں سے کم از کم سو گز دور رہنا ہوتا ہے۔خاتون نے اپنا جرم قبول کرلیا ہے۔ اس کانام سمانتھا دہرنگ (Samantha Dehring) ہے۔ اس پر یہ پابندی بھی عائد کی گئی ہے کہ وہ ایک سال تک اس پارک میں نہیں جا سکتی‘‘۔ اس نوعیت کے اور بھی کئی قوانین ہیں، جو تقریباً ہر ملک میں موجود ہیں۔ اگر ان قوانین کی علت پر غور کریں تو سمجھ میں آتا ہے کہ کوئی بھی انسان اپنا نقصان نہیں کرسکتا، بھلے ہی جان اس کی ہے اور اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالنے کا فیصلہ بھی خود اسی کا ہے ۔ دنیا کی ہر ریاست کو اور ہر حکومتی ادارے کو اپنے ملک کے ہر باشندے کی فکر رہتی ہے، کسی بھی ملک کے قوانین کسی بھی انسان کو یہ اجازت نہیں دیتے کہ وہ دوسروں کو نقصان پہنچائے اسی طرح یہ بھی اجازت نہیں دیتے کہ وہ خود کو نقصان پہنچائے۔ نقصان خواہ جان کا ہو یا مال کا، خواہ کم ہو یا زیادہ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قوانین کی بنیاد اور روح محبت اور ہمدردی ہے، فرد سے ہمدردی، سوسائٹی سے ہمدردی اور پوری انسانیت سے ہمدردی۔ محبت اور ہمدردی ہی تمام اخلاق وقوانین کی بنیاد ہے، بھلے ہی ان میں بعض قوانین سخت معلوم ہوں اور ناپسندیدہ لگیں۔
اور جب انسانی قوانین کا یہ عالم ہے تو الٰہی قوانین کا عالم کیا ہوگا؟ الٰہی قوانین میں انسان اور انسانیت کے تئیں ترحم، محبت اور ہمدردی کس درجے کی ہوگی؟ اس کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ اسلامی قوانین اور اخلاق وآداب کو بھی اسی نقطہ نظر سے دیکھا جانا چاہیے، کیونکہ تمام کے تمام اسلامی قوانین میں یہی اسپرٹ اور جذبہ کار فرما ہے۔ یہاں تک کہ تعزیراتی اور فوجداری قوانین میں بھی یہی جذبہ موجود ہے، یعنی انسان اور انسانی معاشرے کی بقا اور فلاح۔ اور یہ اس بات کی علامت ہے کہ قانون بنانے والے کو ان سے محبت اور ہمدردی ہے جن کے لیے قوانین بنائے گئے ہیں۔ اگر اس نقطہ نظر سے دیکھیں تو قرآن محبتِ خداوندی کا مظہر قرار پاتا ہے۔
اسلام میں جتنے بھی قوانین واحکام ہیں وہ سب کے سب انسانوں کی بھلائی کے لیے ہیں، اخروی بھلائی کے لیے بھی ہیں اور دنیوی بھلائی کے لیے بھی ۔یہ بھلائی کبھی ایک انسان کے لیے ہوتی ہے، کبھی معاشرے کے لیے اور کبھی ساری انسانیت کے لیے۔ اسلام میں خود کشی اسی لیے حرام ہے اور شراب اسی لیے جائز نہیں کہ ان سے خود انسانوں کا ہی نقصان ہے، جانی بھی اور مالی بھی، معاشرتی فساد بھی اس سے پیدا ہوتا ہے اور شرابی انسان کا ذاتی نقصان بھی ہوتا ہے۔ سود کی ممانعت بھی اسی لیے ہے کہ اس میں بقول اقبالؔ چند لوگوں کا نفع ہے اور بہت سے لوگوں کا نقصان ؎ ’’سود ایک کا لاکھوں کے لیے مرگ مفاجات‘
پھر جن غلط اعمال اور اقدامات کا نقصان انسان کی اپنی ذات تک محدود رہتا ہے، ان کی سزائیں نسبتاً ہلکی ہیں جیسے شراب پینا اور جوا کھیلنا وغیرہ اور جو اقدامات اور اعمال دوسروں کو جانی ومالی نقصان پہنچاتے ہوں ان کی سزائیں نسبتاً سخت ہیں جیسے چوری کرنا ، قتل کرنا اور زنا کاری کرنا وغیرہ۔ ان کے بعد جن کوتاہیوں اور منفی اعمال کا تعلق حقوق اللہ سے ہے ان کی سزائیں دنیا میں نہیں رکھی گئی ہیں، بلکہ ان کا حساب کتاب آخرت میں ہوگا، جیسے عبادات میں سستی کرنا وغیرہ۔عبادات میں کوتاہی کی سزائیں فقہاء اسلام نے بیان کی ہیں اور اسلامی حکومت انہیں من وعن یا کمی وبیشی کے ساتھ نافذ بھی کر سکتی ہے۔
اکثر مسلمان بھی اسلامی قوانین کو سخت اور اسلام کے اخلاق وآداب کو اپنے لیے پابندیاں شمار کرنے لگتے ہیں، مگر فی الواقع ایسا نہیں ہے، اسلام کے تمام احکام وقوانین اور اخلاق وآداب خاص طورپر مسلمانوں کے لیے اور عمومی طورپر تمام انسانوں کے لیے سرتاپا رحمت ہیں، اسی لیے اللہ نے اپنی کتاب قرآن میں سب سے زیادہ اپنی جس صفت کو بیان فرمایا ہے وہ یہی صفت رحمت ہے۔ قرآن کھولتے ہی سب سے پہلی آیات جو ہم پڑھتے ہیں وہ اسی صفت کا خصوصی اور عمومی بیان ہے:’’تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہی سزاوار ہیں جو تمام جہانوں کا رب ہے اور جو بہت زیادہ رحیم وکریم ہے۔ وہ صفت جو ایک مسلمان اپنی زندگی میں سب سے زیادہ زبان سے ادا کرتا ہے، نماز میں بھی اور نماز کے باہر بھی، وہ یہی صفت رحمت ہے۔ ہر مسلمان کو ہر اچھا عمل کرنے سے پہلے بسم اللہ پڑھنے کا حکم ہے۔ جو صفتِ رحمت کا لازوال بیانیہ ہے۔
اسلامی اخلاق وقوانین کو دو بڑے خانوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد۔ حقوق العباد میں تو انسانوں کی خیرخواہی کا جذبہ بہت واضح ہے کیونکہ ان میں یہی ہے کہ ایک انسان کے دوسرے انسان پر کیا کیا حقوق ہیں اور ان کی ادائیگی کے کیا کیا طریقے ہیں۔ البتہ جن کا تعلق ’’حقوق اللہ‘‘ سے ہے اور وہ زیادہ تر عبادات ہیں تو ان کی افادیت اور منفعت بھی انسان کی طرف ہی لوٹتی ہے۔ نماز اور روزہ خالص اللہ کے لیے کیے جانے والے اعمال ہیں اور ان کا تعلق براہ راست ’حقوق اللہ‘ سے ہی ہے۔ ان میں بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ ان سے ایک مسلمان کی ذاتی منفعت وابستہ نہیں ہوگی مگر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ عبادات کی منفعت بھی عبادت گزار کی طرف ہی لوٹتی ہے، عبادات کا صلہ آخرت میں جو ملے گا سو ملے گا، دنیا میں بھی ہر عبادت گزار کو اس کا ذاتی اور معاشرتی فائدہ حاصل ہوتا ہے۔
نماز تو اللہ کے لیے پڑھی جاتی ہے امام کے لیے نہیں پڑھی جاتی پھر بھی اللہ نے نماز کے قیام کو امام کے ساتھ مشروط کر دیا ہے۔ تو یہ مسلمان امت کو ان کے معاشروں میں اجتماعیت اور قیادت کو فروغ دینے اور انہیں ہمیشہ جاری وساری رکھنے کے لیے ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ کے ان احکام میں بھی جو خالصتا ‘‘حقوق اللہ‘‘ میں آتے ہیں اور جن کا انسانی مفادات سے بظاہر کوئی بڑا رشتہ محسوس نہیں ہوتا جس طرح سے زکوٰۃ میں محسوس ہوتا ہے، کہ زکوٰۃ اگرچہ عبادت ہے مگر اس سے انسانی ہمدردی کا رشتہ بڑے پیمانے پر استوار ہے، اسی طرح نماز جیسی خالص اللہ کے لیے کی جانے والی عبادت میں بھی معاشرتی تنظیم اور تدبیر کے حوالے سے انسانی مفاد جڑا ہوا ہے۔ نماز کی افادیت نمازی کی ذہنی وجسمانی صحت سے بھی اسی طرح وابستہ ہے جس طرح اس کی ایمانی وروحانی صحت سے وابستہ ہے۔
سورۃ المؤمنون کی پہلی آیت میں کہا گیا ہے کہ اہل ایمان کامیاب ہو گئے اور اس کے بعد والی دس گیارہ آیات میں چند اعمال کا تذکرہ ہے جن کی بنیاد پر اہل ایمان کو کامیابی ملے گی۔ وہ اعمال اس طرح ہیں، نمازوں کی حفاظت کرنا، ان میں خشوع پیدا کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا، لغوکاموں سے پرہیز کرنا، زناکاری سے بچنا اور امانتوں اور عہد وپیمان کی حفاظت کرنا۔ جو اہل ایمان ان اوامر ونواہی کی پابندی کریں گے وہ جنتوں کے وارث ہوں گے۔ قرآن کا یہ صاف اعلان ہے۔ ان آیات کے معانی کے مستفاد میں دنیا کی زندگی کی کامیابیاں بھی اسی طرح شامل ہیں جس طرح آخرت کی زندگی کی کامیابیاں شامل ہیں ۔کیونکہ ان اعمال کو ٹھیک ٹھیک انجام دینے کے نیتجے میں مسلمان ذاتی اور اجتماعی سطح پر اپنے بہت سارے کاموں کی تدبیر اور تنظیم کر پاتے ہیں۔ نماز پڑھنے سے اس کی اپنی زندگی سنورتی ہے، برائیوں اور گندگیوں سے نمازی دور رہ پاتا ہے، ادھر ادھر کے کاموں میں وقت کو برباد کرنے سے بچ جاتا ہے۔اجتماعیت سے جڑ جاتا ہے۔ زکوٰۃ ادا کر کے معاشرے سے غربت اور جہالت کو دور کرنے میں مدد گار بنتا ہے۔ اور بے حیائی کی باتوں اور کاموں سے پرہیز کرنے سے مسلمان خود کو اور پھر اپنے معاشرے کو روحانی ترقیوں کی طرف گامزن کرتا ہے۔ اسی طرح امانتوں اور عہد وپیمان کا خیال رکھنے سے مسلم معاشروں میں اخلاقی وروحانی ترقی ہوتی ہے، اسی سے معاشی اور اقتصادی ترقیاں بھی وابستہ ہیں۔جب لوگوں کے آپس کے معاملات درست ہوں گے، اخلاق اچھے ہوں گے اور کاروبار میں ایمانداری اور نیک نیتی وہمدردیاں شامل ہوں گی تو مسلم معاشرے میں ہر طرح کی خوشحالی آئے گی۔
اہل ایمان کو اسلامی اخلاق وقوانین کے ان پہلؤوں پر بھی نظر رکھنی چاہیے اور عبادات سے وابستہ ایسی حکمتوں پر بھی غور وخوض کرتے رہنا چاہیے۔ اس کا ایک فائدہ تو یہی ہوگا کہ ایسا کرنے سے عبادت کے ذوق وشوق میں بھی اضافہ ہوگا اور ان میں للّٰہیت و مقصدیت بھی آئے گی اور پھر یقین بھی دوبالا ہوگا۔
اس ساری بحث کے بعد یہ نتیجہ اخذ کرنا درست ہے کہ انسان کی تخلیق اور اسے دنیا میں بھیجا جانا فی الواقع اللہ کی محبت کی بنیاد پر ہے اور پھر انسان کی دنیاوی زندگی کے لیے اخلاق وقوانین پر مبنی شریعتوں کا اتارا جانا اور انبیاء ورسل علیہم الصلاۃ والتسلیم کا مبعوث کیا جانا انسانوں کے لیے سرتا سر اللہ کی رحمت کی وجہ سے ہے اور ان سے اللہ کی محبتوں کی وجہ سے ہے۔ اگر ہم غور وفکر کریں تو ہر چیز میں اللہ کی محبتوں کی کار فرمائی اور جلوہ نمائی کو دیکھ سکتے ہیں۔
***

 

***

 اہل ایمان کو اسلامی اخلاق وقوانین کے ان پہلؤوں پر بھی نظر رکھنی چاہیے اور عبادات سے وابستہ ایسی حکمتوں پر بھی غور وخوض کرتے رہنا چاہیے۔ اس کا ایک فائدہ تو یہی ہوگا کہ ایسا کرنے سے عبادت کے ذوق وشوق میں بھی اضافہ ہوگا اور ان میں للّٰہیت و مقصدیت بھی آئے گی اور پھر یقین بھی دوبالا ہوگا۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 17 تا 23 اکتوبر 2021