اداریــــہ

مسلمان اقدام کریں

 

بھارت بلکہ دنیا میں آج سیاسی پارٹیوں کے قائدین اور کیڈر کی ان سے وابستگی پارٹی کے اصول و نظریات سے زیادہ اپنے ذاتی مفادات کے تابع دکھائی دیتی ہے۔ اپنے ملک میں آئے دن ہم دیکھتے ہیں کہ ایک لیڈر جو دن رات فرقہ پرست سیاسی جماعت کو لعن طعن کرتا تھا اپنے سیاسی مفاد کی خاطر دَل بدلی کرلیتا ہے یعنی نام نہاد سیکولرازم کا لبادہ اتار کر راتوں رات فرقہ پرستی کا چولا پہن لیتا ہے اور جب وہاں سنگھاسن ڈولنے لگتا ہے تو پھر واپسی میں بھی اسے دیر نہیں لگتی صرف چند بہانے کافی ہوتے ہیں۔ موجودہ سیاست میں اقدار، افکار، اصول و نظریات صرف دکھاوے کے لئے رہ گیے ہیں- ان کی کوئی معنویت بالفعل نہیں ہوتی۔ افسوس کہ گزشتہ ستر سالوں میں امت مسلمہ بھی اس سیاسی کھیل میں فٹ بال کی گیند کی طرح استعمال ہوتی رہی ہے۔ سیاست میں اس کا نہ کبھی کوئی نصب العین رہا اور نہ کوئی بڑا مقصد۔ وہ ایک مطالباتی گروہ کی حیثیت سے کبھی کسی سیاسی لیڈر کے سامنے اور کبھی کسی سیاسی جماعت کے سامنے کشکول لے کر کھڑی رہی۔ لہٰذا سیاسی طور پر ہمیشہ بے وزن اور بے وقعت ہی رہی۔ اب تو بی جے پی کی شکل میں ایسا قوی ہیکل دیو اس کے سامنے کھڑا ہو گیا ہے کہ مفاد پرست سیاسی پارٹیوں اور لیڈروں کو جِتانا اس کی مجبوری بن گئی ہے۔ مسلمانوں کی سیاسی بے وزنی اور بے وقعتی دور کرنا، ہندوستانی سیاست کو اقدار و اصول کا تابع بنانا اور ملک میں عدل و قسط کا قیام خود مسلمانوں ہی کو اپنے ہاتھ میں لینا اب وقت کی ضرورت ہے بلکہ یہی اقدام اس ملک کو سیدھی راہ دکھا سکتا یے۔ اس وقت پورا ملک بالخصوص ہندوستانی سماج کے دبے کچلے لوگ ایک ایسے با اصول اور ایماندار سیاسی افراد اور گروہ کے شدت سے منتظر ہیں جو ملک میں ایک فلاحی ریاست اور عدل و قسط پر مبنی پُر امن اور خوشگوار معاشرہ تشکیل دے سکیں، جو ذاتی یا گروہی مفادات کے لیے اجتماعی اور نظریاتی تقاضوں کو قربان نہ کریں بلکہ ملی اور انسانی فلاح کو بالاتر خیال کریں۔ ان باتوں کو آج پیش کرنے کی ضرورت کیوں پیش آ رہی ہے اس کا اندازہ ہر دیدہ بینا کو ہے۔ بھارت یا شاید دنیا میں ایسا پہلی بار دیکھا جا رہا ہے کہ ایک حکمراں پارٹی کے عوامی نمائندے دوسری علاقائی پارٹی کے دفتر کے سامنے دھرنے پر بیٹھے ہوں اس مطالبے کے ساتھ کہ ان کو اپنی پرانی پارٹی (ٹی ایم سی) میں شامل کر لیا جائے اس لیے کہ اب انہیں اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے اور دوسری جانب کی پارٹی ان کو دوبارہ شامل کرنے سے انکار کر رہی ہے۔ یاللعجب!
یوں تو مغربی بنگال کے حالیہ نتائج نے ملکی سیاست کے کئی پہلووں کو نمایاں کیا ہے جن میں علاقائی و ریاستی شناخت یا عصبیت، مرکز اور ریاست کے ما بین وفاقی ڈھانچے کا ٹکراو، سیاسی جنگ میں سرکاری اداروں کا بے دریغ استحصال، سیاسی ٹکراؤ کو ذاتی اَنا اور بدلے کی کارروائی کے طور پر دیکھنا جیسی باتیں ہیں، لیکن جو بات زیادہ ابھر کر آئی وہ یہ ہے کہ سیاسی نمائندوں کو اپنے پالے میں لانے کے لیے ہر بد عنوانی، غیر قانونی عمل بلکہ فکری تضاد کو بھی بالائے طاق رکھنے کی جرأت یا دیدہ دلیری ہے۔ اس میں کچھ عرصے سے فرقہ پرستی و ذات پات پر مبنی نفرت کو انگیز کرنا بھی شامل ہو گیا ہے۔ تاریخی طور پر اعلیٰ ذاتوں کے علاوہ دیگر قیادتوں کو کچلنے کا کام ہر زمانے میں ہوتا آیا ہے، بی جے پی بس اسی راہ پر علی الاعلان چل رہی ہے۔
اگر قابلیت اور مرتبے کا لحاظ رکھا جاتا تو معمارِ آئین ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر کو بَھنڈارا اور سنٹرل بامبے کے انتخابات میں شکست دے کر ان کو لوک سبھا پہنچنے سے روکنے کی سازش کانگریس نے نہیں کی ہوتی۔ آنجہانی پولیس افسر ہیمنت کرکرے کے ممبئی دہشت گردانہ حملے میں مارے جانے پر سوالیہ نشان لگانے پر وزیرِ اعلیٰ رہ چکے انتہائی قابل منتظم و منجھے ہوئے سیاست داں بیرسٹر عبد الرحمان انتولے کو کانگریس نے مہاراشٹر کے سیاسی افق سے ایسے نکال باہر کیا جیسے دودھ میں سے مکھی۔
کرنا کیا ہے؟
دھن دولت، اخلاقی دیوالیہ پن، بے اصول اور آر ایس ایس کی ٹولیوں کی سرگرم پشت پناہی کی بنا پر انتخابات جیتنے کی ایک مشین بن کر سامنے کھڑی بی جے پی کو شکست دینے کے لیے اس جیسے نہیں تو کم از کم اس سے زیادہ سیاسی جرأت اور موجودہ اقتدار کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جواب دینے اور اپنے کیڈر کا اعتماد بحال رکھتے ہوئے کسی نہ کسی قائد اور اجتماعی پلیٹ فارم کا وجود ضروری ہے۔
دوسرا حل یہ کہ ذات و مذہب کی شناخت پر میدان میں دکھائی دینے والی ہر چھوٹی بڑی پارٹی ڈھیلے ڈھالے محاذ کے تحت یکجا ہو جائے اور اس محاذ کو موجودہ تمام علاقائی اور قومی سطح کی پارٹیاں ایک ہی مقصد کے تحت سیٹوں میں اشتراک کر لیں۔ اس کی مثالیں ایمرجنسی کے دوران حزبِ اختلاف کے اتحاد میں اور اب مہاراشٹر کی سہ جماعتی مَہا وِکاس آگھاڑی حکومت کے اندر موجود ہیں جہاں مرکز کی من مانی کو روکا گیا ہے۔ ما بعد لیڈرشپ اور وزارتوں کے جھگڑوں کا پایا جانا کسی حد تک تو فطری امر ہے لیکن کسی ایک مرکز و محور، مضبوط قیادت اور اقل ترین لائحہ عمل سے بندھے اتحاد کے ذریعے اس مسئلے پر قابو پانا ممکن ہے۔ فی الحال مرکزی حکومت کی تبدیلی اور اس کے ذریعے موجودہ جمہوری آئین کے تحت ملنے والی آزادیاں اور حقوق کی حفاظت ہی اولین ترجیج ہو گی۔ دنیا میں ایسی بھی مثالیں پائی جاتی ہیں جہاں ملک کی قریب قریب تمام ہی سیاسی جماعتیں مل کر حکومت تشکیل دیتی ہیں جن میں مختلف خیالات کے لوگ کابینہ میں ہوتے ہیں۔ تازہ ترین مثال اسرائیل کی ہے اور یورپی ملک سویڈن میں تو عملاً کوئی حزب اختلاف نہیں پایا جاتا کیوں کہ اکثریت نہ ملنے سے تمام پارٹیوں نے مل کر مشترکہ حکومت تشکیل دی ہے۔
اتر پردیش میں سب سے بڑا تجربہ کیا جا سکتا ہے جہاں علاقائی پارٹیوں کو چھوٹی پارٹیوں کے ساتھ نشستیں ساجھا کرنے اور اب بے وزن ہو چکی ’قومی‘ پارٹیوں کو اس نظام کو تسلیم کرنے کے لیے راضی کرنے کی کوشش ابھی سے کرنے کی ضرورت ہے۔ بصورت دیگر قومی جماعتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ایسا وفاق وجود میں آئے جو پوری ریاست میں فرقہ پرست امیدواروں کو شکست دینے کی اہلیت رکھنے والے امیدوار کو کامیاب بنانے کی حکمتِ عملی وضع کرے۔ اقدار پر مبنی سیاست کا خواب اس طرح کی کوششوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے اور سب کے بیچ رابطہ کار کا کردار نبھانے سے پورا ہونے کی امید ہے۔ ملک کے مسلمانوں کو موجودہ حالات سے مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ سیاسی بے وزنی کے باوجود آج بھی وہ آگے بڑھ کر ملک کو صحیح رخ دینے کا کام انجام دے سکتے ہیں بشرطیکہ وہ مخلصانہ و مؤمنانہ کردار نبھاتے ہوئے مجاہدانہ و مجتہدانہ اقدام کی ہمت کا مظاہرہ کریں۔
***

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 20 جون تا 26 جون 2021