استقبالِ رمضان:کیوں اور کیسے؟

اس ماہ کو فہم قرآن اور تزکیہ نفس کا مہینہ بنائیں

مجتبیٰ فاروق

 

المبارک کی عزت و تکریم کرنا ہمارا دینی فریضہ ہے۔ اس مبارک مہمان کی ہم جتنی تواضع اور خاطر داری کریں گے اتنا ہی ہمارے لیے بہتر اور مفید ثابت ہوگا۔ یہ معزز مہمان مختصر مدت تک ہی قیام کرے گا۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اس کے ساتھ ہم کیا رویہ اور سلوک اختیار کریں گے۔ کیا ہم اس مہمان کے تمام حقوق ادا کریں گے جس کا تقاضا وہ ہم سے کرتا ہے۔ کیا ہم اس مہمان کے مطالبات پورا کریں گے جس کو اس نے ہم پر لازم ٹھہرایا ہے۔ کیا ہم اس مہمان کے سبھی آداب ملحوظ رکھیں گے جن کا وہ حق دار ہے۔ کیا ہم اس مہمان سے وہ تمام خیر و برکت کی نعمتیں سمیٹیں گے جن کو وہ اپنے ساتھ لائے گا؟ یہ وہ بنیادی سوالات ہیں جن پر نہ صرف غور کرنے کی ضرورت ہے بلکہ احتساب کرنا بھی لازمی ہے۔ اگر احتساب، شعور اور ایمان کے ساتھ مہمان کے آداب و مطالبات پورے نہیں ہوئے تو اس سے بڑھ کر مہمان کی بے عزتی اور بے قدری کیا ہوسکتی ہے؟اس عظیم مہمان کی حقیقی معنوں میں عزت و احترام اللہ کے رسول ﷺ اور اصحاب رسول کرتے تھے۔ اس کا باضابطہ استقبال کرتے تھے۔ اس کی آمد پر اللہ کے رسول نے اس ماہ کی اہمیت پرایک مرتبہ جامع خطبہ فرمایا تھا جس کو حضرت سلمان فارسی ؓ نے روایت کیا ہے۔ اس خطبے میں چند قابل ذکر پہلو یہ ہیں:
۱- اس ماہ مبارک میں شب قدر ہے جس میں قرآن مجید نازل کیا گیا ہے۔
۲- اس مہینے میں فرض ادا کرنے کا ثواب ستر فرضوں کے برابر ملے گا۔ جو نفل ادا کرے گا اس کو فرضوں کے برابر ثواب ملے گا۔
۳- یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا صلہ جنت ہے۔
۴- یہ ہمدردی اور غم گساری کا مہینہ ہے۔
اس خطبے سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ رمضان کی آمد کے موقعے پر اللہ کے رسول ﷺ خود بھی ذہنی و عملی طور پر تیار رہتے تھے اور صحابہ کرام کو بھی تیار کرتے تھے اور انہیں رمضان میں با مقصد اور بھر پور عملی زندگی گزارنے کی ترغیب دیتے تھے۔
اللہ کے رسول ﷺ ماہ رمضان کے علاوہ ماہ شعبان میں بھی کثرت سے روزے رکھتے تھے۔ اس سلسلے میں حضرت عائشہ فرماتی ہیں: میں نے نہیں دیکھا کہ آ پ کسی مہینے میں شعبان سے زیادہ نفل روزے رکھتے ہوں۔ اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ماہ شعبان، رمضان المبارک سے قریب تر مہینہ ہے۔ لہٰذا ذہنی اور جسمانی طور سے بھی تیاری کے لیے موزوں اور مناسب مہینہ ہے۔
اللہ کے رسول ﷺ شعبان کی تاریخیں بڑے اہتمام کے ساتھ یاد رکھتے تھے کیوں کہ اس عظیم مہینے میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے دنیائے انسانیت کے لیے زندگی گزارنے کا لائحہ عمل قرآن مجید کی صورت میں نازل فرمایا۔ قرآن مجید اللہ کی طرف سے عظیم ترین نعمت اور معجزہ ہے۔ انسان کی فکر و عمل اور شخصی ارتقاء کے لیے اللہ تعالیٰ نے مختلف النوع عبادات مقرر کیں جن میں روزوں کو کافی اہمیت حاصل ہے۔ روزہ شخصیت کی تعمیر و تطہیر میں اہم رول ادا کرتا ہے۔ یہ بندۂ مومن کو منکرات پر کنٹرول کرنے کا اہم ترین ذریعہ ہے۔ روزہ سے ایک بندۂ خدا اپنی باطنی کمالات کو پروان چڑھا سکتا ہے، بہیمیت اور خواہشات کو اچھی طرح سے قابو کر سکتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ روحانی بلندیوں کو بھی چھو سکتا ہے۔ ایک بندۂ مومن روزوں سے ہر قسم کی نیکیوں اور اخلاقیات کو اپنے اندر جمع کر سکتا ہے۔ بقول شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ ’’رمضان ملوکیت کو غالب اور بہیمیت کو مغلوب کرنے کا نام ہے‘‘ رمضان ہی وہ مہینہ ہے جس میں اہل ایمان کو اپنی اصلاح کرنے کا موقع ملتا ہے اور وہ تزکیہ نفس اور روحانی بالیدگی حاصل کر سکتے ہیں۔ اگر اہل ایمان اس مہینہ میں بھی فسق و فجور، منکرات، جہالت، کفر و ضلالت اور آپسی رنجشوں میں مبتلا رہیں تو بقول مولانا مودودیؒ ’’انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھ لو‘‘۔ یہ مہینہ ہر سال انقلابی پیغام لے کر آتا ہے تاکہ ہم اس کے عالمگیر پیغام کی طرف کان دھریں۔ اس مہینہ میں وہ لوگ کامیاب و کامران ہوں گے جو اس کے تمام حقوق اور تقاضوں کو پورا کریں گے اور اپنی آئندہ زندگی میں اللہ تعالیٰ ٰکی بندگی و غلامی اختیار کریں گے۔ اس برکت والے مہینہ کا استقبال شعبان ہی سے کرنا چاہیے کیوں کہ یہ مہمان کوئی عام نوعیت کا مہمان نہیں ہے بلکہ ہر اعتبار سے خاص الخاص ہے۔ اس مہینہ میں جن باتوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہیں وہ اس
طرح ہیں:
تصحیح تلاوت :
اگر آپ قرآن مجید کو صحیح تلفظ کے ساتھ تلاوت نہیں کر پاتے ہیں تو اس خامی یا کمزوری کو دور کرنے کے لیے کسی استاذ سے یا کسی مکتبہ میں جا کر درست تلاوت سیکھنا شروع کریں۔ تیس یا چالیس سال کی عمر میں بھی اگر کسی کو صحیح تلاوت کرنا نہیں آتی ہو تو اس کو اس سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ تصحیح کے ساتھ ساتھ قرآن مجید کی خوب تلاوت کرنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔ ماہِ رمضان دراصل ماہِ قرآن ہے، اسی لیے قرآن کے ساتھ اسی نوعیت کا تعلق بھی قائم کرنا چاہیے۔
حفظ قرآن :
اس بات کا بھی اہتمام کریں کہ قرآن مجید کا ایک بڑا حصہ حفظ کر لیں۔ اس سلسلے میں سورہ کہف، سورہ رحمان، سورہ لقمان اور سورۃ الحجرات کے علاوہ انتیسواں اور تیسواں پارہ بھی کافی مفید رہے گا۔
فہم قرآن :
ماہ رمضان کی تمام فضیلت قرآن مجید سے ہے اور یہ نزول قرآن کا بھی مہینہ ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے : شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیَ أُنزِلَ فِیْہِ الْقُرْآنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنَاتٍ مِّنَ الْہُدَی و الفُرقان۔ ماہ رمضان میں قرآن مجید کا نزول ہوا ہے اور یہ نوع انسانیت کے لیے ہدایت کا واحد ذریعہ ہے۔ اس کے نزول کا اصل مقصد اس کا فہم و تدبر اور اور اس پر عمل کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ کتاب سمجھنے اور اور اس کے احکام و ہدایات پر عمل کرنے کے لیے نازل کی ہے نہ کہ صرف حفظ کرنے اور تراویح میں 4G کی رفتار سے تلاوت کے لیے؟ جس میں مقتدی صرف یعلمون، تعلمون اور تتقون ہی سن پاتا ہے۔ قرآن مجید کا تفقہ حاصل کرنا خالی الفاظ دہرانے اور حٖفظ کرنے پر مرجوح ہے، بقول یوسف القرضاوی مجرد حفظ پر تفقہ کو اولیت حاصل ہے۔
مطالعہ تفاسیر
تفاسیر کا ایک بڑا ذخیرہ ہمارے پاس موجود ہے۔ ہر تفسیر کی منفرد خصوصیات ہوتی ہیں جن سے لوگ استفادہ کرتے ہیں۔ ذخیرہ تفاسیر میں تفسیر طبری، تفسیر کشاف، تفسیر رازی، تفسیر ابن کثیر، روح المعانی، جلالین اور بیضاوی منفرد مقام رکھتی ہیں۔ عصر حاضر میں بھی فہم قرآن کو عام کرنے کے لیے چند اہم تفسیریں لکھی گئی ہیں جن میں تفسیر منار، فی ظلال القرآن، تفہیم القرآن، بیان القرآن، معارف القرآن، تدبر قرآن، تزکیرالقرآن اور تفسیر ماجدی قابل ذکر ہیں۔
ان کے علاوہ ڈاکٹر اسرار احمد کی بیان القرآن، جسٹس تقی عثمانی کی ترجمہ و تفسیر اور مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کی تفسیر قرآن بھی قابل مطالعہ ہیں۔ ان میں سے کسی ایک تفسیر کو منتخب کر کے روزانہ مطالعہ کریں۔
مطالعہ احادیث
احادیث کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے اور آج ہر جگہ احادیث پر مشتمل بہت سارے Collections دستیاب ہیں۔ اس مہینے میں احادیث کے کسی ایک مجموعے کو منتخب کر کے بھر پور مطالعہ کر یں اور کم از کم چالیس احادیث کو حفظ کرنے کی کوشش کریں۔ میری نظر میں صحاحِ ستہ کے علاوہ معارف الحدیث، کلام نبوت، راہ عمل اور راہِ نجات، تدبر حدیث، ترجمان الحدیث، تفہیم الاحادیث، انتخاب حدیث، درس ترمذی وغیرہ میں سے کوئی ایک مجموعہ زیر مطالعہ رہنا چاہیے۔
فرائض و سنن کا اہتمام :
‏اس مہینے میں فرائض و سنن اور نوافل کا خاص اہتمام کرنا چاہیے کیوں کہ فرض ادا کرنے کا ثواب ستر فرضوں کے برابر ملے گا اور سنن و نوافل کا بیان فرضوں کے بر ابر ملے گا۔ اس مہینے میں کوئی بھی لمحہ ضائع نہیں کرنا چاہیے۔
ہمدردی اور غمخواری :
‏یہ ہمدردی اور غمخواری کا بھی مہینہ بھی ہے۔ یہ مہینہ بندہ خدا کو معاشرے کے کمزور اور ضرورت مندوں پر مال خرچ کرنے کی ترغیب دیتا ہے ۔ اللہ کے رسول ﷺ نے ماہِ صیام کو مواساۃ کا مہینہ قرار دیا ہے جس کا مطلب ہے ہمارے دلوں سے ضرورت مندوں، محتاجوں اور غریبوں کے لیے ہمدردی اور غمگساری کا جذبہ پیدا ہو جائے۔ ماہ صیام ہمارے دلوں سے مال و زر کی محبت نکال کر اللہ اور اس کے بندوں کی محبت پروان چڑھاتا ہے۔ اس بات کی بھی کوشش کی جائے کہ کسی غریب، ضرورت مند اور یتیم کو اپنے افطار میں شریک کر لیں۔ اس سے اللہ کے بندوں کے ساتھ محبت بڑھ جاتی ہے۔
انفاق فی سبیل اللہ
ماہ رمضان جود و سخا کا مہینہ بھی ہے۔ اس مہینے میں ہر روز ضرورت مندوں تک پہنچنے کی کوشش کی جائے اور ان کی نہ صرف خیر خیریت دریافت کی جائے بلکہ آگے بڑھ کر امداد کا سامان بھی مہیا کرایا جائے۔ اس مبارک مہینے میں انفاق فی سبیل اللہ کو اپنی ترجیحات میں رکھنے خاص کوشش کی جائے۔
قیام لیل:
اس مبارک مہینے میں قیام لیل کا اہتمام بھی کرنا چائیے۔ شب بیداری ایسی عبادت ہے جس کا کوئی بدل نہیں ہے۔ اسی مہینہ میں شب قدر بھی ہے جس میں قرآن نازل ہوا ہے۔ یہ رات رمضان کے آخری عشرے کے طاق راتوں میں سے کوئی ایک رات ہے۔ اس شب کے بارے میں اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: شب قدر کو تلاش کرو رمضان کے آخری دس دنوں کے طاق راتوں میں۔(بخاری) ہم امتحان کے دنوں میں خوب شب بیداری کرتے ہیں لیکن اللہ کی بارہ گاہ شب بیداری کرنے میں الگ ہی لطف ہے۔ یہ مہینہ بارگاہ خدا وندی میں شب بیداری کرنے کا بہترین موقع فراہم کرتا ہے۔
(مضمون نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآباد سے پی ایچ ڈی اسکالر ہیں)

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 18 تا 24 اپریل 2021