افغان امن: کچھ کچھ سحر کے رنگ پَر افشاں ہوئے تو ہیں

مسعود ابدالی

 

افغانستان میں جنگی قیدیوں کا تبادلہ ’تقربیاً‘ مکمل ہونے کے بعد بین الافغان مذاکرات اب چند دنوں کی بات محسوس ہو رہی ہے۔ ہم نے تقریباً کے عنوان سے احتیاط کا حصار اس لیے باندھا ہے کہ قطر معاہدے کے تحت امریکہ نے جن 5000طالبان کی رہائی کا وعدہ کیا تھا ان میں سے 4993قیدی رہا ہو چکے ہیں۔ باقی ماندہ 7افراد کے بارے میں خیال ہے کہ یہ بدنصیب گوانتامو عقوبت کدے کی زینت ہیں اور امید ہے کہ اس تحریر کی اشاعت سے پہلے یہ لوگ رہا ہو چکے ہوں گے۔
امریکہ کی افغان پالیسی صدر ٹرمپ نے اپنے جرنیلوں اور وزیروں کے ’قیمتی مشوروں‘ کو یکسر نظر انداز کر کے تن تنہا ترتیب دی ہے۔ 2015 میں انتخابی مہم کے آغاز پر صدر ٹرمپ نے بے مقصد افغان عسکری مہم کو صدر بش اور صدر اوباما کی ناکامی قرار دیتے ہوئے اسے منظقی انجام تک پہنچانے کا وعدہ کیا تھا۔ امیدواروں کے درمیان مباحثوں میں بھی انہوں نے اپنی مخالف اور صدر اوباما کی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کو افغان پالیسی کے حوالے سے سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس جنگ میں امریکی ٹیکس دہندگان کے 70 ارب ڈالر سالانہ پھونکے جا رہے ہیں اور بھاری جانی و مالی قربانیوں کے باوجود افغانستان پر ’خون آشام‘ ملاوں کی گرفت ہر گزرتے دن کے ساتھ مضبوط ہوتی جا رہی ہے۔
جنوری 2017 میں حلف اٹھاتے ہی صدر ٹرمپ نے اپنے جرنیلوں کو ’مکمل فتح‘ کا ہدف دیا۔ امریکی وزارت دفاع نے افغانستان میں ناکامیوں کا ملبہ پاکستان اور سابق صدر اوباما پر ڈال دیا۔ جرنیلوں کا کہنا تھا کہ صدر اوباما نے افغانستان کے فیلڈ کمانڈروں کے تمام اختیارات سلب کر لیے ہیں حتیٰ کہ ڈرون کی ہر اڑان سے پہلے کمانڈر انچیف (امریکی صدر) کی اجازت ضروری ہے اور بندھے ہاتھوں سے دہشت گردوں کا مقابلہ ممکن نہیں۔ اسی کے ساتھ پینٹاگون (امریکی وزارت دفاع) کے اہلکاروں نے پاکستان کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کو بھی امریکی ہزیمت کا ذمہ دار قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ دوست بنا اسلام آباد، بھاری امداد وصول کرنے کے باوجود طالبان کی در پردہ پشتیبانی کر کے ہماری پیٹھ میں چھرا گھونپ رہا ہے۔ جرنیلوں، قومی سلامتی کے مشیروں اور وزارت خارجہ سے گفتگو کے بعد اگست 2017 میں صدر ٹرمپ نے امریکی فوج کے مرکزی اڈے فورٹ مائر میں سینئر امریکی جرنیلوں اور وزارت خارجہ کے اہلکاروں کے سامنے نئی افغان پالیسی کا اعلان کیا۔ یہ دراصل امریکی عوام سے صدر کا خطاب تھا۔ پالیسی کے اعلان سے دو دن قبل امریکی سنٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل جوزف ووٹل پاکستان کی عسکری قیادت سے ملاقات کر چکے تھے جب کہ صدر ٹرمپ کی تقریر سے کچھ دیر پہلے (سابق) امریکی وزیر خارجہ رک ٹیلرسن نے فون پر پاکستانی وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو اعتماد میں لیا۔ صدر ٹرمپ نے اپنے خطاب کے آغاز میں کہا ’پاکستان سے متعلق ہمارے انداز فکر (اپروچ) کی تبدیلی امریکہ کی نئی افغان پالیسی کا اہم ستون ہے‘۔ امریکی صدر نے کہا کہ 20 دہشت گرد تنظیمیں پاکستان میں کام کر رہی ہیں اور اسلام آباد ان ’ٹھگوں‘ کو محفوظ ٹھکانے فراہم کر رہا ہے۔ پاکستان کی جانب سے دہشت گردوں کو محفوظ ٹھکانے فراہم ہوتا دیکھ کر ہم خاموش نہیں رہیں گے۔ پاکستان کو بہت کچھ مل سکتا ہے اگر وہ ہمارا ساتھ دے اور اس کا بہت نقصان ہوگا اگر وہ اسی طرح دہشت گردوں کو محفوظ ٹھکانے فراہم کرتا رہے۔ نئی افغان پالیسی کے خد وخال بیان کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا کہ سب سے پہلے ہمیں دہشت گردوں کے ٹھکانے ختم کرنے ہیں۔ ہماری حکمت عملی وقتی مصلحتوں کے بجائے شرائط کی بنیاد پر ہوگی۔ افغانستان میں امریکہ کی عسکری قوت میں اضافہ کیا جائے گا اور اضافی تعداد کا تعین زمینی حقائق اور صورتحال کے مطابق ہوگا کہ حکمت عملی کی کامیابی کے لیے راز داری ضروری ہے۔
صدر ٹرمپ نے کہا کہ جنوبی ایشیا کے بارے میں ہماری حکمت عملی کا اہم نکتہ ہندوستان سے مراسم کو مزید استوار کرنا ہے۔ ہندوستان افغانستان کے استحکام کے لیے جو کچھ کر رہا ہے وہ قابل تعریف ہے۔ ہم (یعنی ہندوستان اور امریکہ) بحر ہند اور بحر الکاہل کے مشترکہ مفادات پر تعاون جاری رکھیں گے۔ فوج اور وزارت دفاع کو وسیع اختیارات دیے جا رہے ہیں اور اب ہمارے کمانڈروں کو ہر فیصلے سے پہلے واشنگٹن کے آشیرواد کی ضرورت نہیں ہے۔ دھمکیوں اور شعلہ افشانی کے ساتھ ہی صدر ٹرمپ نے واپسی کا راستہ کھلا رکھتے ہوئے کہا ’ہو سکتا ہے کہ ہم طالبان کو سیاسی تصفیے کی دعوت دیں لیکن یہ کب ہوگا اس وقت بتانا حکمت کے خلاف ہے‘۔
اس کے ساتھ ہی پانچ ہزار مزید فوجی افغانستان بھیج دیے گئے ہیں۔ آزادی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکی کمانڈروں نے خوفناک بمباری کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ نئی افغان پالیسی کے نفاذ سے چار ماہ پہلے 13 اپریل کو انسانی تاریخ کا سب سے بڑا غیر جوہری بم یعنی GBU-43 افغانستان کے صوبے ننگرہار کے ضلع آچن پر داغا جا چکا تھا۔ اس دیو ہیکل بم کا ٹیکنیکل نام Massive Ordnance Air Blast Bomb یا موب ہے لیکن ہلاکت خیزی کی بنا پر اسے ’بموں کی ماں‘ کہا جاتا ہے۔ 10 ٹن وزنی اور 30 فٹ لمبے اس بم کا قطر 40 انچ ہے جس کے پھٹنے پر دھماکے کی شدت 11 ٹن TNT کے مساوی ہے۔ ہیروشیما پر گرائے جانی والے ایٹم بم کی تاثیر 15 ٹن TNT کے برابر تھی۔ غیر معمولی حجم اور وزن کی بنا پر اسے روایتی بمبار طیاروں میں نصب کرنا ممکن نہیں لہٰذا اسے C-130 مال بردار طیارے سے پھینکا گیا۔
افغانستان کے طول و عرض پر قیامت خیز بمباری سے شہر و دیہات برباد اور قبرستان آباد تو ہوئے لیکن قوت قاہرہ کا بے دریغ استعمال طالبان کو شکست دینے میں ناکام رہا۔ اس تمام عرصے کے دوران صدر ٹرمپ افغانستان میں امریکی فوج کی کارکردگی کا خود جائزہ لیتے رہے اور 2018 کے آغاز میں صدر ٹرمپ نے اپنے جرنیلوں کو افغانستان سے کوچ کی تیاری اور وزارت خارجہ کو طالبان سے مذاکرات کا حکم دے دیا۔ قطر اور پاکستان کے ذریعے کچھ عرصہ غیر رسمی مذاکرات ہوتے رہے۔ صدر ٹرمپ کو جلد ہی اندازہ ہوگیا کہ طالبان کو کابل انتطامیہ سے بات چیت پر رضامند کرنا ممکن نہیں ہے تو انہوں نے افغان نژاد امریکی سفارتکار زلمے خلیل زاد کو طالبان سے مذاکرات کا ہدف سونپ دیا۔ حسب توقع بات چیت میں سانپ و سیڑھی کے کھیل کی طرح ڈرامہ خیز اتار چڑھاؤ آیا اور آخر کار 29 جنوری کو امریکہ و طالبان کے درمیان ’معاہدہِ عزمِ امن‘ پر دستخط ہو گئے۔
معاہدے کے تحت امریکہ نے اس شرط پر اپنی فوج کی تعداد 13 ہزار سے گھٹا کر 8600 کرنے کا وعدہ کیا کہ طالبان نیٹو سپاہ کو واپسی کے لیے محفوظ راستہ فراہم کریں گے اور انخلا کے بعد افغان سر زمین امریکہ یا کسی اور ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو گی۔ اسی کے ساتھ طالبان دیرپا و پائیدار امن اور مستقبل کے بندوبست کے لیے جامع و وسیع البنیاد بین الافغان امن مذاکرات پر رضامند ہو گئے۔ معاہدے میں جنگی قیدیوں کی فوری رہائی کا وعدہ کیا گیا تھا۔ بین الافغان مذاکرات کا باقاعدہ آغاز 10 مارچ کو ہونا تھا لیکن قیدیوں کے تبادلے میں تاخیر کی وجہ سے اب تک مذاکرات شروع نہ ہو سکے۔ امریکہ نے فوجی انخلا کے بارے میں اپنے وعدے کا پاس کیا اور 4400 نیٹو سپاہی افغانستان سے واپس بلا لیے گئے۔ کورونا وائرس کی وجہ سے امریکی فوج کی نقل و حرکت پر پابندی تھی لیکن بر وقت انخلا کے لیے صدر ٹرمپ نے خصوصی صدارتی استثنیٰ جاری کیا۔ گزشتہ دنوں امریکی وزیر دفاع نے نومبر کے انتخابات سے پہلے مزید 4000 فوجی واپس بلانے کا عندیہ دیا ہے اور اگلے برس کے وسط تک تمام کی تمام امریکی فوج افغانستان سے واپس چلی جائے گی۔
فوج کی تعداد میں کمی اور جنگی قیدیوں کے تبادلے کے بعد بین الافغان مذاکرات کے لیے طالبان کا 21 رکنی وفد قطر پہنچ چکا ہے۔ اس وفد کے قائد طالبان کے قاضی القضاۃ مولوی عبدالحکیم حقانی ہیں۔ عباس ستانکزئی، عبدالحکیم حقانی کی نیابت کریں گے۔ پہلے کہا جا رہا تھا کہ وفد کی قیادت ملا عمر کے صاحبزادے ملا یعقوب کو سونپی جا رہی ہے۔ ملا یعقوب نسبتاً سخت گیر سمجھے جاتے ہیں۔ جس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ موصوف طالبان کے عسکری قائد ہیں اور اپنے والد کی وفات کے بعد سے وہ میدان کار زار میں طالبان کی قیادت کر رہے ہیں۔ 53 سالہ مولوی عبدالحکیم طالبان کے امیر مولوی ہبت اللہ اخوند زادہ کے قابل اعتماد ساتھی ہیں۔ مولوی صاحب کا سب سے بڑا کارنامہ قاضی عدالتوں کا قیام ہے۔ یہ عدالتیں مساجد و مدارس میں سماعت کر کے عوام کو مفت اور بر وقت انصاف فراہم کرتی ہیں۔ طالبان کے بد ترین مخالف بھی باہمی تنازعات کے حل کے لیے کورٹ کچہریوں کے بجائے قاضی عدالتوں کا رخ کرتے ہیں۔
ان مذاکرات میں طالبان کے لیے سب سے اہم نکتہ افغانستان کا نظریاتی تشخص ہوگا۔ ملا ہبت اللہ کہہ چکے ہیں کہ طالبان کو تخت و تاج اور شرکت اقتدار سے کوئی دلچسپی نہیں ہے وہ صرف اور صرف اسلامی افغانستان چاہتے ہیں۔ غالباً اسی لیے وفد کی قیادت مولوی عبد الحکیم کو سونپی گئی ہے کہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے فارغ التحصیل مولوی صاحب علوم شرعیہ کے ماہر ہیں اور گفتگو کے دوران وہ اسلامی ریاست کے بنیادی خد وخال کی تشریح و تنقیح موثر انداز میں کر سکیں گے۔
افغان ذرائع ابلاغ کے مطابق 7 ستمبر کو طالبان وفد کا ابتدائی اجلاس ہوا جس میں سبکدوش ہونے والے سربراہ ملا عبدالغنی برادر نے نئے سربراہ کا خیرمقدم کرتے ہوئے انہیں اب تک ہونے والی گفتگو سے آگاہ کیا۔ اسی کے ساتھ مذاکراتی وفد کے ترجمان ڈاکٹر محمد نعیم وردک نے بھی اپنی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ 35 برس کے جواں سال وردک صاحب نے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے عربی میں پی ایچ ڈی کی ہے۔ موصوف کو اردو، انگریزی، فارسی، عربی، پشتو کے علاوہ ترکی زبان پر بھی عبور حاصل ہے۔ طالبان نے ایک با اختیار وفد کا انتخاب کیا ہے جس کی اکثریت طالبان کی مجلس شوریٰ کے ارکان پر مشتمل ہے۔ ایک دو روز میں افغان حکومت کا وفد قطر پہنچنے والا ہے اور شنید ہے کہ زلمے خلیل زاد بھی قطر کے لیے محو سفر ہیں۔
کیا یہ مذاکرات نتیجہ خیز ثابت ہوں گے؟ چار دہائیوں سے اپنے خون میں غسل کرتے افغانوں کو کچھ امن میسر آئے گا اور فرحت نصیب ہوگی؟ اس سوال کا جواب اتنا آسان نہیں کہ ماضی میں خانہ کعبہ کے سائے تلے ہونے والے مذاکرات بھی بے نتیجہ رہ چکے ہیں۔ لیکن اس بار صورتحال حوصلہ افزا محسوس ہو رہی ہے جس کی وجوہات کچھ اس طرح ہیں:
• صدر ٹرمپ افغانستان سے امریکی فوج کی جلد ازجلد واپسی کے لیے پر عزم ہیں اور وہ ذاتی طور پران معاملات کی نگرانی کر رہے ہیں۔
• امریکی صدر طالبان قیادت سے رابطے میں ہیں اور وہ ایک سے زیادہ مرتبہ مترجم اور مددگار کےبغیر براہ راست ملا عبدالغنی برادر سے بات کر چکے ہیں۔
• کابل انتظامیہ کو معقولیت پر مائل کرنے کے لیے صدر ٹرمپ نے گاجر اور چھڑی دے کر وزیرخارجہ مائک پومپیو اور زلمے خلیل زاد کو کابل بھیجا جنہوں نے ڈاکٹر صاحب کو جنگی قیدیوں کی رہائیپر آمادہ کیا۔
• امن مذاکرات سے ڈاکٹر عبدالغنی کو علیحدہ رکھنے کے لیے اعلیٰ اختیاراتی قومی مفاہمتی کمیشن یا National Reconciliation High Commission کی سربراہی ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کو سونپ دی گئی ہے۔ اس کمیشن کو مالی وسائل فراہم کر کے خود مختار و با اختیار بنایا جا رہا ہےاور امن مذاکرات میں صدر اشرف غنی کا کردار علامتی رہ گیا ہے۔
• افغان وفد نظریاتی اعتبار سے انتہائی متنوع ہے اور زیادہ تر ارکان غیر ملکی فوجی انخلا کے لیے یکسوہیں۔
• حامد کرزئی اور وفد کے سربراہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ طالبان کے مخالف تو ہیں لیکن وہ افغان امن کے لیے ملاوں سے مل کر کام کرنے پر آمادہ ہیں۔
• روسی جہاد میں حصہ لینے والے استاذ عبدالرب رسول سیاف، گلبدین حکمت یار، کمانڈر اسماعیل خان وفد کے اہم ارکان ہیں جو اسلامی افغانستان کے دل وجان سے حامی ہیں۔
• استاذ عبدالکریم خلیلی، علامہ یونس قانونی، علامہ محمد محقق بھی طالبان سے فقہی اختلاف کےباوجود افغانستان کو اسلامی جمہوریہ بنانے کے حق میں ہیں۔
• جمیعت اسلامی کے صلاح الدین ربانی اور ذبیح اللہ مجددی ان خانوادوں سے ہیں جنہوں نےروسیوں کو ملک سے نکالنے کے لیے بھاری قربانیاں دی تھیں۔
• عبدالرشید دوستم اور طالبان کے درمیان خونریز لڑائی رہی ہے اور طالبان کے سینئر رہنما دوستم کوقصاب شبرغن کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ لیکن کہا جا رہا ہے کہ ترکی کی کوششوں سے دونوںکے درمیان کشیدگی کچھ کم ہو گئی ہے۔ اب بھی دونوں یک جان و دو قالب تو نہیں لیکن دوستم نے ماضی کو بھلا کر طالبان کے ساتھ مل کر کام کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
لیکن ہر چیز مثبت نہیں، امن کی راہ میں جگہ جگہ غلط فہمیوں اور بداعتمادی کی بارودی سرنگیں نصب ہیں جو کسی بھی وقت امن کی کوششوں کو غارت کر سکتی ہیں۔ افغان رہنماؤں کو یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ امریکہ کی جانب سے امن کی کوششوں کے پیچھے تن تنہا صدر ٹرمپ کا ہاتھ ہے۔ ورنہ امریکی فوج، وزارت دفاع، وزارت خارجہ اور امریکی مقننہ کے فوجی انخلا پر شدید تحفظات رکھتے ہیں۔ خود صدر ٹرمپ کی ریپبلکن پارٹی کا قدامت پسند عنصر فوج کی واپسی کو پسپائی اور اعترافِ شکست قرار دے رہا ہے۔ ڈیموکریٹک پارٹی اور خاص طور سے جو بائیڈن اس انخلا کے سخت خلاف ہیں۔ افغانستان پر خوفناک بمباری اور ڈراونے ڈرون حملے صدر اوباما کا کارنامہ تھا جس کے نائب صدر کی حیثیت سے جو بائیڈن نے مکمل حمایت کی تھی۔ ایبٹ آباد میں اسامہ کی ہلاکت بھی صدر اوباما اور جو بائیڈن کا مشترکہ انتخابی ڈرامہ تھا۔
افغان سیاست پر نظر رکھنے والے ماہرین کا خیال ہے کہ کابل حکومت کی پہلی ترجیح مستقل جنگ بندی اور عبوری بندوبست کے لیے شرکت اقتدار کے ایک متفقہ فارمولے پر اتفاق ہے لیکن طالبان اسلامی افغانستان پر اصرار کر رہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ مولوی عبدالحکیم اس ضمن میں ریاست کے بنیادی خد وخال اور پاکستان کی قرارداد مقاصد کی طرز پر ایک دستاویز بھی تیار کر چکے ہیں جسے مذاکرات میں پیش کیا جائے گا۔ اسلامی افغانستان پر اتفاق رائے سے پہلے جنگ بندی پر طالبان کی آمادگی مشکل نظر آ رہی ہے۔ اس مرحلے پر بنیادی اہمیت وقت کی ہے۔ یعنی کم وقت اور مقابلہ سخت۔ صدر ٹرمپ کے ضد کی حد تک سخت رویے کی بنا پر اشرف غنی اور افغان امن مخالفین اب تک کامیاب نہیں ہو سکے۔ ان لوگوں کے لیے امید کی آخری کرن امریکی انتخابات ہیں۔ اسی لیے ڈاکٹر اشرف غنی جنگی قیدیوں کی رہائی کے معاملے کو دیر تک ٹالتے رہے اور اب وہ اپنے لبرل و دین بیزار افغان حلیفوں سے مل کر اس بات کی پوری کوشش کریں گے کہ مذاکرات کو نومبر تک طول دیا جائے۔ اگر اس وقت تک سب کے لیے قابل قبول معاہدہ نہ ہوسکا اور صدر ٹرمپ انتخاب ہار گئے تو پھر یہ سارا معاملہ غتربود ہو سکتا ہے۔

اس مرحلے پر بنیادی اہمیت وقت کی ہے۔ یعنی کم وقت اور مقابلہ سخت۔ صدر ٹرمپ کے ضد کی حد تک سخت رویے کی بنا پر اشرف غنی اور افغان امن مخالفین اب تک کامیاب نہیں ہو سکے۔ ان لوگوں کے لیے امید کی آخری کرن امریکی انتخابات ہیں۔ اسی لیے ڈاکٹر اشرف غنی جنگی قیدیوں کی رہائی کے معاملے کو دیر تک ٹالتے رہے اور اب وہ اپنے لبرل و دین بیزار افغان حلیفوں سے مل کر اس بات کی پوری کوشش کریں گے کہ مذاکرات کو نومبر تک طول دیا جائے۔ اگر اس وقت تک سب کے لیے قابل قبول معاہدہ نہ ہوسکا اور صدر ٹرمپ انتخاب ہار گئے تو پھر یہ سارا معاملہ غتربود ہو سکتا ہے۔