کیا ہندو فریق کو سنبھل جامع مسجد میں داخلہ اور پوجا کرنے کی اجازت مل جائے گی ؟
19؍ مئی کے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے میں ہندو فریق کے بنیادی دعوے کو ہائی کورٹ نے تسلیم کر لیا ہے جس کے بعد یہ خدشات ظاہر کئے جا رہے ہیں

مشتاق عامر
نئی دہلی ،21 مئی :۔
الہ آباد ہائی کورٹ نے سنبھل کی تاریخی جامع مسجد سے متعلق ضلعی عدالت میں ہندو فریق کی زیر التواء دیوانی مقدمے کے قابل سماعت ہونے پر اپنی مہر ثبت کر دی ہے۔ ساتھ ہی سروے کے حکم کو درست قرار دیتے ہوئے 8 جنوری کو مقدمے اور سروے پر لگائی گئی پابندی کو بھی ختم کر دیا ہے۔لیکن اس فیصلے میں جو بات سب سے اہم ہے وہ یہ کہ عدالت نے ہندو فریق کے اس مطالبے کو جائز قرار دیا ہے جس کے تحت 1958 کے آثار قدیمہ ایکٹ کی دفعہ 18 کے تحت مسجد میں داخلہ اور پوجا کرنے کی اجازت مانگی گئی تھی ۔ ہائی کورٹ کے فیصلے نے اس سوال کو جنم دے دیا ہے کہ کیا گیان واپی مسجد کی طرح ہی سنبھل جامع مسجد میں ہندو فریق کو داخلے اور اس میں پوجا کرنے کا اختیار مل جائے گا ؟ 45 صفحات پر مشتمل اپنے غیر معمولی فیصلے میں عدالت نے بار بار ہندو فریق کی طرف سے کئے گئے دعوؤں کا حوالہ دیا ہے ۔عدالت نے سنبھل جامع مسجد کے ساتھ ہری ہر مندر کا لاحقہ استعمال کیا ہے اور مسجد کو ایک متنازعہ مقام قرار دیا ہے ۔فیصلے کے پیرا نمبر چار میں عدالت نے مسجد کو ایک مندر کے طور پر تسلیم کیا ہے ۔عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ
’’دعوے کے مطابق شہر سنبھل کے قلب میں صدیوں پرانا ’ شری ہرِ ی ہر مندر‘ واقع ہے جو بھگوان کلکی کو منسوب ہے اور جسے زبردستی اور غیرقانونی طور پر جامع مسجد کمیٹی، سنبھل کے ذریعے استعمال کیا جا رہا ہے۔ سنبھل ایک تاریخی شہر ہے اور ہندو شاستروں کے مطابق اسے ایک مقدس مقام مانا جاتا ہے جہاں بھگوان وشنو کا کلکی اوتار مستقبل میں ظہور کرے گا۔ کلکی کو بھگوان وشنو کا دسواں اور آخری اوتار مانا جاتا ہے جو کل یُگ میں آئے گا‘‘
اسی طرح فیصلے کے پیرا نمبر سات میں تاریخ کے حوالوں سے عدالت نے یہ بھی کہا ہے کہ سنبھل جامع مسجد مندر کے طور پر پہلے سے ہی موجود تھی ۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ
’’بابرنامہ وہ ڈائری ہے جو بابر نے ترکی زبان میں لکھی تھی، جس کا ترجمہ انیٹ سوزانہ بیورِج نے کیا، جس میں ذکر ہے کہ بابر جولائی 1529 میں سنبھل آیا تھا۔ مزید کہا گیا ہے کہ بعد میں ہندوؤں نے مسلمانوں سے مندر کو دوبارہ حاصل کیا اور اس کی بحالی کی، جس کا ثبوت اکبر کے دور حکومت میں ابوالفضل کے لکھے گئے آئینِ اکبری میں ملتا ہے، جو 1589 سے 1600 کے درمیان لکھی گئی‘‘
ہائی کورٹ کے فیصلے میں یہ اہم بات بھی ہے کہ محکمہ آثار قدیمہ کو مسجد کا سروے کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے اور ہندو فریق کے مسجد میں داخل ہونے اور اس میں پوجا کرنے کے حق کو تسلیم کیا گیا ہے ۔
ہائی کورٹ نے ہندو فریق کی درخواست پر ایڈووکیٹ کمشنر کی تقرری اور 19 نومبر سے 24 نومبر 2024 تک کئے گئے سروے پر مسجد انتظامیہ کمیٹی کے اعتراضات کو مسترد کر دیا ہے۔ عدالت نے کہا ہے کہ سروے کمیشن کی رپورٹ ابھی ثبوت کے طور پر منظور نہیں کی گئی ہے۔ اسے بطور ثبوت قبول کرنے سے پہلے ہندو اور مسلم فریقوں کو اپنے اپنے اعتراضات درج کرانے کا پورا موقع ملے گا ۔فیصلے میں مسلم فریق کی جانب سے دیوانی مقدمے کو عبادت گاہوں کے قانون کے تحت ممنوع قرار دینے کی دلیل بھی قبول نہیں کی گئی۔ عدالت نے کہا کہ مدعی ( ہندو فریق )نے مذہبی مقام کو تبدیل کرنے کی مانگ نہیں کی ہے بلکہ صرف 1958 کے قدیم آثار اور آثار قدیمہ ایکٹ کی دفعہ 18 کے تحت مسجد میں داخلہ اور پوجا کے حق کی مانگ کی ہے۔
واضح رہے کہ 19نومبر 2024 کو سپریم کورٹ کے وکیل ہری شنکر جین کی طرف سے ان کے بیٹے وکیل وشنو شنکر جین اور سنبھل کے کیلا دیوی مندر کے مہنت رشی راج گیری سمیت آٹھ مدعیان نے چندوسی کی دیوانی جج کی عدالت میں جامع مسجد کے ہری ہر مندر ہونے کے دعوے کو لے کر مقدمہ دائر کیا تھا۔ اس میں جامع مسجد کے احاطے کا سروے کرنے کے لیے کورٹ سے کمشنر کی تقرری اور سروے کی ویڈیوگرافی اور فوٹوگرافی کروانے کی درخواست کی گئی تھی۔ عدالت نے فوری طور پر کمیشن تشکیل دے کر رپورٹ طلب کی تھی۔مسجد کمیٹی نے ایڈووکیٹ کمشنر اور سروے کے حکم کو جلد بازی میں لیا گیا جانبدارانہ فیصلہ قرار دیا تھا۔ ساتھ ہی اعتراض کیا کہ سروے کا حکم ایک دن کے لیے تھا لیکن دو دن کیا گیا۔ اس پر عدالت نے کہا کہ ٹرائل کورٹ کی طرف سے دفعہ 80(2) کے تحت دی گئی چھوٹ مناسب تھی۔ مدعی نے اپنی درخواست میں آثار قدیمہ کو ممکنہ نقصان اور فوری ضرورت کو واضح طور پر پیش کیا تھا۔ جب سروے کمیشن کا کام پہلے دن مکمل نہ ہو سکا تو دوسرے دن مکمل کرنا مناسب تھا۔
24 نومبر کو تنازع کے بعد جامع مسجد کی انتظامیہ کمیٹی نے سپریم کورٹ میں عرضی دائر کر کے سروے پر پابندی لگانے کی مانگ کی تھی۔ سپریم کورٹ نے نچلی عدالت کی کارروائی کو روک کر ہائی کورٹ کو سماعت کا حکم دیا تھا۔ جامع مسجد کمیٹی کی سروے پر پابندی کی عرضی اب خارج کر دی گئی ہے ۔
الہ آباد ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں سنبھل کی تاریخی جامع مسجد سے متعلق مقدمے کو قابل سماعت قرار دیتے ہوئے سروے کے حکم کو بھی درست قرار دیا ہے۔ عدالت نے کہا کہ تاریخی اور ٹھوس حقائق کی بنیاد پر تاریخی ورثے کے دعوے کو نظر انداز کرنا انصاف کی روح کے خلاف ہوگا۔ لہٰذا یہ جانچ ضروری ہے کہ متنازعہ مقام مسجد ہے یا مندر۔ اس تبصرے کے ساتھ جسٹس روہت رنجن اگروال کی عدالت نے مسجد کمیٹی کی جانب سے دیوانی مقدمے کی قابل سماعت ہونے اور سروے کے حکم کو چیلنج کرنے والی نظرثانی عرضی کو مسترد کر دیا اور معاملہ نچلی عدالت کے سپرد کر دیا ہے۔