اداریہ

اپنے ہی شہری انتہاپسندی کے شکار!

آسام کے سپاجھار، ضلع درانگ میں سرکاری زمین سے غیر قانونی قابضین کے جبری انخلا کے دوران ہونے والے تشدد کی تصاویر اور ویڈیوز نے ملک بھر میں غم و غصے کی لہر دوڑا دی ہے اور یہاں کے سنجیدہ شہریوں کو حقوق انسانی کے تئیں گہری تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ ۲۳ ستمبر کو ہونے والی اس ظالمانہ کارروائی کے دوران پولیس فائرنگ سے دو لوگوں کی موت ہو گئی۔ قبضوں کو برخواست کرانے کی اس کارروائی کو کیمرے میں قید کرنے کے لیے مقامی انتظامیہ نے جس پیشہ ور فوٹو گرافر کو مقرر کیا تھا اس نے پولیس فائرنگ میں ہلاک یا بری طرح زخم خوردہ شخص کے ساتھ جس حیوانیت کا مظاہرہ کیا وہ ہمارے ملک کی اخلاقی گراوٹ، شقاوتِ قلبی اور سفاکی کی انتہائی بد ترین مثال بن گئی ہے۔ اس بات پر یقین کرنے میں سخت تامل ہو رہا ہے کہ کوئی انسان اس قدر بے رحم اور سنگ دل بھی ہو سکتا ہے کہ ایک مردہ یا قریب المرگ انسان کے ساتھ اتنی سفاکی اور کمینگی کا مظاہرہ کر سکتا ہے۔ واقعی یہ ہمارے ملک کی بد قسمتی ہے کہ یہاں نفرت، دشمنی اور تعصب کا زہر اس طرح دماغوں میں بھرا جا رہا ہے جو ایسے انسانیت سوز واقعات کا موجب بن رہا ہے۔
آسام میں ہونے والے اس المناک واقعے کے دو پہلو ہیں۔ اولاً یہ کہ سرکاری زمین کو خالی کروانا اور اس جگہ پر اپنے منصوبے کے مطابق کسی پراجکٹ کو قائم کرنا حکومت کا اختیار ہے اور وہ اس کے لیے مناسب کارروائی کرسکتی ہے لیکن اس کے لیے قانونی طریقہ کار موجود ہے۔ اگر اس کام میں کوئی مسئلہ پیدا ہو جائے تو اس کو حل کرنے کا بھی طریقہ قانون میں موجود ہے۔ جو لوگ وہاں رہائش پذیر تھے وہ قانونی تھے یا غیر قانونی یہ ایک الگ بحث کا موضوع ہے لیکن بالفرض متعلقہ خاندان وہاں غیر قانونی طور پر رہائش پذیر تھے تو کیا ان غریبوں ونہتوں کو وہاں سے خالی کروانے کے لیے ان پر لاٹھیاں اور گولیاں برسائی جا سکتی ہیں؟ یہاں پر سرکاری زمین کو خالی کروانے کے لیے آسام کی حکومت، مقامی انتظامیہ اور پولیس نے جو طریقہ کار اختیار کیا ہے اس کا کوئی قانونی اور اخلاقی جواز نہیں ہے۔ انخلا کی اس مہم سے جو لوگ متاثر ہو رہے تھے انہیں تمام سہولتوں کے ساتھ کسی مناسب متبادل جگہ کی فراہمی کے بغیر یہ کام کرنا نہ صرف غیر قانونی ہے بلکہ غیر انسانی بھی ہے۔اس سلسلے کی اصل حقیقت یہ ہے کہ حکومت ابتدا ہی سے ان علاقوں کی ۷۷ ہزار بیگھا زمین کو ‘غیر قانونی قابضین’ سے خالی کروانے کا ارادہ ظاہر کرتی رہی ہے۔ وزیر اعلیٰ کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ وہ اس زمین کو ‘مقامی’ لوگوں کے لیے ‘غیر قانونی قابضین’ سے پاک کر رہے ہیں۔ چنانچہ اس مہم کے دوران سیکڑوں خاندانوں کو بازآبادکاری کے لیے مناسب متبادل جگہ کی نشاندہی کے بغیر ہی زمین خالی کرنے کی نوٹس دے دی گئی۔ اس جگہ کئی دہائیوں سے رہ رہے ان بھارتی شہریوں کو بارہ تا ۲۴ گھنٹوں کی ناقابل فہم نوٹس دی گئی۔ خود انتہائی متنازعہ این آر سی کے تحت بھی یہ خاندان بھارتی شہری قرار دیے جا چکے تھے پھر بھی ان کے بنگلہ دیشی ہونے کی افواہیں عام کر دی گئیں۔ متبادل جگہ کے لیے ان کی درخواست پر حکومت نے کوئی توجہ نہیں دی جس کی وجہ سے ان میں فطری طور پر غصہ بھڑک اٹھا۔ چنانچہ احتجاج ہوا اور پولیس فائرنگ میں دو لوگوں کی نا حق جان چلی گئی۔ اگرچہ وزیر اعلیٰ اس کو اپنے دفاع میں کی گئی فائرنگ کہہ رہے ہیں لیکن جس فاصلے اور جس انداز سے فائرنگ کی گئی ہے وہ تو کوئی اور ہی کہانی سنا رہی ہے۔ وزیر اعلیٰ نے ایک سبکدوش جج کی زیر نگرانی اس پورے واقعے کی عدالتی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے، لیکن اس طرح کی تحقیقات کا بالعموم جو حشر ہوتا آیا ہے وہی اس کا بھی ہو گا۔
اس واقعہ کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ جب سیاسی مفاد کے لیے لوگوں کے درمیان مذہبی، علاقائی اور لسانی تعصب بھڑکایا جاتا ہے اور انتہاپسندی کی آگ کو ہوا دی جاتی ہے تو یہی نتائج رونما ہوتے ہیں۔ آسام میں بالخصوص اور پورے ملک میں بالعموم جس طرح کے ماحول کو فروغ دیا جا رہا ہے اسی کے نتیجے میں اس قسم کے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ آسام کا مذکورہ واقعہ بالخصوص فوٹو گرافر کا مظلوم کی میت پر شیطانی ناچ دراصل اسی نفرت انگیز مہم کا نتیجہ ہے جو آسام میں کئی برسوں سے بنگالی بولنے والے مسلمانوں کے خلاف چلائی جا رہی ہے۔ اس سلسلے میں بی جے پی کی جانب سے انتخابات کے دوران جو بیانیہ استعمال کیا گیا تھا اس نے آسام کے لوگوں کے دماغوں میں بنگالی مسلمانوں کے خلاف نفرف کا شدید زہر بھر دیا ہے۔ یہاں کے مسلمانوں کے لیے ‘غیر قانونی مہاجرین’ کی ایک اصطلاح وضع کر کے استعمال کی جاتی رہی۔ حکومت کے اعلیٰ ترین مناصب پر فائز افراد کی جانب سے مفاداتِ حاصلہ کے تحت ان بنگالی مسلمانوں کو بنگلہ دیشی در انداز قرار دیا گیا، انہیں ’’دیمک‘‘ کہتے ہوئے آسام کے ہندووں اور مسلمانوں کے درمیان خلیج پیدا کردی گئی۔ یہی صورت حال پورے ملک بھی پیدا کرنے کی کوشش کی گئی جس کے نتیجے میں ہجومی تشدد کےواقعات رونما ہوئے۔ سیاسی مفادات کے لیے لوگوں میں جس طرح کی مذہبی انتہاپسندی فروغ پا رہی ہے اگر اس کو روکا نہیں گیا تو اس کا انجام کچھ اچھا نہیں ہو گا۔ اگرچہ اولین متاثرین کی حیثیت سے یہ مسئلہ مسلمانوں کا مسئلہ محسوس ہوتا ہے لیکن ہمارے لیڈر اس ملک کے عوام کو جس راستے پر لے جا رہے ہیں وہ صرف مسلمانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ پورے ملک کے لیے خطرناک ہے۔ ہمارے وزیر اعظم نے گزشتہ دنوں شنگھائی کانفرنس سے آن لائین خطاب کرتے ہوئے مختلف ممالک میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ یقیناً مذہبی، تہذیبی، لسانی اور علاقائی ہر قسم کی انتہا پسندی غلط ہے جو ملکوں کو ہر طرح کے نقصان سے دو چار کر دیتی ہے لیکن، کیا ہی اچھا ہوتا اگر وہ اپنے ملک میں فروغ پانے والی اس مذہبی انتہاپسندی کو بھی روکنے اور اس پر قدغن لگانے کی کوشش کرتے۔ آسام جیسے واقعات اس مرض کی محض علامتیں ہیں ہمیں اصل مرض کا علاج کرنے کی فکر کرنی چاہیے اور ملک کے سنجیدہ شہریوں کو آسام جیسے واقعے کے دونوں ہی پہلووں پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 03 اکتوبر تا 09 اکتوبر 2021