اداریہ

اخلاقي پستيوں کي طرف لے جانے والا فيصلہ

يوں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارا ملک بھي اخلاقي بگاڑ کے اسي راستے پر جارہا ہے جس پر چل کر انسان انسان نہيں رہتا بلکہ جانور بن جاتا ہے۔ اخلاقي قدريں، عفت و پاکيزگي، حيا و عصمت اور خانداني نظام جيسے تصورات اب قصہ پارينہ ہو جائيں گے۔ ہم کبھي يہ تصور کر سکتے تھے کہ جس ملک ميں عورت کو ديوي کي صورت ميں پوجا جاتا تھا، جہاں اس کو ماں، بہن اور بيوي کے روپ ميں ايک تقدس کا درجہ حاصل تھا اس ملک کي سب سے بڑي عدالت جسم فروشي کو ايک قانوني اور باعزت پيشہ قرار دے کر اسے جائز ٹھہرا سکتي ہے؟ ليکن افسوس کہ يہ ہو چکا ہے۔۔۔۔۔ گذشتہ دنوں ايک سہ رکني بنچ کي جانب سے جاري کردہ حکمنامے ميں سپريم کورٹ نے اس بات کو تسليم کر ليا ہے کہ جسم فروشي کوئي غير قانوني کام نہيں ہے بلکہ ايک معزز پيشہ ہے اور عصمت فروشي کرنے والي خواتين بھي ديگر کام کرنے والوں کي طرح يکساں عزت و احترام اور تحفظ کي حق دار ہيں۔ اس حکم نامے ميں دي گئي ہدايات کے مطابق سپريم کورٹ نے پوليس سے کہا ہے کہ وہ اپني مرضي سے يہ پيشہ اختيار کرنے والي خواتين کو نہ تو گرفتار کريں نہ انہيں ہراساں کريں اور نہ ہي ان کے ساتھ مجرموں جيسا سلوک کريں۔
سپريم کورٹ نے اس سے قبل بھي ايسے کئي فيصلے ديے ہيں جو ہندوستان کي اخلاقي قدروں اور اس کے سماجي تانے بانے کو تباہ کرنے والے ہيں۔ مثال کے طور پر 26 ستمبر 2018 ميں ايک مقدمے کا فيصلہ سناتے ہوئے تعزيرات ہند کي دفعہ 497 کو منسوخ کر کے شادي شدہ افراد کے درميان ناجائز جنسي تعلقات کو جائز کر ديا تھا۔ اس بنچ کے ججوں کا يہ کہنا تھا کہ مذکورہ قانون غير آئيني، فرسودہ اور من ماني ہے۔ ججوں کا يہ بھي کہنا تھا کہ جب ہم ملک ميں شادي کے بغير مرد و عورت کے زندگي گزارنے کو قانوني جواز عطا کر چکے ہيں تو زنا کو جرم قرار دينے کا سوال کہاں سے پيدا ہوتا ہے۔
اسي طرح 6 ستمبر 2018 کو ديے جانے والے ايک اور تاريخي فيصلے ميں سپريم کورٹ نے ہم جنس پرستي کو بھي جواز عطا کرتے ہوئے کہا تھا کہ رضاکارانہ طور پر اس غير فطري جنسي عمل کو جرم قرار دينے کي کوئي عقلي توجيہ نہيں کي جاسکتي اور يہ ايک من مانا قسم کا قانون ہے۔ چناں چہ اپنے اس فيصلے کے ذريعے سپريم کورٹ نے تعزيرات ہند کي دفعہ 377 کے بعض ضابطوں ميں ترميم کر دي تھي۔
جسم فروشي کو ايک قانوني پيشہ قرار دينے کا يہ تازہ ہدايت نامہ اپني نوعيت کے اعتبار سے نہايت ہي مہلک اور ملک کے اخلاقي نظام کو تہہ و بالا کر دينے والا ہے۔اس کے سبب ملک ميں ايسي اخلاقي و سماجي خرابياں پيدا ہو جائيں گي جن کا کوئي مداوا نہيں ہو سکتا۔ يہ ايک انتہائي افسوسناک صورت حال اور انسانيت کي شديد تذليل ہے کہ عورت جيسي پاکيزہ ہستي کے جسم اور اس کي عصمت و عفت کو قابل فروخت شئے بنا ديا گيا اور خود عورت کو اس دھوکے اور فريب ميں مبتلا کيا جا رہا ہے کہ يہ بھي ديگر کاموں کي طرح ايک معزز اور جائز پيشہ ہے۔ اس فيصلے کي وجہ سے ہمارا وہ خانداني نظام بھي پوري طرح بکھر کر رہ جائے گا جو مغربي ممالک کے برعکس ہمارے ملک ميں آج بھي کسي نہ کسي حد تک باقي ہے۔ اس کي وجہ سے ہماري نوجوان نسل مختلف النوع جسماني و نفسياتي بيماريوں کا شکار ہو کر کسي تعميري کام کے قابل نہيں رہ جائے گي۔ مغرب کے نام نہاد ترقي يافتہ ممالک کے سماجي اعداد وشمار ہماري آنکھيں کھول دينے کے ليے کافي ہيں جہاں جنسي تعلق محض لذت کوشي کا ذريعہ بن کر رہ گيا ہے اور نئي نسل کي پرورش و پرداخت جيسے اہم کام سے قوم کي ايک بڑي تعداد نے منہ موڑ ليا ہے۔ جس کے سبب کارآمد نوجوانوں کي کمي بڑھتي جا رہي ہے۔ شادي کے بغير جنسي تعلقات کے عام ہو جانے سے نا جائز بچوں کي کثرت ہو گئي ہے جس نے ان کے سامنے ايک سنگين سوال کھڑا کر ديا ہے۔ ماں باپ کي آغوش محبت سے محروم نئي نسل مجرمانہ نفسيات کے ساتھ پروان چڑھ رہي ہے اور ملک کے ليے ايک بوجھ بن چکي ہے۔ ملک کي اعليٰ عدالت کے مذکورہ بالا فيصلے ہمارے ملک کو بھي اسي راستے پر لے جائيں گے اور ان کے بھي وہي نتائج سامنے آئيں گے جن کو آج مغربي دنيا بھگت رہي ہے۔
موجودہ حکومت ملک کو وشو گرو بنانے کے دعوي کے ساتھ ميدان عمل ميں آئي تھي۔ اس نے کروڑوں نوجوانوں کو روزگار فراہم
کرنے کا وعدہ کيا تھا ليکن با وقار و باعزت روزگار فراہم کرنے کے بجائے جسم فروشي جيسے قبيح فعل کو قانوني جواز عطا کر کے نئي نسل کو اس طرح کے غير اخلاقي و بے حيائي کاموں ميں ملوث ہونے کي ترغيب دي جا رہي ہے۔
ملک کي يہ اخلاقي صورت حال امت مسلمہ کو بھي خواب غفلت سے بيدار ہونے کي طرف متوجہ کرتي ہے۔ اب جب کہ ملک ميں اس حکمنانے کے حوالے سے ايک بحث چھڑي ہوئي ہے، مسلمانوں کي يہ ذمہ داري ہے کہ وہ اسلام کے پاکيزہ اخلاقي نظام اور اس کي اخلاقي تعليمات کي معقوليت لوگوں کے سامنے پيش کريں اور اہل ملک کو متنبہ کريں کہ وہ جس راستے پر چل رہے ہيں اور حکومتيں انہيں جن راہوں کي طرف دھکيل رہي ہيں وہ تمام ہي انسانوں کے ليے مہلک ہيں اور اگر اس وقت اس پر روک نہ لگائي جائے تو بعد ميں سوائے افسوس اور پچھتاوے کے کوئي اور موقع باقي نہيں رہے گا۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  05 جون تا 11 جون  2022