اسرائیل میں تبدیلی سرکار سے فلسطینیوں کو راحت نہیں

رعد پارٹی نے کیا ’کم تر برائی‘کا انتخاب۔ کمزور حمایت پر ٹکی نیفتالی حکومت

مسعود ابدالی

 

اتوار 13جون کی شام اسرائیل میں تبدیلی سرکار یا Change Of Government نے اس شان سے حلف اٹھایا کہ 49 سالہ نامزد وزیر اعظم نیفتالی بینیٹ کو رائے شماری تک اپنے وزیر اعظم بننے کا یقین ہی نہ تھا۔ برسرِ اقتدار اتحاد معتدل اور بزعم خود لبرل، مستقبل پارٹی، سیکولر قوم پرست نیلے اور سفید یا B&W اتحاد، دائیں بازو کی قدامت پسند یمینہ (دایاں بازو)، بائیں بازو کی لیبر پارٹی، قوم پرست اسرائیل مادرِ وطن پارٹی، قدامت پسند امیدِ نو پارٹی، سیکولر امیرٹس پارٹی اور اخوانی فکر سے وابستہ رعم پارٹی پر مشتمل ہے۔
قارئین کی دلچسپی کے لیے پیش ہے رعم کا ایک مختصر تعارف۔
اس جماعت کا اصل نام رعد یا کڑک ہے جسکا عبرانی تلفظ رعم بن گیا۔ مشہور اخوانی عالم ودانشور عبداللہ نمر درویش نے فلسطین 48 اسلامی تحریک کی بنیاد رکھی۔ نام کے ساتھ 48لگانے کا مقصد اس عزم کا اظہار تھا کہ وہ فلسطینی جغرافیہ میں 1948کے بعد آنے والی کسی تبدیلی کو تسلیم نہیں کرتے۔ نابلوس سے تعلق رکھنے والے اس درویش کی عمر اس وقت صرف 23 برس تھی اور موصوف اس سے پہلے کئی برس اسرائیلی جیلوں میں گزار چکے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب تحریکِ آزادیِ فلسطین یا پی ایل او بہت مقبول تھی۔ پی ایل او کے قائد یاسر عرفات اور تنظیم کی ساری قیادت سیاسی اعتبار سے سیکولر خیالات کی حامل تھی۔ ان حالات میں شیخ درویش نے آزادی برائے اقامتِ دین کا تصور پیش کیا اور جنوبی فلسطین کے صحرائی علاقے النقب (عبرانی تلفظ Negev) میں یہ تحریک بہت مقبول ہو گئی۔ اس علاقے میں آباد فلسطینیوں کو صحرا کے حوالے سے بدو کہا جاتا ہے۔ خلیج عقبہ کے شمال میں واقعہ یہ صحرا اب ایک جدید شہر میں تبدیل ہو گیا ہے اور خلیج عقبہ کے ساحل پر فیشن ایبل فائیو اسٹار ہوٹل، مئے خانے اور عشرت کدوں کو دیکھ کر یہ اندازہ کرنا مشکل ہے کہ 1948 تک یہ لق و دق صحرا تھا۔ اسرائیل کے قیام سے پہلے یہاں عربوں کی اکثریت تھی لیکن جبری قبضہ و آبادکاری کی بنا پر عرب آبادی اب سکڑ کر 25 فیصد رہ گئی ہے۔ ترک خلافت کے دوران یہاں کا سب سے بڑا شہر بئر السبع (سات کنویں) آباد ہوا جو بیر شیبہ Beersheeba کہلاتا ہے۔ روایت کے مطابق یہاں صحرا میں پانی جیسی عظیم الشان نعمت کا ذکر کر کے حضرت ابراہیمؑ خدائے واحد کی عبادت کی دعوت دیتے تھے اور یہاں کنووں پر ’نو مسلم‘ اللہ اور صرف اللہ سے وفاداری کا حلف اٹھاتے تھے۔ اپنے عظیم المرتبت والد کے اتباع میں انکے جلیل القدر صاحبزادے حضرت اسحٰقؑ کنووں کی منڈیر سے وعظ ارشاد فرماتے اور پانی عطا کرنے والے رب کی اطاعت کی دعوت دیتے۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ مشرکین نے ’پانی دیوتا‘ کی عبادت شروع کر دی تھی جس کی نفی کے لیے حضرت اسحٰقؑ ان کنووں پر اللہ کی توحید بیان کرتے اور یہیں لوگوں سے توحید کا حلف لیتے۔ عبرانی زبان میں حلف، کنویں اور سات تینوں کے لیے لفظ Sheva (شبع) استعمال ہوتا ہے۔ ترک ماہرین آثار قدیمہ نے ساتوں کنویں تلاش کر لیے تھے لیکن برطانوی دور میں سپاہیوں کی آمدو رفت کے لیے سڑکوں کی تعمیر کے دوران اکثر کنویں ملیا میٹ ہوگئے۔
اس علاقے میں ترک عثمانیوں نے مساجد، مدارس اور خانقاہیں تعمیر کیں اور ایک دور میں النقب خاص طور سے بئرالسبع اسلامی تعلیم کا بہت بڑا مرکز تھا۔ اس زمانے میں دینی و دنیاوی تعلیم میں کوئی فرق نہ تھا اور ان مدارس میں تحفیظ قرآن و شرعی علوم کے ساتھ لسانیات، جغرافیہ اور علوم فلکیات بھی پڑھائے جاتے تھے۔ اسرائیل کا سب سے بڑا تعلیمی ادارہ جامعہ بن گوریان النقب، بئرالشیبہ ہی میں ہے جہاں ایک چوتھائی سے زیادہ فلسطینی طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ تاہم جوہری طبعیات، Advanced Mathematic اور فلکیات کے شعبہ جات میں عربوں کا داخلہ ممنوع ہے۔ ان علوم کی تعلیم کے لیے یہاں کے طلبہ جامعہ اسلامیہ غزہ جایا کرتے تھے جسے گزشتہ دنوں اسرائیلی بمباروں نے پیوندِ خاک کردیا۔
اسلامی تحریک النقب کے ’بدووں‘ میں بہت مقبول ہوئی، خصوصاً بئرالشیبہ اور اس کے مضافات میں تحریک نے رفاحی کاموں کا جال بچھا دیا اور جگہ جگہ اسکول، دواخانے اور فنی تعلیم کے مراکز قائم ہو گئے۔ اسرائیلی حکومت کی توجہ جنوب میں ساحلی علاقوں کی ترقی پر تھی جہاں سیاحوں کے لیے ہوٹل اور دوسری سہولیات کا انتظام کیا جارہا تھا۔
اسی دوران جنوبی النقب کے ارکان نے اسرائیلی انتخابات میں حصہ لینے کی تجویز پیش کی۔ اس قرارداد نے تحریک کو تقسیم کر دیا۔ شمالی النقب کے ارکان نے انتخابی سیاست میں حصہ لینے کی شدید مخالفت کی۔ تحریک کے امیر ابراہیم سرسور کا موقف تھا کہ متناسب نمائندگی کے نظام کا فائدہ اٹھا کر عرب اور مسلمان، کنیسہ کی پچیس فیصد نشستیں جیت سکتے ہیں اور پارلیمان میں اتنی بڑی قوت کی حامل پارلیمانی پارٹی کو نظر انداز کر دینا کسی کے لیے ممکن نہ ہوگا۔ تاہم اس معاملے پر اتفاق رائے پیدا نہ ہوسکا اور معاملہ اس حد تک بڑھا کہ تحریک شمالی اور جنوبی شاخ میں تبدیل ہو گئی۔انتخاب میں حصہ لینے کے حامیوں نے جنوبی شاخ کے نام سے تل ابیب کے مضافاتی علاقے کفر قاسم نامی دیہات میں اپنا مرکز قائم کر لیا جبکہ شمالی شاخ نے بئرالشیبہ کے مرکز سے دعوتی کام جاری رکھا۔
جنوبی شاخ نے 1996میں سیاسی طور پر پہلے سے سرگرم عرب تنظیم، قائمہ المشترکہ یا Joint List کے پلیٹ فارم سے انتخاب میں حصہ لینا شروع کیا۔ تناسبِ آبادی کی بنیاد پر ایک چوتھائی کنیسہ کی توقع کرنے والوں کو پہلا ذہنی دھکا اس وقت لگا جب ’عرب شہریوں‘ میں ووٹر رجسٹریشن کی مہم شروع کی گئی۔ اسرائیل قانون کے تحت 1967 کے بعد ہتھیائے گئے علاقے کے لوگ قانونی طور پر ’مہاجر‘ سمجھے جاتے ہیں جو اسرائیلی شہریت کے حقدار نہیں لیکن قیام اسرائیل یعنی 1947کے وقت جو عرب، یروشلم، اس کے مضافات، النقبہ، حیفہ اور دوسرے علاقوں میں آباد تھے انہیں اسرائیلی شہری تسلیم کر لیا گیا۔ اسرائیل کی کل آبادی میں ایسے عربوں کا تناسب 25فیصد کے قریب ہے جن میں 21فیصد مسلمان اور باقی ماندہ 4فیصد مسیحی ہیں۔ اسی بنا پر تحریک اسلامی کی شمالی شاخ اپنی کامیابی کے لیے بے حد پر امید تھی۔ لیکن ووٹر رجسٹریشن پر درج معلومات کی بنا پر سینکڑوں فلسطینی دہشت گردی کے الزام میں دھر لیے گئے۔ اسرائیل میں یہ قانون نافذ ہے کہ معصوم بچے سمیت گھر کے کسی شخص پر بھی دہشت گردی کا الزام ثابت ہو جانے کی صورت میں اس کا گھر مسمار کر کے زمین نیلام کر دی جاتی ہے۔ قانون کے مطابق پولیس افسر کو گھور کر دیکھنا بھی دہشت گردی ہے۔ ووٹر رجسٹریشن کے فارم پر گھر کے ہر فرد کی معلومات درج کرنا ضروری ہے جس کی تفصیلی چھان بین کے بعد ووٹر فہرست میں اندراج ہوتا ہے۔ چھان بین کے اس سخت اور متعصب نظام کے خوف سے نصف کے قریب عرب بطور ووٹر رجسٹر ہی نہیں ہوتے۔ انتخابات کے دن عرب علاقوں کی نگرانی سخت کر دی جاتی ہے۔ ’دہشت گردوں‘ کی جانب سے جمہوری عمل میں متوقع رکاوٹ کے سدباب کے لیے مسلم علاقوں میں چھاپے اور پکڑ دھکڑ کا بازار گرم رہتا ہے۔ انتخابی مراکز کی نگرانی کے لیے پولنگ بوتھ کے اندر کیمرے نصب ہیں۔ انتہاپسند اور قدامت پسندوں کی جانب سے مسلمان ووٹروں کو دھمکیاں بھی دی جاتی ہیں، چنانچہ عرب اور خاص طور سے مسلم علاقوں میں ووٹ ڈالنے کا رجحان خاصہ کم رہتا ہے۔ اس بار بھی پورے اسرائیل میں ووٹ ڈالنے کا تناسب ساڑھے 67 فیصد رہا لیکن عرب علاقوں میں 35فیصد سے کم ووٹ ڈالے گئے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی انتخابات میں جوائنٹ لسٹ کو 13فیصد سے زیادہ ووٹ نہیں مل سکے۔ اختلافات کے باوجود شمالی اور جنوبی دھڑوں نے ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی سے پرہیز کیا۔ نومبر 2015میں اسرائیل نے حماس کی حمایت اور اخوان المسلمون سے وابستگی کا الزام لگا کر تحریک اسلامی شمالی برانچ پر پابندی لگا دی لیکن یہ کالعدم تحریک فلسطینی علاقوں میں پوری طرح سرگرم ہے۔ اس کے مرشدِ عام (امیر) شیخ رائد صلاح حیفہ کے سب سے بڑے شہر ام الفحم کے رئیسِ شہر رہ چکے ہیں۔ جامعہ ہیبرون سے اسلامی شریعہ میں ایم اے کرنے والے 63 سالہ رائد صلاح کی زندگی کا بڑا حصہ جیل میں گزرا اور آج کل بھی شیخ صاحب پسِ دیوارِ زنداں ہیں۔
جنوبی دھڑے نے تحریک اور سیاسی سرگرمیوں کے لیے علیحدہ نظم قائم کر رکھا ہے۔ تحریک کے ماہر جواں سال حماد ابودعابس اور سیاسی ونگ یعنی رعم کے قائد منصور عباس ہیں۔ سیاسیات میں ایم اے منصور عباس ایک عالم دین بھی ہیں اور اختلافات کے باوجود شمالی دھڑے کے سربراہ شیخ رائد سے بات چیت چلتی رہتی ہے۔ جنوبی و شمالی دھڑوں کے امرا بھی رابطے میں ہیں اور اسی بنا پر متوازن بلکہ کسی حد تک لبرل سمجھے جانے والے جنوبی دھڑے کے امیر اپنے شمالی ہم منصب کے ساتھ دعوتی دروس میں شرکت کی بنا پر کئی بار جیل بھی ساتھ جا چکے ہیں۔
شاید بہت سے قارئین کو تحریک اسلامی فلسطین پر یہ تفصیلی گفتگو موضوع سے کچھ ہٹی ہوئی لگی ہو جس پر معذرت۔ لیکن ہمارا خیال ہے کہ مسلم دنیا کے نقطہ نظر سے اسرائیل کی داخلی سیاست پر سیر حاصل بحث کے لیے تحریک اسلامی فلسطین کے بارے میں بنیادی معلومات کسی حد تک ضروری ہیں اور شدید نظریاتی اختلافات کے باوجود تحریک کے دونوں دھڑے جس اعلیٰ ظرفی اور وسعتِ قلبی کا مظاہرہ کر رہے ہیں اسکا مشاہدہ و مطالعہ اختلافی مسائل میں اعتدال کی راہ تلاش کرنے والوں دانشوروں کے لیے مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ اب آتے ہیں حکومت سازی کی طرف۔ گزشتہ بدھ کو جب نامزد وزیر اعظم نیفتالی بینیٹ کی رہائش گاہ پر آٹھ جماعتوں کی پارلیمانی پارٹی کے مشترکہ اجلاس ہوا تو اس سے پہلے ہی نیفتالی کی یمینہ پارٹی کے ایک رکن بغاوت کا اعلان کر چکے تھے۔ دوسری طرف مذہبی عناصر اور سیاسی قدامت پسندوں نے آٹھ جماعتی اتحاد سے وابستہ خواتین ارکانِ کنیسہ کو ہراساں کرنے کی زبردست مہم شروع کر رکھی تھی جسکی بنا پر اکثر خواتین اجلاس سے غیر حاضر تھیں تاہم وہ فون پر نیفتالی کو اپنی وفاداری کا یقین دلا چکی تھیں۔ جب اجلاس کے اختتام پر نفری گِنی گئی تو جناب بینیٹ کو اعتماد کا یقین دلانےوالوں کی تعداد 61 تھی جو 120 کے ایوان میں حکومت سازی کے لیے کم سے کم تعداد ہے۔ ضابطے کے مطابق اتحاد کے قائد اور مستقبل پارٹی کے سربراہ یارلیپیڈ نے جمعہ کی شام کنیسہ کے اسپیکر کو سرکاری خط میں حامی ارکان کی تعداد کے ساتھ نامزد وزیراعظم اور انکی 9 خواتین سمیت 27 رکنی کابینہ کے نام بھیج دیے۔ اعتماد کے لیے کنیسہ کا اجلاس اتوار کو ہونا تھا۔ کابینہ کے لیے جو نام سامنے آئے اس پر رعم کو سخت مایوسی ہوئی کہ اس میں آٹھ رکنی اتحاد کی سات جماعتوں کو بھرپور نمائندگی حاصل ہے۔ ہر جماعت کو دو سے تین قلمدان سونپے جا رہےہیں لیکن رعم کو کابینہ سے دور رکھا گیا تھا۔ کچھ نام عربوں کے لیے سخت قابل اعتراض تھے جیسے
• وزارت دفاع بینی گینٹز کو سونپی جارہی ہے جنہیں فلسطینی قصابِ غزہ کہتے ہیں۔
• وزارت داخلہ کے لیے محترمہ ایلٹ شیکڈ کا انتخاب کیا گیا ہے جو شیخ الجراح کو ہر قیمت پر خالی کرانا چاہتی ہیں
• انتہائی قدامت پسند زیو ایلکن وزیر ہاوسنگ و تعمیرات ہوں گے۔ یہی وزارت فلسطینیوں کی زمینوں پر اسرائیلی بستیاں تعمیر کرنے کی ذمہ دار ہے۔ اسی کے ساتھ موصوف کو امور یروشلم بھی سونپا جارہا ہیں
• سراغ رسانی کے وزیر ایلزراسٹرن بھی سخت گیر سمجھے جاتے ہیں
• قبضے، المعروفSettlement کا قلمدان نیّر اوربش (Nir Orbach) کے پاس ہو گا۔ نیفتالی بینیٹ کے یہ قریبی ساتھی اس بات پر روٹھے ہوئے تھے کہ رعم کو اتحاد میں کیوں شامل کیا گیا ہے۔ انہیں خدشہ تھا کہ اسلام پسند نئی اسرائیلی بستیوں کا قیام رکوا دیں گے۔ اربش صاحب نے دھمکی دی کہ اگر اسرائیلی بستیوں کی تعمیر جاری رکھنے کی ضمانت نہ دی گئی تو وہ نیفتالی کو اعتماد کا ووٹ نہیں دیں گے۔ ان کے تحفظات دور کرنے کے لیے موصوف کو وزیرِ امورِ نو آبادی یا Affairs Settlement بنا دیا گیا۔
• بارہ رکنی سیکیورٹی کابینہ یا کچن کیبینٹ بھی قدامت پسند اور سخت گیروں پر مشتمل ہے
• معتدل و معقول ارکان میں لیبر پارٹی کے عمر بارلیف وزیر پبلک سیکیورٹی، محترمہ ثمر زینڈبرگ وزیر ماحولیات اور محترمہ میری مشیلی شامل ہیں پسندیدہ وزارت کی شکل میں نیر اورباش پر خصوصی مہربانی اور انکی جانب سے حمایت کے اعلان کے بعد نیفتالی بینیٹ 61 ووٹوں کی حمایت کی ’امید‘ کر رہے تھے جو واضح اکثریت کے لیے ’کافی‘ تھی۔ کنیسہ میں اجلاس کے آغاز پر قدامت پسندوں کا رویہ خاصہ جارحانہ تھا۔ نیفتالی کے ایوان میں آتے ہی ہال غدار، بے ایمان، ووٹ چور، عربوں کا کاسہ لیس اور سازشی کے نعروں سے گونج اٹھا۔ ارکان دیر تک فرش پر جوتے رگڑتے رہے۔ سیٹیوں اور نعروں کے شور میں کوئی بات سنائی نہ دیتی تھی۔ حتٰی کہ وزیر اعظم نیتن یاہو نے خود اپنے ارکان سے متانت اختیار کرنے کی درخواست کی۔ جب شور تھما تو رعم پارٹی کے رکن سعید الحرومی کھڑے ہو گئے اور انہوں نے گفتگو کی اجازت مانگی۔ ضابطے کے تحت اعتماد کے ووٹ سے پہلے پوائنٹ آف آرڈر پر بولنے کی اجازت نہیں لیکن سعید صاحب نے کہا کہ ’اسپیکر صاحب میں نہیں میرا ضمیر کچھ عرض کرنا چاہتا ہے‘ اجازت ملنے پر جذبات سے رندھی آواز میں سعید الحرومی نے کہا ’میں کیسے اس وزیراعظم کو اعتماد کا ووٹ دے سکتا ہوں جو ہمیں بیدخل کرکے ہماری زمینوں پر اسرائیلی آبادیوں کا قیام جاری رکھنا چاہتا ہے۔ جس کی پوری کابینہ ان لوگوں پر مشتمل ہے، جن کے ہاتھوں پر ہمارے بچوں کا لہو ہے‘؟ انہوں نے سوال کیا کہ ’بی بی (نیتن یاہو) اور نیفتالی بینیٹ میں کیا فرق ہے اور میں نیفتالی پر کیسے اعتماد کر سکتا ہوں؟‘ تبدیلی سرکار سے ہماری قسمت تبدیل نہیں ہو گی اور یہ قبضہ مافیا کا تسلسل ہے۔ سعید کی تقریر سے نیفتالی اور تبدیلی اتحاد کے ارکان ہکا بکا رہ گئے، نیتن یاہو کا چہرہ خوشی سے تمتما اٹھا لیکن سعید الحرومی نے یہ کہہ کر بی بی کو بھی مایوس کر دیا کہ ’’میں اس تماشے کا حصہ نہیں بنوں گا‘‘چناچہ رائے شماری کے دوران سعید غیر جانبدار رہے۔ کنیسہ کے 120میں سے 60ارکان نے نیفتالی پر اعتماد کا اظہار کیا جبکہ 59ارکان نے مخالفت میں ہاتھ بلند کیے۔ نیفتالی کی وزارت عظمٰی اخلاقی اعتبار سے مستند نہیں کہ وہ واضح اکثریت یعنی 61 ووٹ لینے میں ناکام رہے۔ اسی بنا پر سبکدوش ہونے والے وزیر اعظم نیتن یاہو نے کہا کہ حکومت ایوان کا اعتماد حاصل میں ناکام ہو گئی ہے۔ اسپیکر صاحب! معاملہ آگے کیسے بڑھے گا؟ انہوں نے اپنے حامیوں کو نئے انتخابات کی تیاری کی ہدایت کی۔ معاہدے کے تحت نیفتالی بینیٹ پہلے ڈھائی سال وزیر اعظم رہیں گے جس کے بعد مستقبل پارٹی کے سربراہ یار لیپڈ اقتدار سنبھالیں گے۔ انچاس سالہ نیفتالی امریکی ریاست کیلی فورنیا سے اسرائیل منتقل ہونے یہودی خاندان کے چشم و چراغ ہیں۔ وہ اسرائیلی فوج کے چھاپہ مار دستے میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔ نامزد وزیر دفاع بینی گینٹز کی طرح نیفتالی بھی بہت فخر سے کہتے ہیں کہ انہوں نے درجنوں فلسطینی ’دہشت گردوں‘ کو اپنے ہاتھوں سے ہلاک کیا ہے۔ جنوری 2013 میں اسرائیلی کنیسہ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے بہت دوٹوک انداز میں کہا تھا ’اسرائیل خود ہی ننھا سا ملک اور ہماری ضرورت سے بہت چھوٹا ہے۔ ہمارے پاس کہاں اتنی گنجائش ہے کہ فلسطینی ریاست تشکیل دے سکیں‘۔ فلسطینی ریاست ہمارے لیے تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہو گی۔ اسرائیلی فوج کے ہاتھوں مارنے جانیوالے فلسطینی بچوں کے بارے میں انہوں نے کہا ’یہ بچے نہیں دہشت گرد ہیں، ہمارا میڈیا خود ہمیں ہی بیوقوف بنا رہا ہے‘ تاہم جمعہ کو رعم کے ارکان کنیسہ سے ملاقات میں انہوں نے یقین دلایا کہ تبدیلی سرکار، بلا کسی امتیاز کے تمام اسرائیلیوں کی یکساں خدمت کرے گی۔ مذہبی عناصر ہوں یا دیندار، قدامت پسند یہودی یا عرب سب ایک ہیں۔ وزیراعظم نیفتالی کے دعوے اور ضمیر کی آزمائش 15مارچ کو ہو گی جس دن انتہا پسندوں نے یوم یروشلم منانے کا اعلان کیا ہے۔ یہ دن 1967کی جنگ میں یروشلم پر قبضے کی یاد میں عبرانی سال کے دوسرے مہینے ایار Iyar کی 28 تاریخ کو منایا جاتا ہے۔ اس سال 10 مئی کو ایار کی 28 تھی جب القدس شریف میں فلسطینیوں اور اسرائیلی فوج کے درمیان شدید تصادم ہوا۔ مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی پر مشتعل ہو کر اہل غزہ نے تل ابیب پر راکٹ حملے کیے جسکے نتیجے میں گیارہ روزہ جنگ کا آغاز ہوا۔لڑائی کی بنا پر یروشلم مارچ معطل کر دیا گیا۔ جنگ بندی کے بعد جلوس کے لیے 10 جون کی تاریخ دی گئی لیکن منتظمین نے مظاہرہ نئی حکومت کے قیام تک ملتوی کر دیا۔ اس مارچ کے لیے جو اجازت نامہ جاری کیا گیا ہے اس کے مطابق مظاہرین کو مشرقی بیت المقدس یعنی مسجد اقصیٰ تک جانے کی اجازت ہو گی۔ نئی وزیر داخلہ نے امن بحال رکھنے کے عزم کے ساتھ فرمایا ہے کہ اظہارِ رائے کی آزادی شہریوں کا بنیادی حق ہے اور اس میں رکاوٹ برداشت نہیں کی جائیگی۔ یہ ان فلسطینیوں کے لیے انتباہ ہے جو پر عزم ہیں کہ مظاہرین کو اقصیٰ کمپاونڈ میں نہیں داخل ہونے دیا جائے گا۔ خیال ہے کہ کچھ وزرا بھی مارچ میں شریک ہوں گے۔ حماس نے اسی روز یوم سیاہ منانے کا اعلان کیا ہے جبکہ سیاسی مبصرین منگل کو ایک اور خونریز تصادم کا خوف ظاہر کر رہے ہیں۔ نیفتالی صاحب کی یقین دہانیاں اپنی جگہ لیکن انتہا پسندوں کو مسجد اقصیٰ تک آنے کی اجازت کے بعد اسلامی خیالات کی حامل جماعت کے ووٹوں سے برسر اقتدار انے والی حکومت سے بھی فلسطینیوں کو راحت کی کوئی توقع نہیں رہی۔
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]
***

سعید الحرومی نے کہا ’میں کیسے اس وزیراعظم کو اعتماد کا ووٹ دے سکتا ہوں جو ہمیں بیدخل کرکے ہماری زمینوں پر اسرائیلی آبادیوں کا قیام جاری رکھنا چاہتا ہے۔ جس کی پوری کابینہ ان لوگوں پر مشتمل ہے، جن کے ہاتھوں پر ہمارے بچوں کا لہو ہے‘؟ انہوں نے سوال کیا کہ ’بی بی (نیتن یاہو) اور نیفتالی بینیٹ میں کیا فرق ہے اور میں نیفتالی پر کیسے اعتماد کر سکتا ہوں؟‘ تبدیلی سرکار سے ہماری قسمت تبدیل نہیں ہو گی اور یہ قبضہ مافیا کا تسلسل ہے۔ سعید کی تقریر سے نیفتالی اور تبدیلی اتحاد کے ارکان ہکا بکا رہ گئے، نیتن یاہو کا چہرہ خوشی سے تمتما اٹھا لیکن سعید الحرومی نے یہ کہہ کر بی بی کو بھی مایوس کر دیا کہ ’’میں اس تماشے کا حصہ نہیں بنوں گا‘‘

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 20 جون تا 26 جون 2021