اداریــــہ

سنگھ کی مسلم قربت

 

’’مستقبل کا بھارت‘‘ نامی کتاب کا بالآخر قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان (این سی پی یو ایل) کے اسٹاف کی ‘لازمی’ حاضری میں اجرا ہو ہی گیا۔ مذکورہ کتاب یوں تو عام کتابوں کی طرح ایک کتاب ہوتی لیکن متعدد اردو مصنفوں اور دانشوروں نے سوال کیا ہے کہ "مسلمانوں میں آر ایس ایس کو مقبول بنانے کی ایک کوشش” کے طور پر اس کے ترجمے اور اشاعت پر سرکاری خرچے اور وسائل کا استعمال کرنا کس حد تک مناسب ہے؟ طے شدہ پروگرام کے مطابق وزیر تعلیم رمیش پوکھریال نِشنک نہیں پہنچ سکے جب کہ خود کتاب کے مصنف اُن دنوں کمبھ میلے میں ڈبکی لگا رہے تھے۔ سنگھ کے جوائنٹ جنرل سیکرٹری کرشن گوپال نے کتاب کا اجراء کیا۔ انھوں نے کہا کہ کتاب کو پڑھا جائے اور جو بھی سوال ہوں، پوچھے جائیں۔ مترجم اور این سی پی یو ایل کے ڈائریکٹر شیخ عقیل احمد نے امید ظاہر کی کہ اس کتاب سے آر ایس ایس کے بارے میں کئی باتوں کی وضاحت ہوگی اور باہم مکالمہ و گفت و شنید کی راہیں کھلیں گی۔ مسلم راشٹریہ منچ کے کرتا دھرتا اِندریش کمار نے بھی بات چیت کی ضرورت پر زور دیا۔ حالانکہ مذکورہ کتاب کے مندرجات کی تفصیل ابھی سامنے نہیں آئی لیکن سنگھ کے سربراہ ڈاکٹر موہن بھاگوت نے ستمبر 2018 کے دوران دلی میں ’’بَھویشیہ کا بھارت‘‘ کے عنوان سے ایک سلسلہ خطابات پیش کیا تھا، انہی کوپہلے ہندی اور اب اردو میں شایع کیا گیا ہے۔ اس کا اردو ترجمہ این سی پی یو ایل کے ڈائرکٹر شیخ عقیل احمد نے کیا ہے۔
ملک اور حکومت کی تقدیر کو اپنی سوچ کے مطابق ڈھالنے کا خواب پالنے والی آر ایس ایس نے گذشتہ عرصے میں کئی ایسے بیانات دیے ہیں جن سے یہ محسوس ہونے لگا کہ ’سنگھ’ میں یک گونہ تبدیلی کا عنصر پیدا ہورہا ہے۔ پچھلے دنوں سنگھ میں نمبر دو پر بھیا جوشی کی جگہ دتاتریہ ہوسابلے کے تقرر کو بھی سنگھ کی نئی سمت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ ایمرجنسی کے دوران جیلوں میں ساتھ رہنے سے لے کر اب تک باہر گاہے بہ گاہے مسلمانوں کے ساتھ مکالمہ اور انہیں قریب کرنے جیسی باتیں اس حلقے کی جانب سے اچھالی جاتی رہی ہیں۔ لیکن "پرنالہ وہیں گرے گا‘‘ کے مصداق تاریخی بابری مسجد قضیہ، گؤکشی، کامن سول کوڈ اور متعدد ایشوز پر سنگھ کے حلقوں سے وابستہ تمام افراد کا رویہ باہمی مکالمہ کا نہیں بلکہ اپنی بات منوانے کا ہی رہا ہے۔ پھر بھی بالفرض یہ تسلیم کر لیا جائے کہ اب ملک کی سیاہ و سپید کا مالک بن جانے کے بعد سنگھ کا گروپ مسلمانوں کے قریب جانے کی سچی خواہش رکھتا ہے تو اس سلسلےکچھ اور سوالات بھی پیدا ہوجاتے ہیں جن کے جواب ضروری ہیں۔ سنگھ کے لیے کیا صرف مسلمانوں کا اعتماد حاصل کرنا کافی ہے یا ملک و قوم کے بہت سارے طبقوں کی بے چینی دور کرنا بھی ضروری ہے؟
سکھوں کے ایک اعلیٰ ترین ادارے نے باضابطہ قرارداد منظور کرتے ہوئے براہِ راست آر ایس ایس پر نہایت سنگین الزام عاید کیا ہے کہ وہ سکھ مذہب کے ماننے والوں کو ہندو بنانے کی سازش میں مبتلا ہے۔ یوں بھی سنگھ کی ڈکشنری میں سِکھ ایک علاحدہ مذہب نہیں بلکہ اسی طرح ہندوؤں کا ہی ایک فرقہ ’سمپردائے‘ ہے، جس طرح کہ جَین اور بودھ دھرم ہیں۔ مسلمانوں کے علاوہ شاید ہی کبھی کسی نے سنگھ کے بارے میں کھل کر دوسرے مذہب میں مداخلت کا الزام لگایا ہو۔ جھارکھنڈ کی اسمبلی نے باضابطہ ایک قرارداد منظور کی اور مطالبہ کیا کہ ایک علاحدہ ’’سَرنادھرم‘‘ کے طور پر ان کو مردم شماری میں شامل کیا جایے اور ان کو ہندو کے خانے میں ہر گز شامل نہ کیا جائے۔ دلتوں اور پس ماندہ طبقات کو سنگھ بھلے ہی اپنے دایرے میں رکھنا چاہتا ہو لیکن وہ مذہبی اور نظریاتی لحاظ سے ہندواِزم کے سَناتنی حلقے سے ہمیشہ سے باہر ہی رہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کے بارے میں سچ مچ رائے تبدیل ہو رہی ہے یا یہ بھی کوئی ایسی سازش و چال ہے جیسی کہ یہاں کا اکثریتی طبقہ دلتوں کے ساتھ ہزارہا سال سے کرتا رہا ہے؟ جیسا کہ جین، سِکھ اور بَودھ مذاہب کے اپنے اندر انضمام کی کوششوں کے ذریعے قدیم تاریخ میں کیا گیا تھا؟
ایک جانب انتخابی تشہیر میں سوچ سمجھ کر مسلمانوں کی منفی شبیہ پیش کر کے ووٹوں کا پولرائزیشن کیا جارہا ہے، مسلمانوں کی سیاسی نمائندگی کو بے وزن کرنے کا پورا سامان موجود ہے، سوامی یَتی نرسمہانند جیسوں کی دروغ گوئی نے سابقہ کے انوراگ ٹھاکر و کپل مشرا کی روایت کو آگے بڑھایا ہے اور سابق شیعہ وقف بورڈ چیئرمین وسیم رضوی کے کندھوں پر بندوق رکھ کر مسلمانوں کے جذبات سے کھلواڑ کو بھی روا رکھا جا رہا ہے۔ جب کہ نوجوانوں اور صحافیوں کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں، مسلم نوجوانوں کو اسکالرشپ سے رفتہ رفتہ محروم کیا جا رہا ہے اور اعلیٰ تعلیم میں ان کی حصہ داری کی شرح کم سے کم تر ہوتی جا رہی ہے۔ ان کی فلاح و بہبود کے لیے پہلے سے چلی آرہی مختلف اقلیتی اسکیموں کے بجٹ میں کہیں کٹوتی کر کے اور کہیں مختص رقم ہی جاری نہ کر کے ان کے پر کترنے کا کام نہایت خاموشی سے چل رہا ہے۔ ہفت روزہ دعوت اپنی تحقیقاتی و مدلل رپورٹوں اور تحریروں کے ذریعے لگاتار ان کا پردہ فاش کر رہا ہے تاکہ جمہوریت میں شراکت دار کی حیثیت سے ان کے حقوق کی بازیابی کی خاطر آواز اٹھتی رہے اور شاید کہ "سب کا وشواس” ایک مزید ایک جملہ بن‌ کر نہ رہ جائے بلکہ ہر منتخبہ حکومت ہمیشہ اس مظلوم و محروم آبادی کو ملک کے "ترقی کے قومی دھارے” میں شریک ہونے کی راہ آسان کرے۔ اگر آر ایس ایس بھارت کو سچ مچ "وشو گرو” بنانے کے خواب کو شرمندۂ تعبیر ہوتا دیکھنے کا خواہش مند ہے تو اس اقدام کا مسلمانوں کو خیر مقدم کرنے میں عار کیوں ہوگا؟ لیکن کیا اس وشواس اور اعتماد کی فضاء کو بحال کرنے کے لئے جو عملی اقدامات کی ضرورت ہے ان کے لیے حکومت پر دباؤ ڈالنے کی قوتِ ارادی کا مظاہرہ سنگھ موجودہ اقتدار اور سماج میں موجود فسادی و متشدد عناصر کی نکیل کس کر کر سکے گا؟ اسی سوال کے جواب میں اس بات کا راز بھی پوشیدہ ہے کہ وہ مسلمانوں سے اس کے "مشن” میں تعاون کیسے حاصل کرے گا۔ ملک اور عالم کے مسلمان سنگھ کے ارادوں اور منصوبوں کے بارے میں جو تحفظات رکھنے پر مجبور ہوگئے ہیں اور جن اندیشوں میں وہ گرفتار کر دیے گئے ہیں ان سے باہر نکالنا بھی سنگھ ہی کی ذمہ داری ہے۔ خود سنگھ کی ہمہ جہت و ہمہ گیر اجتماعیت (سنگھٹن) کی باہم متضاد اور بے ہنگم بیان بازیوں اور ان کی سرگرمیوں کے سبب ملک کی اقلیتوں اور کمزور و حاشیہ پر رہنے والے طبقات میں عدم اعتمادی کے بیچ بوئے گئے ہیں، ان کے متعلق ان میں ہمارا کوئی رول نہیں رہا، اور سیاسی جماعتوں کے "بہکانے، ورغلانے، گمراہ کرنے، ڈرانے” وغیرہ کی باتیں تو بس ’’گڈا گڈی‘‘ کے کھیل میں ہی اچھی لگتی ہیں اس لیے سنگھ کو اس طرح کی باتوں سے اجتناب کرنا چاہیے۔ ایک آفاقی پیغام، عالمگیر منشور اور مستحکم عقائد کے ساتھ ساتھ مکمل نظامِ زندگی کی حامل داعی ملت کا اعتماد حاصل کرنے لیے اس کے سامنے اس طرح کی بچکانہ دلیلوں کو پیش کرنا کافی نہیں۔ خدائی توکل اور حبِّ رسول کے جذبے سے سرشار اس امت کو زیادہ دنوں تک نہ تو یہ ملک نظر انداز کر سکتا ہے اور نہ خود مسلمانوں کے حق میں ہوگا کہ وہ یہاں کی اکثریت سے متعلق مستقل بد گمانیوں میں پڑے رہیں۔ کشتی کو بھنور سے نکالنے کی بات ہو، ڈوبنے سے بچنے اور بچانے کی بات ہو تو کون نہیں جانتا کہ اس ملت ہی کا جگر ہے کہ وہ اُسی کووڈ سینٹر میں اپنا پلازما عطیہ کرنے کے لئے قطار میں آکھڑا ہوتا ہے جہاں اس کی ایک ‘جماعت’ کو جھوٹی تہمت لگا کر چند دن پہلے پابند کرنے کی گھناؤنی سازش کی جارہی تھی۔ کون نہیں جانتا کہ اسی ملت نے ٹھیک ایک سال قبل خود (روزوں کے دوران) بھوکے پیاسے رہ کر چلچلاتی دھوپ میں ہائی وے سے گزرنے والی معصوم عوام کی صرف خدا کی خوشنودی کی خاطر اور کسی غرض کے بغیر پیاس بجھائی ہے۔ کتنے دنوں تک اس حقیقت پر پردہ ڈالنے کا کام کیا جاتا رہے گا کہ مسلمانوں نے چاہے انسانی ہو کہ قدرتی ہر آفت میں اور اس کے بعد بھی ان متاثرہ لوگوں کے گھر بسانے کا کام اپنا فریضہ سمجھتے ہوئے انجام دیا ہے۔ یہ قوم ہر سرکاری سپاس نامہ اور اعزاز و انعام کی تقریب سے دور رہی لیکن بندگانِ خدا کی بے لوث خدمت میں پیش پیش رہی ہے۔ لہذا سنگھ اگر ملک و معاشرے کے تمام فریقوں کا اعتماد حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس کو کھل کر اپنا نیا ایجنڈہ سامنے لانا ہوگا اور سابقہ رویے سے توبہ کرنا ہوگا۔ نیز وہ اپنے "نیے بھارت” اور "رام راج” کے خاکے میں مسلمانوں اور یہاں کی تاریخی مظلوم اقوام کی جو حیثیت تسلیم کرنے جا رہا ہے اپنے عملی رویے سے اس کا ثبوت دینا ہوگا۔اس وقت تک ملتِ اسلامیہ ہند بھی ابھی سے غور کرے کہ بدلتے حالات میں اسے اپنے ردعمل میں کس نوعیت کی تبدیلی کی ضرورت ہے؟
***

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 11 تا 17 اپریل 2021