اداریــــہ

وفاقی ڈھانچے پر ضرب غیرمستحکم ریاستیں مضبوط بھارت نہیں بناسکتیں

بھارت کے آئین میں مرکزی و ریاستی حکومتوں کے درمیان فرائض و اختیارات کی تقسیم دراصل ملک کے وسیع تنوع کو باقی رکھنے کے لیے شامل کی گئی تھی۔ آئین بنانے والوں نے جہاں ایک مضبوط مرکز کا خواب دیکھا تھا وہیں اس ملک کے تنوع کے پیش نظر وفاقی ڈھانچے کو بھی نہ صرف باقی بلکہ مستحکم رکھنے کا بھی مناسب انتظام کیا تھا۔ لیکن نفاذِ آئین کے بعد مختلف مواقع پر مرکزی حکومتوں کی جانب سے ایسے اقدامات ہوتے رہے جن کی وجہ سے اس وفاقی ڈھانچے پر ضرب لگتی رہی۔ موجودہ مرکزی حکومت جس نظریے کی حامل ہے اس کی وجہ سے اسے یہ وفاقیت پسند نہیں ہے اور وہ یہ چاہتی ہے کہ یہاں ایک کلیت پسندانہ اور وحدانی طرزِ حکومت قائم ہوجائے تاکہ اسے اپنے نظریے کو نافذ کرنے میں آسانی ہو۔ وہ مختلف جائز و ناجائز طریقوں سے بطور خاص ان ریاستی حکومتوں اور ان کے قائدین کو اپنے قابو میں رکھنا چاہتی ہے جہاں دوسری پارٹیوں کی حکومت ہے۔ کرناٹک اور مدھیہ پردیش میں کانگریس پارٹی کو ریاستی حکومت سے بے دخل کرنے کے لیے ’اقدار کی حامل‘ اس پارٹی نے جس طرح ’اخلاقی اور بسا اوقات آئینی اقدار‘ کی دھجیاں اڑائی ہیں وہ ہمارے سامنے ہے۔ مرکزی حکومت کی جانب سے اس وقت مغربی بنگال اور مہاراشٹر میں بھی یہی کوشش کی جارہی ہے لیکن دونوں جگہ اسے منہ کی کھانی پڑ رہی ہے۔
گزشتہ دنوں مرکزی وزیر نارائن رانے نے مہاراشٹرا میں پارٹی کی جَن آشیرواد ریلی سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ کے لیے انتہائی غیر شائشتہ، بازاری اور غیر پارلیمانی ریمارک کیا، جسے مہاراشٹرا کے لوگوں نے پورے مہاراشٹرا کی بے عزتی قراردیا۔ اس واقعے نے بی جے پی کی سابق حلیف کے ساتھ اس کی دشمنی میں مزید اضافہ کردیا۔ جگہ جگہ ان کے خلاف مظاہرے ہوئے اور بعض مقامات پر بی جے پی کے دفاتر پر حملوں کی بھی خبریں ملی ہیں۔ مرکزی وزیر اس سے قبل بھی کئی بار مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ اور ان کے خاندان کے خلاف اسی طرح کے غیر اخلاقی ریمارک کرچکے ہیں۔ ایک مرکزی وزیر کی جانب سے کسی ریاست کے اعلیٰ دستوری منصب پر فائز شخص کے لیے اس طرح کے الفاظ کا استعمال بی جے پی کی پست اخلاقی کیفیت اور آئین اور آئینی اقدار کے لیے اس کی *غیر* سنجیدگی کی عکاسی کرتی ہے۔ اس تبصرے کے بعد مہاراشٹرا میں *کم از کم* چار جگہ ان کے خلاف پولیس میں ایف آئی آر درج ہوئی، رانے کی جانب سے ضمانت قبل از گرفتاری اور ہائی کورٹ میں تمام ایف آئی آر کو کالعدم کرنے کی جو اپیلیں داخل کی گئی تھیں وہ مسترد کردی گئیں اور بالآخر مہاراشٹر پولیس نے انہیں گرفتار کر لیا اگرچہ بعد میں انہیں ضمانت مل گئی۔ پارٹی کے ریاستی و مرکزی قائدین نے ایک طرف تو نارائن رانے کے اس تبصرے کو ان کے ذاتی خیالات کہہ کر اپنا دامن جھاڑ لیا لیکن پوری طرح ان کے ساتھ ہونے کا اعلان بھی کیا ہے۔ مرکزی وزیر کی گرفتاری کےبعد پارٹی کے قائدین کو آئینی اقدار کی یاد آئی۔ پارٹی کے قومی صدر جے پی نڈا نے کہا کہ ’مہاراشٹر حکومت کی جانب سے ایک مرکزی وزیر کی گرفتاری آئینی اقدار کی خلاف ورزی ہے‘۔ مہاراشٹر کے بی جے پی صدر چندرکانت پاٹل نے الزام لگایا کہ ’نارائن رانے کو گرفتار کر کے ریاستی حکومت نے پروٹوکول کی خلاف ورزی کی ہے‘۔ ضابطے کے مطابق کسی مرکزی وزیر یا رکن پارلیمنٹ کو کچھ مراعات حاصل رہتی ہیں لیکن ان میں سے اکثر مراعات اس وقت ملتی ہیں جب پارلیمنٹ کا اجلاس جاری ہو۔ اگر پارلیمنٹ کا اجلاس نہ ہو تو اس وقت پولیس یا قانون نافذ کرنے والے دیگر ادارے فوجداری معاملے میں کسی مرکزی وزیر کو گرفتار کرسکتے ہیں۔ اس کے لیے انہیں مرکز کے ایک اعلیٰ ذمہ دار، مذکورہ معاملے میں راجیہ سبھا کے صدر نشین کو گرفتاری اور اس کی وجوہ سے مطلع کرنا کافی ہوگا۔ اگر یہ مقدمہ سیول ہوتا تو نارائن رانے کو کچھ راحت مل سکتی تھی لیکن چونکہ مقدمہ فوجداری تھا اس لیے ان کی گرفتاری میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوئی۔ بی جے پی کو *پھر ایک بار* اندازہ ہوا کہ مہاراشٹر اس کے لیے تر نوالہ نہیں ہے۔
مرکزی حکومت کا مغربی بنگال کے ساتھ بھی یہی رویہ ہے۔ گزشتہ دنوں انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ کی جانب سے ترنمول کانگریس کے جنرل سکریٹری ابھیشیک بنرجی کے خلاف کوئلے کی چوری کے معاملے میں ایک نوٹس دی گئی۔ مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے مرکزی حکومت پر الزام لگایا ہے کہ وہ مرکزی تحقیقاتی ایجنسیوں کو اپنے انتقام کے لیے استعمال کررہی ہے۔ انہوں نے اس طرز عمل کو ملک کے وفاقی ڈھانچے پر حملہ قراردیتے ہوئے اپوزیشن پارٹیوں کے تمام وزرائے اعلیٰ کا ایک اجلاس طلب کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ مرکزی اداروں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر کے ریاستی حکومتوں اور مختلف سیاسی قائدین کو اپنے قابو میں کرنے کی یہ کوششیں آخر کن آئینی قدروں کی پاسداری ہے؟ یہ واقعات ریاستوں اور مرکزی حکومت کے درمیان اختیارات و فرائض کی آئینی تقسیم کی خلاف ورزی اور وفاقی ڈھانچے سے متعلق آئینی قدروں کی خلاف ورزی کی عکاسی کرتے ہیں۔ مرکزی حکومت کو ملک کی مختلف ریاستوں میں پیدا ہونے والی اس بے چینی سے سبق لے کر ریاستی حکومتوں کے ساتھ آمرانہ انداز کا طرز عمل ترک کردینا چاہیے تاکہ آئین کے مطابق یہاں کا وفاقی ڈھانچہ باقی اور مستحکم رہے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 5 ستمبر تا 11 ستمبر 2021