ناجنس اور اسلام‘ نامی کتاب کا اجرا،نفسیاتی، سماجی اور اسلامی نقطہ نظر سے جنسی رجحان کا تنقیدی جائزہ
امیر جماعت سید سعادت اللہ حسینی،ڈاکٹر ظفر الاسلام خان و دیگر اہم شخصیات کا خطاب

دعوت ویب ڈیسک
نئی دہلی ،11 مئی:۔
گزشتہ روز جمعرات کو بعد نماز مغرب جماعت اسلامی ہند کے میڈیا ہال میں ایک الگ اور خاص طور پر اردو میں انتہائی کم یاب موضوع ہم جنس پرستی کے موضوع پر مبنی کتاب "ناجنس اور اسلام : انحرافی جنسی رویوں(+LGBTQAI) کا نفسی معاشرتی بیانیہ” کے رسم اجراء کی تقریب عمل میں آئی۔جس میں امیر جماعت اسلامی ہند سید سعادت اللہ حسینی ،ڈاکٹر ظفر الاسلام خان اور دیگر اہم شخصیات نے نہ صرف شرکت کی بلکہ اس موضوع اور کتاب پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
اس کتاب کے مصنف ہیں سینٹر فار ریسرچ اینڈ اسٹڈیز کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد رضوان ۔ اس تقریب سے خطاب کرنے والوں میں صاحب کتاب ڈاکٹر محمد رضوان کے علاوہ ڈاکٹر محی الدین غازی، ایس امیر الحسن، ڈاکٹر ظفر الاسلام خان، سید سعادت اللّٰہ حسینی شامل تھے۔مقررین نے اس موضوع پر انتہائی مفید اور پر مغز خطاب کیا اور کتاب کو اس عصری فتنے کو سمجھنے ،اس کے سماجی مضمرات کو جاننے کیلئے انتہائی مفید قرار دیا۔
جماعت اسلامی ہند کے امیر سید سعادت اللہ حسینی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر رضوان کی کتاب نا جنس اور اسلام "حیاتیات، جینیات، سماجیات، طب، تجربات اور کیس اسٹڈیز کے ذریعے اس پیچیدہ موضوع کا کثیر الجہتی تجزیہ پیش کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ مسئلہ انفرادی رویے تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ ایک وسیع تر تہذیبی بحران کی علامت ہے۔
انہوں نے اسلامی تہذیب کو سماجی ذمہ داری اور اجتماعیت پر مبنی قرار دیا، جب کہ مغربی تہذیب کو لذت، عیش و عشرت اور انفرادی خواہشات پر مبنی دیکھا گیا۔ انہوں نے کہا کہ مغرب میں شادی کے ادارے کو کمزور کر دیا گیا ہے اور لیو ان ریلیشن شپ کو فروغ دیا گیا ہے، ہم جنس پرستی کو معمول بنا لیا گیا ہے اور اب مصنوعی یا غیر انسانی متبادل کو بھی قبول کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے اسے انسانی تہذیب کے لیے سنگین خطرہ قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ اسلام حقوق کو وسیع تر سماجی مقاصد کے حوالے سے دیکھتا ہے۔ ایک مثال دیتے ہوئے انہوں نے واضح کیا کہ جس طرح کوئی شخص کسی بھی ملک جانے کا دعویٰ کر سکتا ہے لیکن اسے ویزا حاصل کرنے کی ضرورت ہے، اسی طرح معاشرے کے تحفظ کے لیے جنسی آزادی پر پابندیاں بھی ضروری ہیں۔
حسینی کے مطابق، خاندانی نظام کے تحفظ کے لیے، جنسی تعلقات کو صرف ایک مرد اور عورت کے درمیان شادی کی حدود تک محدود رکھنا چاہیے۔ اس پابندی کا اطلاق نہ صرف ایل جی بی ٹی کیو کمیونٹی پر ہوتا ہے بلکہ مرد اور عورت کے درمیان ازدواجی تعلقات پر بھی لاگو ہوتا ہے اگر وہ خاندانی اقدار کو نقصان پہنچاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ایل جی بی ٹی کیو نظریہ نہ صرف شخصی آزادی کا مطالبہ کرتا ہے بلکہ معاشرے اور ریاست سے فعال تعاون بھی چاہتا ہے جو کہ انسانی معاشرے کے استحکام کے لیے مہلک ہے۔
ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نےنا جنس کے وجود اور تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے اپنے خطاب میں کہا کہ "مدون 7 سو سالہ تاریخ میں ایل جی بی ٹی کیو اے آئی کو پچھلے دو سو برسوں میں زیادہ پرموٹ کیا گیا ہے۔ انقلاب فرانس 1917 کے بعد کیتھولک چرچ کے زوال سے اس کا عروج ہوا۔ پہلے اس طرح کی غیر اخلاقی حرکتوں پر پابندی تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ”مغرب کے کئی ملکوں میں اسٹیٹ بچوں کو گود لے کر باضابطہ ان کی پرورش کرتا ہے، ایسے بچے معاشرے کے لیے کیسے کار آمد ہوں گے جن کی پرورش ان کی ماؤں کے گود میں نہیں ہوئی ہے؟ افسوس کہ ہمارے یہاں کہ عدالتیں بھی وقتاً فوقتاً اس طرح کے لوگوں کے حق میں فیصلے دے دیتی ہیں۔ 2008 کے بعد سے کسی خاص مہینے میں یہ لوگ دہلی کی سڑکوں پر اپنا جلوس بھی نکالتے ہیں۔ اس کے باوجود مغربی ممالک کی بنسبت ہمارا ملک اس قبیح اور شنیع فعل سے بہت حد تک محفوظ ہے۔
انہوں نے کتاب پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عصرِ حاضر کے اس بڑے فتنے کو سمجھنے کے لیے یہ کتاب نہایت ہی مفید اور کار آمد ہے۔ کیوں کہ اس میں صرف اسلامی نقطۃ نظر ہی نہیں بلکہ اہل کتاب میں سے عیسائیت اور چرچ وغیرہ کے نقطۂ نظر کو بھی شمولیت دی گئی ہے۔ کمال کی بات یہ ہے کہ اس کتاب میں LGBTQAI کے حاملین، مؤیدین اور معتقدین کے دلائل پیش کرکے ان کا الزامی جواب بھی دیا گیا ہے، میرا خیال سے یہ حصہ پوری کتاب کا ماحصل ہے۔
انہوں نے موجود حالات میں اس فتنے کے عروج اور بحث میں اضافہ کے موضوع پر بھی روشنی ڈالی اور اس کے وجوہات کی طرف اشارہ کیا کہ ہمارے کچھ فکشن رائٹرس، ایکٹوسٹ، ہیومن رائیٹس کے حاملین، مؤدین اور پیروکار بحیثیتِ انسان ان کے حق حقوق کی آواز بلند کرتے کرتے خود انہیں کی گود میں جا بیٹھتے ہیں۔ یہ بہت ہی زیادہ افسوسناک صورت حال ہے۔ یقیناً اس طرح کے لوگوں کو بحیثیتِ انسان اسلام نے بہت سارے اختیارات دیئے ہیں اور ڈاکٹر محی الدین غازی کے بقول "ایسے لوگوں کو تو اسلام نے باقاعدہ شادی کرنے کے حقوق عطا کیے ہیں ۔ انہیں بھی عزت کے ساتھ جینے اور باوقار پیشہ اختیار کرنے کی مکمل آزادی حاصل ہے۔ لیکن ہر اسٹیٹ اور ریاست کے اپنے اپنے خود ساختہ قوانین ہوتے ہیں جس کی وجہ سے کئی طرح کی پریشانیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔رسم اجرا تقریب میں سامعین نے بھی خاطر خواہ تعداد میں شرکت کی جس میں دہلی کی مختلف یونیور سٹیوں میں زیر تعلیم طلبا اور ریسرچ اسکالر بھی موجود تھے۔