اداریہ

انصاف میں تاخیر انصاف کا قتل

حجاب کے مسئلے پر متاثرہ طالبات کی جانب سے سپریم کورٹ میں جو درخواستیں داخل کی گئی تھیں، کئی مہینے گزر جانے کے باوجود ان پر کوئی سنوائی شروع نہیں ہوئی ہے، بلکہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ انہیں سرد خانے کی نذر کردیا گیا ہے۔ ہندوستان کے عدالتی نظام کی ایک بڑی خرابی انصاف کی فراہمی میں ہونے والی غیر معمولی تاخیر ہے۔ درخواست گزاروں کی زندگی کے کئی قیمتی سال فیصلوں کے انتظار میں گزر جاتے ہیں بلکہ کئی مدعیان تو فیصلے کی آس لے کر ہی اس دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔ مرکزی حکومت کی وزارت قانون کے ذریعے پارلیمنٹ میں پیش کردہ اعداد وشمار کے مطابق 28 مارچ تک پورے ملک کی مختلف عدالتوں میں تقریباً ساڑھے پانچ کروڑ مقدمات زیر دوران ہیں۔ ان میں سے چار کروڑ دس لاکھ مقدمات نچلی اور ضلعی عدالتوں میں، 59 لاکھ مقدمات مختلف ہائی کورٹوں میں اور 70 ہزار مقدمات سپریم کورٹ میں زیرالتوا ہیں اور ان کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ ان اعداد و شمار کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت پورے ملک کے پانچ کروڑ خاندان مختلف نوعیت کے مقدمات میں عدالتوں کی اس سست روی کا شکار ہیں۔
حجاب کے مسئلے پر دائر کردہ ان درخواستوں میں کرناٹک ہائی کورٹ کے اس فیصلہ کو چیلنج کیا گیا ہے جس میں یہ فیصلہ دیا گیا تھا کہ حجاب پہننا اسلام کا لازمی حکم نہیں ہے۔ درخواست گزار طالبات نے اپنی عرضی میں سپریم کورٹ کے سامنے یہ سوال رکھا تھا کہ کیا حکومت کسی طالبہ کو حجاب پہن کر کالج جانے سے روک سکتی ہے جب کہ اس کے نزدیک حجاب پہننا اس کے مذہب پر عمل کا لازمی حصہ ہے اور اس سے کسی دوسرے کو کوئی تکلیف بھی نہ پہنچتی ہو۔ سپریم کورٹ نے 1994 میں ایس آر بومائی کے مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے یہ کہا تھا کہ مذہبی آزادی دراصل ہماری تکثیریت کی اصل بنیاد ہے۔ حجاب کے متعلق دائر کردہ ان درخواستوں پر جلد سنوائی کے لیے اس دوران بار بار اس مقدمے کا حوالہ دیا گیا تھا۔ خود کورٹ نے بھی اس پر فوری سنوائی کرنے کی بات کہی تھی لیکن آج تک بھی یہ درخواستیں جوں کی توں پڑی ہوئی ہیں۔حالانکہ سپریم کورٹ نے فروری کے دوران بھی اس بات کا تیقن دیا تھا کہ طالبات کے آئینی حقوق کا تحفظ کیا جائے گا اور "مناسب وقت” پر اس معاملے میں مداخلت کی جائے گی لیکن یہ معاملہ ابھی تک لٹکا ہوا ہے۔
ان طالبات نے اپنی درخواست میں یہ مسئلہ بھی اٹھایا تھا کہ کسی تعلیمی ادارے کا انتظامیہ اپنے ضابطوں کے تحت اگر کسی خاتون کے اپنے پسندیدہ لباس کو قبول نہ کرے تو کیا اس سے عورت کا وقار اور تعلیم کے حصول کا بنیادی حق متاثر نہیں ہو گا؟ یہ مقدمہ محض چند طالبات کے حجاب پہننے یا نہ پہننے سے متعلق نہیں ہے بلکہ ہندوستان کے آئین میں دی گئی بعض ضمانتوں اور بنیادی حقوق کا سوال اس سے وابستہ ہے۔
ان میں سے ایک درخواست گزار طالبہ نے پرائیویسی کے حق کا معاملہ بھی اٹھایا ہے۔ مذکورہ طالبہ کی دلیل یہ ہے کہ ایک مسلم طالبہ کو تعلیم تک رسائی سے روک دینا اور کالج میں حجاب پہننے پر سزا دینا دراصل اسے پرائیویسی کے حق سے محروم کر دینا ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ ضمیر کی آزادی انسان کو پرائیویسی کا حق بھی عطا کرتی ہے۔ اس کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ قانون کے دائرے میں رہ کر اپنے پسندیدہ طریقے سے اپنی شناخت کو ظاہر کرے۔کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے نے مذہب کی آزادی اور ضمیر کی آزادی کے درمیان ایک دورنگی پیدا کر دی جب کہ یہ دونوں آزادیاں ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔
اس معاملے میں سپریم کورٹ کی جانب سے تاخیر کا رویہ انصاف رسانی کے نقطہ نظر سے نہایت تشویشناک اور قابل اصلاح ہے۔ سپریم کورٹ کو تو خود سے اس معاملے میں مداخلت کرنی چاہیے کیوں کہ وہی آئین میں دی گئی ضمانتوں و آزادیوں کا پاسبان ہے۔ یہ بات کس قدر مضحکہ خیز ہے کہ جس سپریم کورٹ نے عورت کے اپنی مرضی سے جسم بیچنے جیسے قبیح فعل کو جواز عطا کیا اور اسے دیگر پیشوں کے مماثل ایک پیشہ قرار دیا اسی سپریم کورٹ کے پاس ایک ایسے مقدمے کی سنوائی کے لیے وقت نہیں ہے جس میں عورت کو اپنی مرضی کا لباس پہننے اور اپنے پسندیدہ انداز و وضع سے اپنی شناخت ظاہر کرنے کی آزادی اور حق کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  26 جون تا 02 جولائی 2022