افغانستان:مختلف ادوار کے سیاسی وسماجی حالات کے نمونے

تاریخ و ثقافت سے متعلق چندتاریخی کتابوں کا تعارف

مجتبیٰ فاروق، حیدرآباد

تاریخ قوم کی امانت ہوتی ہے اور اسی پر قوموں کے مستقبل اور تشخص کی عمارت کھڑی ہوتی ہے ۔کسی قوم کی تاریخ جتنی محفوظ اور مستحکم ہوگی وہ قوم اتنا ہی آگے بڑھے گی ۔جس قوم نےاپنی تاریخ کے ساتھ لاپروائی کا معاملہ کیا ہے ان کوبڑے سخت مراحل کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔تاریخ مستقبل کا پیش خیمہ ہوتی ہے اور اسی کی بنیاد پر کوئی قوم اپنے ملک وطن اور اپنے اسلاف سے آگاہی حاصل کرتی ہے ۔
افغان قوم تاریخ انسانی میں ایک اہم قوم کی حیثیت سے مشہور ہیں اور ان کی اپنی ایک تاریخ اور پہچان ہے۔افغانستان کی آبادی زیادہ تر پشتونوں اور ان میں بھی زیادہ تر قبائلیوں پر مشتمل ہے ۔ سی آئی اے ورلڈ فیکٹ بک کے مطابق افغانستان کی آبادی جولائی 2011ء کے اعدادو شمار کے مطابق دو کروڑ 89 لاکھ 35 ہزار سے کچھ زیادہ تھی ۔ جس میں زیادہ تر 42 فیصد پشتون ہیں۔ جب کہ دوسری برادریاں ایرانی تاجک، ازبک آرمک اور دیگرمختلف اقوام پر مشتمل ہے۔زیر نظر مضمون میں افغانستان اور طالبان کی تاریخ اور افکار ونظریات اور ان کی سرگرمیوں پر مبنی چند کتب کا مختصر تعارف پیش کیا جارہا ہے :
تاریخ افغانستان از محمد اسماعیل ریحان
اس کتاب کی جلد اول دستیاب ہے جس میں قبل اسلام تا دور حاضر تک کی تاریخ رقم ہے ۔
افغانستان کی تاریخ پر یہ کتاب نہایت اہم ہے ۔اس کتاب کے بارے میں مصنف لکھتے ہیں کہ’ اس کتاب میں تاریخ اسلام کے ایک اہم باب کا تخصیصی جائزہ پیش کیا گیا ہے ۔ کتاب کی خصوصیت یہ ہے کہ قارئین کی فہم و استعداد کو پیش نظررکھتے ہوئے دلچسپ اور سبق آموز انداز میں تاریخی مراحل اور واقعات کو پیش کیا گیا ہے‘۔کتاب کی ایک اورخصوصت یہ ہے کہ مصنف نے ہر باب کے آخر میں متعلقہ حوالہ جاتی کتب کی فہرست کابھی اہتمام کیا ہے جس سے کتاب کی اہمیت میں اضافہ ہوا ہے۔کتاب میں افغانستان ماقبل از اسلام ، افغاستان اسلام کی روشنی میں، عباسی دور کا افغانستان، غزنوی ، غوری اور خوارزمی حکمراں اور تاتاریوں کا حملہ اور افغانستان کا دور زوال ، افغانستان کی خود مختار تحریکیں، نادر شاہ سے احمد شاہ ابدالی تک، فرنگیوں کی سازشیں ،طوائف الملوکی ،کٹھ پتلی حکمرانوں کا دور، برطانیہ کے خلاف جہاد اور دور حاضر میں سیاسی جدوجہد جیسے اہم عناوین شامل ہیں ۔
اس کتاب کے آغاز کے بارے میں مصنف لکھتے ہیں کہ ابتدامیں میرا ہدف صرف قریبی دو عشروں کی تاریخ مرتب کرنا تھا۔ اس سویت یونین کےخلاف جہاد اور طالبان کے اسلامی دور کو خصوصی اہمیت دینا میرامطمح نظر تھا مگر جب کام شروع کیا تومعلوم ہوا کہ افغانستان کا ہر دور اپنے سابقہ دور سے اس طرح بندھا ہوا ہے کہ اس سے صرف ِنظرممکن نہیں ہے ۔ویسے تو ہر قوم اپنے ماضی کی اسیر ہوتی ہے مگر اپنی اسلامی تاریخ اور روایات سے جس قدر مضبوط رشتہ افغانوں میں دیکھا جاتا ہے ،دنیا کی کوئی قوم اس کی مثال پیش نہیں کر سکتی‘ یہی وہ بنیادی وجہ ہے جس پر مصنف نےپوری افغانستان کی تاریخ کو قلم بند کرنے کا بیڑا اٹھایا تھا۔اس کتاب میں افغانستان کے ہر دور کی تاریخ کا احاطہ کیا گیا ہے ۔افغانستان کے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں اس کتاب کا مطالعہ قارئین کے لیے نہایت دلچسپی کا باعث ہو گا۔
میں نے کابل بستے دیکھا ۔از محمود مقصود احمد
زیرنظر کتاب ایک تجرباتی دستاویز ہے اور اس میں مصنف نے افغانستان کی صورت حال اور طالبان کے کردارکا تفصیلی جائزہ لیا ہے ۔یہ کتاب بارہ ابواب پر مشتمل ہے جن میں افغانستان تاریخ کے آئینے میں، طالبان کون تھے ،طالبان اوراسلام ،طالبان اور حقوق نسواں ،میں نے کابل بستے دیکھا ،طالبان اور منشیات، اقوام متحدہ ، طالبان کیسے آئے اور طالبان کے بعد جیسے ابواب قابل ذکر ہیں ۔
محمود مقصود خواتین کے حقوق کے بارے میں لکھتے ہیں کہ جن انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے حوالے سے طالبان موردِ الزام ٹھیراتے جاتےرہے ہیں ،ان میں سب سے اہم اور نمایاں الزام حقوق نسواں سے متعلق ہے۔طالبان کےمنظر پر آنے سے لے کر ان کے پس منظر میں جانےتک مغربی ممالک اوران کے ترجمان ذرائع ابلاغ پوری شدت،تسلسل اور مبالغے کے ساتھ پروپیگنڈا کرتے رہے کہ طالبان نے عورتوں پر ظلم وستم کیا ہے ،انہیں گھروں میں قید کر دیا ہے ،انہیں برقعہ اوڑھنے پر مجبورکیا ہے ،ان سے تعلیم اور ملازمت کا حق چھین لیاہے وغیرہ ۔۔طالبان کے خلاف ان مغربی الزامات کی حقیقت کیاہے اور وہ کتنے غلط ہیں؟
وہ مزید لکھتے ہیں کہ طالبان نے افغانستان میں عورتوں کے لیے جو قوانین اور پالیسیاں نافذ کیں ،ان کے کیسے خوش گوار اثرات مرتب ہوئے اس امر کا اندازہ طالبان کے جانے کے بعد افغان خواتین کی تشویشناک صورت حال سے بھی لگایا جاسکتا ہے ۔

ان سوالات کے جوابات کے ساتھ کسی قدر تفصیل کے ساتھ ماضی کے واقعات، حال کے تقاضوں اور مستقبل کے خدشات کا بھرپور جائزہ لیا ہے اور ان تمام خدشات کامدلل جواب بھی دیا ہے ۔
سفر نامہ افغانستان از سید سلیمان ندوی
افغانستان کی علمی وادبی تاریخ پر ایک کتاب علامہ سید سلیمان ندوی نے تحریر کی ہے ۔یہ دراصل ایک سفرنامہ ہے جو انہوں نے 1933ء میں نادر شاہ کی دعوت پر کیا تھا۔وہ کے اس شاہی سفر کے رفقاء علامہ اقبال اور سر راس مسعود تھے ۔ سید سلیمان ندوی نے اس سفرنامہ میں افغانستان کی قومی و علمی تاریخ ،مدارس اور علماء کی حالت زار ، میوزیم ، مقابر ، اساطین ادبیات فارسی ، فرخی ، کشور کشاہان ہند محمود غزنوی ، بابر ، تیمور کا بھی تذکرہ کیا ہے اور بعض مؤرخین وتذکرہ نویسوں کی غلط بیانیوں پر محاکمہ بھی کیا ہے ۔
یہ سفر نامہ 156صفحات پر مشتمل ہے اور اس کو دار المصنفین اعظم گڑھ نے شائع کیا ہے۔
معروف صحافی سلیم شہزاد نے Inside Al-Qaeda and the Taliban: Beyond Bin Laden and 9/11 کے عنوان سے کتاب لکھی جو کافی مقبول ہوئی ۔اس کتاب میں افغانستان پر امریکی حملے یعنی 2001ء سے لے کر 2011ء تک کی سرگرمیوں پر نہایت گہرا اور محققانہ تجزیہ کیا گیا ہے ۔یہ کتاب آٹھ ابواب پر مشتمل ہے اور اس میں ہر باب کافی اہمت کا حامل ہے ۔مترجم نے اس کتاب کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ کتاب دراصل القاعدہ، طالبان، افغانستان اور پاکستان میں دوری، تحریکات کے آپسی تعلقات، امریکہ اور اس کے اتحادیوں بشمول پاک افواج سے ان کی کشمکش پر ایک لاجواب تصنیف ہے ۔اس کا اردو ترجمہ ارسلان احمد نے ’’ داستانِ القاعدہ اور طالبان 9/11اور بن لادن سے پہلے ‘‘کے عنوان سے کیا۔
Taliban Narratives: The Use and Power of Stories in the Afghanistan Conflict
مغربی مصنف اور کیلفورنیا سے وابستہ ایک پروفیسر اور محقق تھامس ایچ۔ جانسن نے تحقیقی انداز کی ایک کتاب تیار کی ۔اس کتاب کا نام
Taliban Narratives: The Use and Power of Stories in the Afghanistan Conflict
ہے ۔اس کتاب میں انہوں نے طالبان تحریک کی سرگرمیوں اور اور ان کے نظریات پر کئی زاویوں سے روشنی ڈالی ۔اس کتاب مین پروفیسر تھامسن نے بنیادی طور پر ایک ایک سوال کا جواب دیا اور وہ سوال یہ ہے :
Why the Taliban have been much more effecient and effective in presenting messages that resonate with the Afgan population than have the united states , the Afgan Govt. and Allies .” (P: 2)
یہ کتاب لندن سے 2018ء میں شائع ہوئی اور یہ 336صفحات پر مشتمل ہے۔حالیہ تناظر میں یہ کتاب بھی کئی پہلوؤں پر روشنی ڈالتی ہے ۔اگرچہ اس میں مغربی اثرات غالب ہیں۔
افغانستان: ملا عمر سے اشرف غنی تک۔ از سید ابرار حسین
زیر نظر کتاب دراصل سید ابرار حسین کے سفارت کاری کے تجربات اور مشاہدات پر مبنی ہے۔اس میں زیادہ تر تفصیلات First Hand ذرائع سے اخذ کی گئی ہیں ۔یہ پوری کتاب سید ابرار حسین کےتجربات اور مشاہدات کا مجموعہ ہے۔ انہوں نے اس میں نہ صرف ملا عمر کے عہد کے حالات واقعات اور مشاہدات بلکہ اشرف غنی کے زمانے کی صورت حال اور واقعات بھی بیان کیے ہیں ۔ پاک افغان تعلقات پر بھی روشنی ڈالی ہے ۔مصنف نے کتاب کے آخر میں پاک افغان تعلقات کی بہتری کےلیے ایک قابل قدر لائحہ عمل تجویز کیا ہے جو نہایت قابل قابل غور ہے ۔ یہ تجاویز دونوں ممالک کے امن وامان کے لیے کافی مؤثر ثابت ہوسکتے ہیں ۔
یہ کتاب گزشتہ سال شائع ہوئی اور یہ 260 صفحات پر مشتمل ہے ۔موجودہ حالات کے پس منظر میں یہ کتاب بھی کافی اہمیت کی حامل ہے ۔
حیات اللہ نے مقدس جنگ کے عنوان سے ایک کتاب لکھی۔ سرزمین خراسان میں متحدہ صلیبی افواج کے خلاف جو جنگ لڑی گئی اور اسی کی داستان حیات اللہ نے تیار کی اور پھر ڈاکٹر خالد اصغر شیخ نے اس کو مرتب کیا ۔یہ کتاب دراصل افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج سے برسر پیکار ایک عظیم مجاہدکی داستان ہے ۔یہ مکتبہ شاہ اسماعیل لاہور سے شائع ہوئی ۔
ملا عبد السلام ضعیف نے پشتو زبان میں طالبان کے بارے میں کتاب لکھی ۔یہ کتاب اصل میں ان کی سوانح حیات ہے ۔ یہ کتاب طالبان کے افکار، نظریات اور بیانات پر مبنی ہے۔اس میں انہوں نے افغانستان کی کشیدہ صورت حال پر گفتگو کی ہے ۔اس کتاب کا انگریزی ترجمہ My life with the Taliban کے عنوان سے کیا گیا ہے ۔یہ کتاب 360صفحات پر مشتمل ہے اور انگریزی والا ایڈیشن 2011 میں شائع کیا گیا ہے ۔افغانستان کی تاریخ پر ایک اور کتاب تھامس برفیلڈ کی ہے اور اس کانام Afganistan Cultural and Political History ہے ۔ اس کتاب میں افغانستان کی سیاسی صورت حال اور مختلف Conflicts کا تجزیہ کیا گیا ہے ۔یہ کتاب چھ ابواب پر مشتمل ہے اور اس کو معروف اشاعتی ادارہ پرسٹن یونیورسٹی پریس نے2010میں شائع کیا ہے ۔
( مضمون نگار مولانا ابوالکلام آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں تحقیقی کام سے وابستہ ہیں )
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 29 اگست تا 4 ستمبر 2021