اصل کیجریوال کا ظہور

حق یا ناحق سے قطع نظر اکثریتی رائے کی مخالفت سے گریز!

ورگیز کے جارج (ایسوسی ایٹ ایڈیٹر روزنامہ دی ہندو)
ترجمہ: نایاب حسن

 

پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش کے مظلوم ہندو، سکھ، جین، بدھ، پارسی اور عیسائیوں کو شہریت دینے کے لیے ہندوستان کی طرف سے پچھلے سال نافذ کردہ شہریت (ترمیمی) ایکٹ (سی اے اے) پر تنقید سے دو مخالف نظریے سامنے آئے ہیں۔ ایک تو اس ملک کے آزاد خیال طبقہ کی طرف سے جو اس قانون کو ایک مخصوص طبقے کو خارج کرنے والا مانتا ہے، جبکہ وطن پرستوں کی نظر میں یہ نہایت شمولیاتی ہے۔ عام آدمی پارٹی (عآپ) کے بانی اور دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کی سی اے اے کی مخالفت اسی دوسرے نظریے کے دائرے میں آتی ہے۔ ہندو ہو یا مسلمان، مظلوم و مقہور ہو یا نہ ہو، پاکستانی ہویا سری لنکن، کسی کو بھی ہندوستان آنے کی اجازت کیوں ہونی چاہیے؟ انہوں نے مارچ میں دہلی اسمبلی میں کہا تھا: ”میں سمجھتا ہوں کہ یہ قانون پاکستانی ہندووں کے حق میں ہے اور ہندوستانی ہندووں کے خلاف ہے“۔ جنوری میں انہوں نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا: ”اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ پاکستان اپنے جاسوسوں کو ہندو بنا کر یہاں نہیں بھیجے گا؟“۔ ان کا کہنا تھا کہ دہلی کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے ان کی ذمہ داری صرف اپنے عوام کی فلاح وبہبود ہے۔ حال ہی میں ان کے اس فیصلے کو دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر نے مسترد کر دیا ہے، جس میں COVID-19 کے علاج کے معاملے میں نجی اور ریاستی حکومت کے تحت چلنے والے اسپتالوں کی خدمات صرف شہر کے اُن باشندوں تک محدود کرنے کی بات کی گئی تھی جن کے پاس دلّی کی سکونت ثابت کرنے کے مطلوبہ دستاویزات ہوں۔گویا انہوں نے اپنے متعارف موقف کے مطابق یہ فیصلہ کیا تھا، یعنی جس طرح ہندوستان صرف ہندوستانیوں کے لیے ہونا چاہیے اسی طرح دلّی صرف دلّی والوں کے لیے ہونی چاہیے۔ مسٹر کجریوال کی دلّی میں لگاتار تین بار جیت سے غیر نظریاتی سیاست کے ایک نئے ماڈل کی امید پیدا ہو گئی تھی، جو ممکنہ طور پرموروثی جماعتوں کے تحرکات اور حکمت عملیوں کو بدل سکتی تھی۔ طبقے، ذات پات اور مذہب سے قطع نظر انہیں حاصل ہونے والی عوامی حمایت سے یہ امید جاگی تھی۔ مگر یہ نمائندگی اور بااختیار بنانے کی سیاست نہیں تھی بلکہ کنزیومر شہریوں کے لیے نظم وانتظام اور کارکردگی کی سیاست تھی۔ ان کے سیاسی تصور کے مطابق مسٹر کجریوال ایک آن لائن بازار کے قابل اعتماد ڈلیوری بوائے بن گئے۔ دلی میں عوامی خدمات عام آدمی پارٹی (عآپ) کے دور حکومت میں بہتر ہوگئیں یا پھر اس وقت تک ایسا لگ رہا تھا، جب تک کہ کورونا کی وبا نہیں پھیلی تھی۔
غیر سیاسی ہونے کا دعویٰ، پس پردہ حقیقت:
عام آدمی پارٹی غیر سیاسی ہونے (apoliticism) کا ایک بودا دعویٰ کرتی رہی ہے کیوں کہ قوم پرستی اور مہاجر دشمنی بھی ایک سیاست ہے اور شہریوں کو خدمات کی پیش کش بھی ہندو علامتوں کے غلاف میں لپیٹ کر کی گئی ہے۔ ہندو علامتوں کی توسیع آج کی ہندوستانی سیاست میں عالمگیریت کے قریب قریب پہنچ چکی ہے اور مسٹر کیجریوال نے انہیں دہلی اسمبلی الیکشن ۲۰۲۰ میں بڑی مہارت سے استعمال کیا۔ وہ سی اے اے پر گول مول موقف اور پاکستان مخالف ووٹرز کو لبھاکر نکل جاتے، مگر بی جے پی کے جارحانہ اقدامات نے کیجریوال کا توازن بگاڑ دیا۔ دہلی شہر کے ان ووٹرز کے سامنے مبہم موقف کے ساتھ سامنے آنا کافی نہیں تھا جنہوں نے کیجریوال کو لگاتار تین بار کامیاب کروانے کے دورانیے میں ہی مسلسل دوبار ہندوتو کے ایشو پر ووٹ دیا تھا۔ اس کے جواب میں کیجریوال نے جموں وکشمیر کے خصوصی اسٹیٹس کو سلب کیے جانے کی تائید کی حالاں کہ وہ خود دہلی کو مکمل ریاست قرار دیے جانے کی مانگ کرتے رہے ہیں۔ جب جے این یو کیمپس میں مسلح غنڈے گھس گئے اور طلبہ وطالبات کی پٹائی کی تو کیجریوال نے سرد مہری کا مظاہرہ کیا تھا۔ اسی طرح جب فروری میں دہلی میں فساد برپا ہوا اور پچاسوں جانیں ضائع ہوئیں تو اس دوران بھی کیجریوال محض بکواس کرتے رہے۔
عام آدمی پارٹی نے 2020 کے اسمبلی الیکشن کے انتخابی منشور میں یہ وعدہ کیا کہ اسکولوں میں قوم پرستی کا خصوصی کورس متعارف کروائے گی اور طلبہ کے دل ودماغ میں افواج کے تئیں احترام وتقدیس کا جذبہ پیدا کرے گی۔ جب کورونا وائرس کی وجہ سے ہندوستان بھر میں لاک ڈاؤن شروع ہوا تو کیجریوال نے اعلان کیا کہ اس دوران وہ اور ان کی بیوی بھگوت گیتا پڑھیں گے، انہوں نے اور لوگوں سے بھی ایسا کرنے کی اپیل کی۔
اب تک کا ریکارڈ:
زمینی سطح کے کارکنان، لبرل دانشور اور بائیں محاذ کی طرف جھکاؤ رکھنے والے لوگ جنہوں نے کیجریوال کو سپورٹ کیا تھا وہ بہت جلد ان سے بد دل ہو گئے، پھر انہیں جلد ہی پارٹی سے صاف کر دیا گیا۔ حال ہی میں آر ایس ایس پر شائع ہونے والی ایک کتاب میں لکھا گیا ہے کہ عام آدمی پارٹی کی جنم داتا ”انڈیا اگینسٹ کرپشن“ تحریک کے عوامی اثرات سے سنگھ سربراہ موہن بھاگوت جزبز
ہوگئے تھے۔ یہ تحریک دیگر بہت سی غیر سیاسی جماعتوں سے لے کر آر ایس ایس تک کی ایک غیر متنازع بھیڑ تھی، جبکہ عام آدمی پارٹی کا ظہور مزاج ونہاد میں اکثریت پسند اور عملی اعتبار سے ڈکٹیٹر کے طور پر ہوا۔ مسٹر کیجریوال نے ایک ایسا سیاسی کاکٹیل پیش کیا جس کا اقتصادی نظریہ تو بائیں بازو والاہے جبکہ اس کا ثقافتی رنگ وروپ دائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھتا ہے جو مارکیٹ کے عام چلن کے خلاف ہے۔ اس سال وزیر اعلیٰ کے طور پر حلف برداری کے وقت انہوں نے کہا تھا ”کچھ لوگ کہتے ہیں کہ کیجریوال ہر چیز مفت کر رہا ہے۔ ہر قیمتی چیز مفت ہے، ایک ماں کا پیار بچے کے لیے مفت ہے، اسی طرح ایک باپ اپنے بچے کو تعلیم دینے کے لیے خود بھوکا رہتا ہے اور ایسا وہ مفت میں کرتا ہے۔کیجریوال دہلی کے لوگوں سے پیار کرتا ہے اور دہلی کے لوگ بھی اس سے پیار کرتے ہیں، یہ پیار بھی مفت ہے“۔ وہ ان لوگوں کے احساسات کو جِلا بخش سکتے تھے جو مارکیٹ کے ذریعے اپنے حقوق سے محروم کیے گئے اور جن پر ظلم کیا گیا مگر انہیں اب اپنے حال پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ کیجریوال نے خود کو ایک مشکل ریاست کے مضبوط لیڈر کے طور پر پیش کیا۔ کچھ دن تک خاموش رہنے کے بعد ان کی حکومت نے جے این یو طلبہ پر بغاوت کے الزام کی تائید کر دی۔ با شعور اور حساس لوگوں کے ایک طبقے کے مابین پرائیویسی بہت ہی اہم معاملہ ہے، مگر کیجریوال دہلی کے لوگوں کی نگرانی بڑھانے کو فخریہ انداز میں بیان کرتے ہیں اور اس بنیاد پر ووٹ بھی بٹورتے ہیں۔ شہر کے سرکاری اسکول ایک ایسا تکنالوجیکل آلہ تیار کر رہے ہیں جس کی مدد سے بچوں کے والدین اپنے وارڈز کو کسی بھی وقت دیکھ سکتے ہیں۔ کیجریوال تواضع وبے نفسی کا دکھاوا کرتے اور یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ لوگوں کی بات سنتے ہیں، حالاں کہ فی الحقیقت عوام اور لیڈر کے درمیان کوئی رابطہ نہیں ہے۔ کوئی کابینہ، کوئی میڈیا سوال نہیں پوچھ سکتا۔دہلی سے باہر والوں کو دہلی کے اسپتالوں سے باہر رکھنے کا فیصلہ مسٹر کیجریوال کے مطابق ایک ڈیجیٹل پولنگ کے بعد کیا گیا تھا، جس میں نوے فیصد لوگوں نے اس کی تائید کی تھی، یعنی عوام خود ہی ایک دوسرے کے خلاف ہو گئے۔ قابل ذکر ہے کہ دہلی کابینہ میں ایک بھی خاتون نہیں ہے، حالاں کہ عام آدمی پارٹی جنسی ہراسانی کے کئی معاملوں میں سزائے موت کا مطالبہ کرتی رہی ہے۔ دہلی حکومت کے ذریعے رحمِ مادر میں قتل کی جانے والی بچی کے تعلق سے جاری کردہ اشتہار خواتین کو با اختیار بنانے کے تعلق سے مسٹر کیجریوال کے نظریے کو بیان کرتا ہے ”میں ایک بچی ہوں، رحمِ مادر سے بول رہی ہوں“۔ ایک بچی کی ڈرامائی آواز سے اس کی شروعات ہوتی ہے، جو اپنی زندگی کی بھیک مانگ رہی ہے۔ اس کے بعد کیجریوال کی آواز سننے میں آتی ہے ”میں پیدا نہ ہو پانے والی ایسی لاکھوں بچیوں کے حق میں بول رہا ہوں، یہ بچیاں کسی کی ماں، کسی کی بیٹی، کسی کی بہو، کسی کی بیوی بن کر پلیں گی بڑھیں گی اور یہی بچیاں ہماری قوم کی کلپنا چاؤلا،ثانیہ مرزا، پی ٹی اوشا بنیں گی اور قوم کا نام روشن کریں گی“۔ اس سے قوم کی ترقی میں خواتین کے کردار کی نوعیت کے تئیں کیجریوال کے نظریے کی بہت حد تک وضاحت ہو جاتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ بہت سے دانشور بشمول تحریکِ نسواں سے وابستہ افراد ان کی اس قسم کی پوزیشن کو پسند نہ کریں، مگر کیجریوال کو ان کی ضرورت نہیں ہے۔ اکثریت کی رائے پر سوال اٹھانا سیاست میں اچھی بات نہیں سمجھی جاتی۔ مثلاً مرکزی سیاسی دھارے سے تعلق رکھنے والی جماعت اور لیڈروں میں سے کانگریس کے راہل گاندھی کے علاوہ کسی بھی لیڈر نے مودی حکومت کی کشمیر پالیسی پر سوال نہیں کھڑے کیے ہوں گے، کسی نے ان کی بات پر دھیان بھی نہیں دیا۔ کیجریوال کے نائب سسودیا نے سی اے اے کے خلاف مظاہرین کے تئیں ہلکی سی ہمدردی کا اظہار کیا اور اس کے نتیجے میں وہ اپنی سیٹ گنواتے گنواتے بچے، وہ اب بھی حکومت کے شعبۂ تعلیم کے انچارج ہیں، جو بظاہر اچھا کام کر رہا ہے۔بہت سے لوگوں نے کیجریوال کو وزیر اعظم مودی کا متبادل سمجھا تھا۔ ہوسکتا ہے وہ اب بھی اپنے آپ کو ان کا جانشین سمجھتے ہوں اور اگر واقعی ایسا ہوتا ہے تو وہ ہندوتو کو چیلنج کرنے کے ذریعے نہیں ہو گا اور جہاں تک ان کے گڈ گورننس کے دعوے کی بات ہے تو اس کی اصل اور پہلی حقیقی آزمائش تو اب ہو رہی ہے، جبکہ شہر دہلی اور حکومتِ دہلی لاک ڈاؤن سے باہر نکلی ہے، شہر بھر کا ہیلتھ کیئر سسٹم چرمراتا جا رہا ہے اور کورونا کے کیسز میں روز بروز کئی گنا اضافہ ہو رہا ہے۔
(یہ مضمون 15/جون کو روزنامہ دی ہندو میں شائع ہوا ہے)
***

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 20 جون تا 26 جون 2021