اداریــــہ

براہیمی امامت کے امین

 

اس میں کوئی شک نہیں کہ خلیل اللہ و امام الانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آج دنیا میں جو منصب اور احترام حاصل ہے وہ اقوامِ عالم میں ان کی سرداری کے مقام و مرتبے کا بیّن ثبوت ہے۔ کیا اہلِ اسلام، کیا قومِ یہود اور کیا پیروانِ مسیحیت ہر ایک کے نزدیک حضرت ابراہیم علیہ السلام یکساں ادب و احترام کے حق دار ہیں۔ عیدِ قرباں کے نام سے آج ہم جو عمل انجام دیتے ہیں در اصل وہ انہیں جدِّ امجد کی ایک یاد اور ان کو خراج ہے۔ پیغمبرِ آخر الزماں حضرت محمد ﷺ سے ۱۹۳۰ سال پہلے یعنی ۱۸۶۰ قبل مسیح میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیدائش عراق کے شہر اُر میں ہوئی تھی۔ ایک پروہت آذر کے گھر میں آنکھیں کھولنے کے باوجود انہوں نے مشرکانہ ماحول کے اثرات سے خود کو محفوظ رکھا۔ بتوں کے بنانے اور بیچنے کے کام انجام دینے والے خاندان میں جنم لینے، پرورش پانے والے ابراہیم کے ذہن میں توحید کی لَو جلنے سے رک نہیں سکی، بلکہ تب سے لے کر آج تک ان کی ایک سنت، قربانی کی رسم کو شعائر اسلام کے لازمی جزو کے طور پر ہم ادا کرتے آ رہے ہیں جو دنیا کی قدیم ترین مقدس روایات میں سب سے نمایاں اور تاریخی رسم کے طور پر جاری و ساری رہی ہے۔ دوسری جانب دنیا کے تین بڑے مذاہب اللہ کے خلیل و پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ارضِ فلسطین پر استحقاق جَتاتی آ رہے ہیں اور حجاز میں اس باپ بیٹے کے تعمیر کردہ عالمی مرکز بیت اللہ پہنچ کر اپنی عقیدت کی گواہی دینے کو دنیا کے مسلمان اپنی زندگی کی معراج تصور کرتے ہیں جہاں حاضری دے کر وہ ابراہیمی اُسوے سے عالمی اخوت نیز امامت کا سبق بھی تازہ کرتے ہیں۔
ابراہیمی اسوے کی طرف پلٹنے میں ہی اقوام عالم کی فلاح و نجات ہے، امن و ترقی کی ضمانت ہے اور آخرت کی ابدی کامیابی کا راز بھی اسی میں پنہاں ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو یوں ہی منصبِ امامت عطا نہیں ہوا، یوں ہی وہ ابو الأنبیا کے لقب سے سرفراز نہیں کیے گیے۔ انہوں نے طاغوت سے بغاوت کی، وقت کے نمرود کا سامنا کیا، اکثریت کے خلاف حکمت کے ساتھ آواز اٹھاتے رہے اور اپنے اصولوں سے رتی برابر سمجھوتہ نہیں کیا۔ حسب ضرورت تمام طرح کی قربانیوں کے لیے خود کو تیار رکھا۔ وطن کو خیر باد کہنے میں ذرا تکلف نہ کیا حتّٰی کہ رب کی منشا کی تکمیل کی راہ میں اپنی بیوی اور اولاد سب کو آزمائشوں اور قربانیوں کے لیے پیش کیا۔ سارہ اور ہاجرہ علیہم السلام کی فرمانبرداری ہو کہ اسماعیل علیہ السلام کی فرزندگی و مکمل سپردگی، ہر ایک نے بلا چوں چرا خدائی مشن کے لیے اپنا اپنا کردار بخوبی نِبھایا۔ جس کی جیتی جاگتی مثالوں میں حرم شریف کی چہار دیواریں، طوافِ کعبہ، صفا و مروہ کے درمیان سعی، مُنٰی کے خیمے، عرفات کا میدان، میدان مزدلفہ، مُنٰی میں رَمی جمار اور بعدہُ ذبیحے اور پھر دنیا بھر میں منائی جانے والی عید اور اس دن کی نمازِ دوگانہ ہر مرحلے میں آج بھی کروڑوں قلوب کو ایمانی جوش، جذبے اور ولوے سے شرابور کرتی آرہی ہیں۔ یہ مرتبہ اس خاندان کو سخت ترین آزمائشوں اور امتحانوں سے گزرنے کے بعد حاصل ہوا جس کے دوران ان کو اپنی ثابت قدمی، استقامت، جرأت، توکل، محبت اور عقیدت ہر چیز کا ثبوت دینا پڑا۔
کہا جا سکتا ہے کہ ان کی زندگی صرف صبر وثبات یا قربانی سے عبارت نہیں بلکہ توکل وایقان اور امید، حوصلہ بھی ابراہیمی سیرت کا سبق ہے۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حالات کے اعتبار سے مؤمن کو اپنی حکمتِ عملی تیار کرنی چاہیے جیسا کہ حضرتِ ابراہیم علیہ السلام نے کی، چاہے وہ مظلوم و بے سہارا رہے ہوں یا ہجرتوں پر مجبور کیے گئے اور ریفیوجی بنا دیے گئے ہوں، وہ ہر حال میں صبر و ثبات اور بیم و رجا کی کیفیات سے ابھر کر حوصلوں‌کی اڑان بھرنے والے کردار میں نظر آتے ہیں اور ان کے رب نے ان تمام مراحل میں ان کی مدد کی جس سے ان کا توکل اور اعتماد مزید بڑھتا ہی گیا۔ مسلمان ڈرتا نہیں ہے چاہے اسے آگ کے الاؤ ہی میں کیوں نہ ڈال دیا جائے اور نہ وہ طاغوتی نظام سے سوال کرنا رک جاتا ہے۔
تحریکوں کے لیے یہ سبق نمایاں ہے کہ قربانیوں کے بعد ہی مشن زندہ جاوید ہوتا ہے۔ اپنے امام، امیر و قائد سے بے پناہ محبت و عقیدت کے بعد ہی اس مقامِ مقبولیت کو پایا جاسکتا ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو محبتوں اور قربانیوں کی شکل میں حاصل ہوئی۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ شدید ترین حالات کی پروا نہ کر کے اپنے مشن پر اپنے کیڈر کے فوکس کو برقرار رکھنا قیادت کے لیے چیلنج ہوتا ہے۔ لیکن اس قیادت کو سرفروش، جانباز، ثابت قدم اور سب کچھ اپنے نصب العین کے لیے نچھاور کرنے والے کارکنان کی دستیابی اتنی ہی ضروری ہے اور ان کی فراہمی بھی اسی آزمائشی و آتشی راہ سے گزر کر ہوتی ہے۔ کسی طرح کی بھی قربانی سے پہلو تہی تحریک کے لیے جاں لیوا ثابت ہو سکتی ہے۔ اس کے ہر ایک شعبے اور محکمے کے لیے یہ مثال ہے کہ وہ سب مل کر کیسے ایثار و قربانی اور ایک دوسرے سے باہم ربط و تعاون کے ساتھ اپنے اپنے دائرہ کار میں سرگرم رہتے ہیں۔
عالمی قومیں آج بھی ابراہیمی دین کو اپنا کہتی تو ہیں لیکن جن قوموں نے ان کو پیشوا تسلیم کیا ہے وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی کو اپنی انفرادی و اجتماعی زندگیوں کے لیے اسوہ نہیں بنا رہے ہیں۔ کہنے کو تو ان کو جد امجد اور امام مانا لیکن اپنے من مانی چیزوں کو خلط ملط کر رہے ہیں جس کا نتیجہ ہے کہ دنیا منافقت، جنگ و جدل اور فتنہ و فساد کا میدان بن گئی ہے۔ ملت ابراہیمی اور دنیا کو سمجھنا ہو گا کہ اپنے جد امجد حضرت ابراہیم کی سنتوں اور آخری رسول محمد ﷺ کی حیات طیبہ کو سامنے رکھ کر ہی ہم منصبِ امامت کے حق دار ہو سکتے ہیں۔ اہل حق کو نہ طاغوت اور نہ شیطانی قوتوں کو برداشت کرنا ہے اور نہ ربانیِ احکام کی راہ میں روڑے دیکھ کر سر نگوں ہونا ہے بلکہ فیصلہ کرنا ہے اور عوام و خواص کو مدلل اور تعمیری انداز میں یہ بتلانا ہے کہ ملک اور عالم میں انسانی نظام یا ابراہیمی نظریہ میں سے کس کو رائج ہونا چاہیے؟

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 25 تا 31 جولائی 2021