امریکی مسلم گروپوں نے جوبائیڈن انتظامیہ کے ذریعے مسلم ممالک کے مسافروں پر عائد پابندی کو ختم کرنے کا خیرمقدم کیا

نئی دہلی، جنوری 21: ریاستہائے متحدہ امریکا میں مسلم گروپوں نے امریکی صدر جو بائیڈن کے متعدد مسلم اکثریتی ممالک کے لوگوں کے ساتھ ساتھ متعدد غیر مسلم ممالک کے تارکین وطن کے داخلے پر پابندی ختم کرنے کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔

یہ پابندی سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جنوری 2017 میں عائد کی تھی، جس میں کئی بار توسیع کرکے کئی دیگر ممالک کے شہریوں کو بھی شامل کیا گیا تھا۔

امریکی پابندی کے اس حکم کو 2018 میں امریکی سپریم کورٹ نے برقرار رکھا تھا۔

پابندی کے حکم کے مطابق ایران، لیبیا، صومالیہ، شام، یمن سبھی بنیادی طور پر مسلمان ممالک کے علاوہ وینزویلا اور شمالی کوریا کے شہریوں کو بھی امریکہ میں داخلہ ویزا نہیں دیا جانا تھا۔ اس سے قبل چاڈ بھی کالعدم مسلم ممالک کی فہرست میں شامل تھا لیکن بعد میں چاڈ کے امریکی آنے والے شہریوں کی جانچ پڑتال کے لیے امریکی ایجنسیوں کو معلومات فراہم کرنے پر رضامندی کے بعد اسے ختم کردیا گیا۔

اس پابندی کو سن 2019 میں مزید وسعت دی گئی تھی جس کے تحت میانمار، اریٹیریا، کرغزستان، نائیجیریا ، سوڈان اور تنزانیہ کے شہری امریکہ کا دورہ کرسکتے تھے، لیکن انھیں مستقل طور پر امریکہ میں آباد ہونے سے روک دیا گیا تھا۔

بائیڈن انتظامیہ میں وائٹ ہاؤس کے پریس سکریٹری جین پساکی نے بدھ کے روز میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ صدر نے ’’مسلم پابندی کی پالیسی‘‘ کو ، جو مذہبی دشمنی اور زینوفوبیا سے جڑا ہوا ہے، ختم کردیا ہے۔

بائیڈن کی جانب سے اس پابندی کے خاتمے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کونسل برائے امریکن اسلامک ریلیشنز (سی اے آئی آر) نے اس فیصلے کو ’’سابق ​​انتظامیہ کی مسلم مخالف اور تارکین وطن مخالف پالیسیوں کو ختم کرنے کی طرف ایک اہم پہلا قدم‘‘ قرار دیا ہے۔

سی اے آئی آر کے ایگزیکیٹو ڈائریکٹر نہاد عود نے ایک بیان میں کہا ’’یہ مسلم برادری اور اس کے اتحادیوں سے وعدے کی ایک اہم تکمیل ہے۔‘‘

بائیڈن کے صدارتی انتخابات جیتنے کے فورا بعد ہی ، چار درجن سے زائد وکلا کے گروپوں کی ایک مشترکہ تنظیم نے ان کو ایک مشترکہ خط لکھا تھا جس میں انھوں نے امریکہ میں تارکین وطن کے داخلے پر پابندی کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔