اداریــــہ

دل ملے نہ ملے ہاتھ ملاتے رہیے

 

قریب نو ماہ تک کشیدگی کے بعد چین کو انخلا کے لیے راضی کرنا اور بھارت پاکستان کے بیچ سن ۲۰۰۳ میں دستخط کردہ امن معاہدہ کی سختی سے پابندی پر دونوں افواج کا مشترکہ اعلامیہ جاری کرنا یہ دونوں واقعات، ملک اور خطے کے لیے خوش آئند ہیں۔ شمالی سرحد لداخ میں واقع پینگانگ میں چینی اور بھارتی افواج کو لائن آف کنٹرول سے (disengagement) خلاصی کے معاہدے کے تحت واپس اپنی سرحدوں میں لے جایا گیا ہے۔ اس کے ایک ہفتے کے بعد ملک کی مغربی سرحد جموں و کشمیر کے خطِ قبضہ پر سیز فائر کی سختی سے پابندی کرنے کے عہد پر دونوں افواج نے رضا مندی ظاہر کی ہے۔ خبروں کے مطابق دونوں ممالک کے ڈائریکٹر جنرل آف ملیٹری آپریشنز (ڈی جی ایم او) کے درمیان پس پردہ کافی عرصے سے بات چیت جاری رہنے کے اشارے ملے ہیں حالانکہ ایسی باتوں کی باضابطہ توثیق نہیں کی جا سکتی لیکن تنازعات کو سلجھانے کے لیے اس طرح کے سفارتی طریقے اپنانے کا رواج پایا جاتا ہے۔
دونوں ممالک میں بالعموم عوام اور بالخصوص عالمی برادری نے بھارت۔پاکستان کے بیچ سرحدوں پر امن کی برقراری کے معاہدے کا خیر مقدم کیا ہے۔ اگرچہ دونوں جانب کے سخت گیر عناصر اور ذرائع ابلاغ کے قوم پرست کالم نگاروں اور اینکروں پر قدغن لگانا اب بھی ایک چیلینج بنا ہوا ہے۔ ورنہ امن دشمن عناصر عوام سے رابطے بڑھانے اور باہمی کاروبار کو فروغ دے کر اس سمت میں پیش قدمی پر بریک لگانے کا کام ہی کریں گے۔ جیسا کہ بعض اخبارات اور چینلوں میں ’دشمن ملک کی گیدڑ بھپکی‘ اور ’یہ مودی کا نیا ہندوستان ہے‘ جیسے جذباتی نعروں نے ماحول کو سنوارنے کے لیے خود حکومت کو ’’بیک ڈور ڈپلومیسی‘‘ کی راہ چلنے پر مجبور کیا ہے۔ موصولہ اطلاعات کے مطابق 24 اور 25 فروری کی درمیانی شب سے دونوں ممالک نے ایل او سی پر فائرنگ بند کردی ہے اور جنگ بندی سے متعلق گزشتہ معاہدوں پر عمل کرتے ہوئے تا دمِ تحریر سرحد پر فائرنگ کی کوئی بھی واردات پیش نہیں آئی ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس بار دونوں ممالک نے تہیہ کر لیا ہے کہ وہ حالات بگڑنے نہیں دیں گے۔
واضح رہے کہ شدید کشیدگی اور چین کے خلاف بائیکاٹ کی مہمات کے باوجود پچھلے سال اپریل تا نومبر کے درمیان ملک نے چین سے 2.89 لاکھ کروڑ روپیوں کا سامان خریدا اور خود بھارت نے بھی اپنے تقریباً 13 لاکھ کروڑ روپیوں کے سودے میں سے ایک لاکھ کروڑ سے زیادہ سامان چین کو ہی فروخت کیا ہے۔ اس طرح اس سال بھارت کی چین سے درآمدات میں مجموعی طور پر تین فی صد اضافہ ہوا ہے۔
پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے بھی گرچہ خط قبضہ (لائن آف کنٹرول) پر سیز فائر کا خیر مقدم کیا ہے۔لیکن اس کی خاطر سازگار ماحول بنانے کی ذمہ داری بھی بھارت کے کھاتے میں ڈال دی ہے۔ انہوں نے بھارت پر زور دیا ہے کہ وہ کشمیریوں کو حق دلانے کی خاطر عملی اقدامات کرے۔ ڈی جی ایم او سطح پر فائر بندی اور سرحد پر امن بحالی کے لیے فریقین کے درمیان رضا مندی کے چند روز بعد ہی پاکستانی وزیرِ اعظم نے بیان دیا کہ طویل مدت سے زیر التوا مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں حل کرنے میں بھارت کو بڑا رول ادا کرنا چاہیے اور کشمیری عوام کے حقوق و مطالبات کا لحاظ رکھتے ہوئے اس قضیے کے حل کی جانب پیش قدمی کرنا چاہیے۔
حالات اس قدر بگڑ چکے تھے کہ دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے چینلوں پر مہمانوں اور صحافیوں کو بات تک کرنے سے منع کر دیا تھا لیکن اب بھارتی چینلوں پر اسلام آباد کے صحافی حامد میر نے بر ملا کہا کہ دونوں ممالک کے بیچ جنگ بندی پر سختی سے عمل کا اعلان حیرت انگیز اقدام ہونے کے ساتھ ساتھ خیر مقدم کے لائق بھی ہے کیوں کہ اسے دونوں ممالک کی افواج نے خود ایک مشترکہ بیان کی شکل میں جاری کیا ہے۔ انہوں نے انتباہ بھی دیا کہ دونوں جانب ‘امن کے دشمن’ آپسی رابطے کی بحالی میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔ کراچی سے نصرت مرزا نے سُدھرتے حالات کو بہتر قدم بتایا لیکن محتاط رہنے کا مشورہ بھی دیا کہ خلا پر تسلط کی خواہش اور اسلحوں کی دوڑ تباہی کا سبب بنے سکتی ہے۔ ادھر ہندی کے معروف افسانہ نگار اصغر وجاہت نے بتایا کہ کئی یورپی ممالک میں ٹکراؤ کی صورت حال رہی لیکن اب وہ دوست بنے ہوئے ہیں، گویا وہ سمجھ چکے ہیں کہ دشمنی سے کچھ حاصل نہیں ہوتا اور ترقی صرف دوستی ہی سے حاصل ہو سکتی ہے۔ نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی نے جے پور لٹرری فیسٹیول میں آن لائن شرکت کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم پاکستانی بالی ووڈ فلمیں اور کرکٹ دیکھنا چاہتے ہیں اور بھارتی لوگ پاکستانی ڈرامے دیکھنے کی کَسک پالے ہوئے ہیں‘‘ ان کے مطابق پڑوسیوں کو بھکمری، غربت اور تفریق و تعصب سے لڑنا چاہیے۔ واضح ہو کہ جمہوریتوں کی برقراری کے لیے بھی امن کی فضا کی بحالی لازم ہے جس کے لیے دونوں ممالک کو پورے اخلاص کے ساتھ کوشش کرنی ہو گی۔
بھارت اور پاکستان ایک دوسرے پر اندرونی معاملات میں مداخلت کا الزام لگاتے رہے ہیں، بلکہ دہشت گردی کو ہوا دینے کا بھی الزام لگایا جاتا رہا ہے۔ الزام در الزام اور باہمی عدم اعتماد کا فقدان بھی ایک بڑا چیلنج ہی ہے۔
سارک ممالک میں بہتر روابط آنجہانی اٹل بہاری واجپئی کا خواب تھا اور انہوں نے اسی لیے پاکستان کے شہر لاہور تک بس کا سفر کیا تھا، نیز آگرہ چوٹی کانفرنس کے لیے جنرل پرویز مشرف کو دعوت بھی دی تھی۔ اگرچہ کہ ان کی کوششیں بار آور ثابت نہیں ہو سکیں لیکن آج بھی پاکستان میں ان کو کشمیریت کا محافظ و امن کا داعی اور پڑوس کے ساتھ اچھے برتاؤ کے علم بردار کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔
ہندستانی کونسل برائے خارجہ پالیسی کے چیئرمین اور معروف صحافی ڈاکٹر وید پرتاپ وَیدِک ایک مدت سے ’’دَکشیش‘‘ (سارک) یعنی جنوبی ایشیائی خطے میں معاشی، عوامی اور دفاعی سطح پر باہمی تعاون نیز سرحدوں میں بھی کھلے پن کی وکالت کرتے آئے ہیں۔ حال میں آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے وصیت کرتے ہوئے کہا کہ وہ ساری دنیا کو ایک کنبہ تصور کرتے ہیں بلکہ اَکھنڈ بھارت کے نظریہ کے تحت اپنے قدیم وعظیم تر بھارت کے خواب کی تعبیر دیکھنے کے خواہاں ہیں۔ تاریخ و ثقافت، فلم، تجارت اور رشتے ناطوں کے ساتھ جڑے دونوں ہم سایہ ملک آخر مزید کتنے دنوں تک پیہم گُتھم پیزار رہیں گے؟ انہیں ایک نہ ایک دن بات چیت کی میز پر آنا ہی ہو گا۔ بہتر ہوگا کہ دونوں ایٹمی قوتیں اس خطے میں پائیدار امن اور عوام کی بہبود کی خاطر اپنی کدورت اور دشمنی کو دل و دماغ سے نکال کر دوستی اور امن کی جانب تیزی کے ساتھ پیش رفت کریں۔ جس کے لیے بات چیت کا جاری رہنا پہلی سیڑھی ہے۔
دل ملے نہ ملے، ہاتھ ملاتے رہیے۔۔۔
بھارت و پاک دو ایٹمی طاقتوں کے بیچ ہتھیاروں کی دوڑ سے صرف عالمی اسلحہ منڈیوں میں دونوں قوموں کی بے تحاشہ دولت صرف ہو رہی ہے اور عالمی طاقتیں اسی غرض سے یہ چاہتی ہیں کہ ان دو ہمسایہ ملکوں کے بیچ تناؤ برقرار رہے۔ جب کہ امن کی برقراری میں عوام چین و سکون اور عافیت میں رہ کر ترقی کی منزلیں طے کر سکتے ہیں اور یہی آج کی اہم ترین ضرورت بھی ہے۔ دونوں ملکوں کی حکومتیں اگر تناو سے باہر نکل کر باہم تعاون و اشتراک کے ساتھ مختلف میدانوں میں کام کریں گی تو نہ صرف یہاں کی عوام کو خوشحالی اور سکون میسر آئے گا بلکہ یہ خطہ دنیا کو بہت کچھ دینے کے قابل بھی بن جائے گا۔ امن اور باہم تعاون و اشتراک کی یہ راہ آسان بھی ہے اور فائدہ مند بھی، اسی لیے جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 7 مارچ تا 13 مارچ 2021