اپوزیشن اتحاد کی ناکام حکمت عملی، لوک سبھا انتخابات کے نتائج پر بے جا انحصار!

زمینی سرگرمیوں سے بے خبری کی بدولت مہاراشٹر میں بی جے پی کی بڑی جیت

نوراللہ جاوید

مسلم ووٹوں کا انتشار ۔سیاسی فتویٰ بازی سے پولرائزیشن کو تقویت۔ فرقہ پرستی اور نقدی اسکیمیں: انتخابات جیتنے کے ہتھیار؟
جھارکھنڈ میں مسلم ووٹروں کی خاموش حکمت عملی اور سول سوسائٹی تنظیموں کی کوششوں نے بی جے پی کے پروپیگنڈہ کو ناکام کیا
مہاراشٹر اور جھارکھنڈ اسمبلی انتخابات کے نتائج کے بعد کئی بنیادی سوالات ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ مہاراشٹر میں کلین سویپ کرنے والی بی جے پی جھارکھنڈ میں مقابلے میں بھی نہ آ سکی، حالانکہ دونوں جگہ حکمتِ عملی ایک جیسی تھی۔ دونوں ریاستوں میں فرقہ پرستی کے سہارے ووٹروں کو پولرائز کرنے کی کوشش کی گئی اور مسلمانوں کو ایک بڑے خطرے کے طور پر پیش کیا گیا۔
مہاراشٹر میں اسمبلی انتخابات کی مہم جب شباب پر تھی، اس وقت ٹاٹا انسٹیٹیوٹ آف سوشل سائنسز کے پرو وائس چانسلر کی قیادت میں ایک رپورٹ منظرِ عام پر آئی۔ اس رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ ممبئی اگلے چند سالوں میں مسلم اکثریتی شہر بن جائے گا اور ہندو آبادی اقلیت میں آ جائے گی۔ بنگلہ دیشی دراندازوں اور روہنگیا کو بھی ایک بڑے خطرے کے طور پر پیش کیا گیا۔ یہ سوال اہم ہے کہ کیا ٹاٹا انسٹیٹیوٹ آف سوشل سائنسز جیسے ادارے کو انتخابی مہم کا حصہ بننا چاہیے تھا یا نہیں۔ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ اس رپورٹ کے اثرات جاننے کے باوجود اتنا بڑا دعویٰ اور نتیجہ محض تین سو افراد کے انٹرویوز کی بنیاد پر اخذ کیا گیا۔
مہاراشٹر کے مقابلے جھارکھنڈ میں بھی یہی کھیل کھیلا گیا۔ ریاست کی چوبیس فیصد قبائلی آبادی کو یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ مسلمان ان کی زمینیں چھین رہے ہیں اور قبائلی علاقوں میں بنگلہ دیشی درانداز بس رہے ہیں۔ مہاراشٹر میں جہاں یوگی آدتیہ ناتھ "بٹو گے تو کٹو گے” کے نعرے لگا رہے تھے وہیں جھارکھنڈ میں ہمانتا بسوا سرما اس نعرے کو دہرا رہے تھے۔ جھارکھنڈ کے سنتھال پرگنہ کے مسلم اکثریتی علاقے میں سرما نے نفرت انگیز بیانات کی حدیں پار کر دیں، جبکہ وزیرِ اعظم نے اپنی ریلی میں رہی سہی کسر پوری کر دی۔ سوال یہ ہے کہ فرقہ پرستی کا یہ کھیل مہاراشٹر میں کامیاب ہوا، جہاں لوک سبھا انتخابات میں این ڈی اے اتحاد کو زبردست ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا، لیکن جھارکھنڈ میں جہاں لوک سبھا انتخابات میں این ڈی اے نے زیادہ نشستیں حاصل کی تھیں وہ کیوں شکست سے دوچار ہوا؟
اگر دونوں ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے نتائج کا تجزیہ اسی بنیادی سوال کی بنیاد پر کیا جائے تو یہ سمجھنا آسان ہو جائے گا کہ مہاراشٹر میں کلین سویپ کرنے والی بی جے پی جھارکھنڈ جیسی چھوٹی ریاست میں کیوں ناکام ہوئی۔ فرقہ پرستی الیکشن کمیشن کے ذریعے مواقع فراہم کرنے اور ذات پات کی بہترین صف بندی کے باوجود بی جے پی ہیمنت سورین کو روکنے میں ناکام رہی۔
مہاراشٹر اور جھارکھنڈ دونوں جگہ بی جے پی کی حکمت عملی کا محور چار "سی” تھے، یعنی Communalism, caste, cash, and crops): فرقہ پرستی، ذات کی بنیاد پر صف بندی، ووٹروں کو نقدی اسکیم کے ذریعے لبھانے کی کوشش اور کسانوں کو خوش کرنے کے لیے مختلف اسکیموں اور وعدے۔ جھارکھنڈ کے مقابلے میں مہاراشٹر کی معیشت کہیں زیادہ بہتر ہے۔ غربت اور معیشت کے لحاظ سے جھارکھنڈ، مہاراشٹر کے مقابلے میں انتہائی پسماندہ ہے۔ اس کے باوجود مہاراشٹر کی 2.34 کروڑ خواتین کے اکاؤنٹ میں 7,500 روپے نقد منتقل کیے گئے جس کا بی جے پی کو انتخابات کے دوران راست فائدہ ملا۔
سوال یہ ہے کہ اگر این ڈی اے اتحاد کی جیت کے پیچھے "مکھیہ منتری ماجھی لاڈکی بہن یوجنا” کا کردار ہے، اور 2019 کے مقابلے چھ فیصد زیادہ خواتین نے ووٹ دیا ہے تو کیا یہ مان لیا جائے کہ خواتین نے صرف نقد رقم کے لالچ میں ووٹ دیے تھے؟ میرے خیال میں خواتین کی اس سے بڑھ کر کوئی توہین نہیں ہو سکتی۔ کیا اب ملک میں انتخابات ریوڑیاں تقسیم کرکے ہی جیتے جائیں گے؟ اگر خواتین نے نقد رقم کے لالچ میں ووٹ دیے ہوتے تو پھر کانگریس اور شیوسینا اتحاد کے اس اسکیم کو تین ہزار روپے تک بڑھانے کے وعدے پر خواتین نے انہیں ووٹ کیوں نہیں دیا؟
اس لیے بی جے پی اتحاد کی جیت کے پیچھے اس نقد اسکیم کو اصل ہیرو قرار دینا تصویر کا ایک رخ ہو سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ خواتین کے ایک گروپ نے اس بنیاد پر ووٹ دیا ہو، لیکن یہ دعویٰ کرنا کہ 2.34 کروڑ خواتین صرف نقدی اسکیم کی وجہ سے بی جے پی کو ووٹ دینے پر مائل ہوئیں، خود فریبی اور اپوزیشن جماعتوں کی اپنی نااہلی کو چھپانے کے مترادف ہے۔
مہاراشٹراور جھارکھنڈ اسمبلی انتخابات کے نتائج نے ایک بار پھر جمہوریت اور طرز جمہوریت کے امکانات اور مستقبل کو لے کر سوالات کھڑے کردیے ہیں۔سیاسی تجزیہ نگار یوگیندر یادو کے اس تجزیے سے اتفاق کیا جاسکتا ہے کہ لوک سبھا انتخابات نے جمہوریت، آزادی اور آئین کے تحفظ کی جو امیدیں جگائیں تھیں ان پر ہریانہ اور مہاراشٹر کے نتائج سے سیاہ بادل چھاگئے ہیں۔اس انتخاب میں الیکشن کمیشن کا کردار سب سے کم زور نظر آیا۔اگر اس دعویٰ کو سچ مان لیا جائے کہ ’مکھیہ منتری ماجھی لاڈ کی بہن یوجنا‘‘ کا بی جے پی کے کلین سویپ میں بڑا کردار تھا تو پھر سیاسی تجزیہ نگار گریش کوبیر کی یہ بات درست ہے کہ اس اسکیم کے کھیل کو بدلنے والے اثرات کا اصل سہرا اسمبلی انتخابات میں تاخیر کے لیے الیکشن کمیشن کو جانا چاہیے۔ کیوں کہ ہریانہ اور جموں و کشمیر کے ساتھ انتخابات کرانے کے بجائے کمیشن نے تاخیر سے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا اور اس سے ریاست کو چار سے پانچ ماہ کے فوائد کی قسطیں خواتین کے بینک کھاتوں میں منتقل کرنے کا موقع مل گیا ۔دوسری طرف جھارکھنڈ کے وزیر اعلیٰ ہیمنت سورین نے بار بار کمیشن سے درخواست کی کہ جھارکھنڈ اسمبلی انتخابات کی تاریخ کا اعلان وقت پر کیا جائے۔ان کی حکومت کو مکمل پانچ سال کا وقت دیا جائے کیوں کہ اس سال کے شروع میں گرفتاری کے بعد سورین کو وزارت اعلیٰ کے عہدہ سے استعفیٰ دینا پڑاتھا اور اپنی جگہ چمپئی سورین کو وزیر اعلیٰ بنایا مگر چمپئی سورین ریاست کے مقبول وزیر اعلیٰ بننے کی کوشش کرنے کے بجائے بی جے پی کے ہاتھوں میں کھیلنے لگے اور جھاڑ مکتی مورچہ کو بچانے کے لیے سورین کو جیل سے رہائی کے بعد دوبارہ وزیر اعلیٰ بننا پڑا۔سورین نے دوبارہ وزارت اعلیٰ کی کرسی سنبھالنے کے بعد متعدد فلاحی اسکیموں پر زیادہ توجہ مرکوز کی۔ اہم اسکیم ’’میا سمان یوجنا ‘‘اگست میں شروع کیا گیا ۔اس اسکیم کے تحت اکیس سے پچاس سال کی خواتین کو ماہانہ ایک ہزار روپے دیے جاتے ہیں۔ اکتوبر میں اس اسکیم کا مقابلہ کرنے کے لیے بی جے پی نے اعلان کیا تھا کہ اگر وہ اقتدار میں آئی تو وہ ایک اسکیم شروع کرے گی جس کے تحت خواتین کو اکیس سو روپے دیے جائیں گے۔سورین نے فوری طور پر اس نعرے کا مقابلہ کرنے کیلے اس رقم کو بڑھا کر ڈھائی ہزار روپے دینے کا اعلان کر دیا۔ سورین کی کوشش تھی کہ انہیں ڈھائی ہزار روپے فراہم کرنے کا موقع مل جائے مگر الیکشن کمیشن نے مہاراشٹر کے ساتھ جھارکھنڈ میں کئی ہفتے قبل انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر دیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ کمیشن نے جو موقع مہاراشٹر کو دیا وہ موقع جھارکھنڈ میں کیوں نہیں دیا۔ انتخابی جمہوریت میں جو چیز سب سے اہم ہے، وہ یہ ہے کہ انتخابات میں حصہ لینے کے لیے تمام سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کو لیول فیلڈنگ فراہم کرے مگر کمیشن نے جان بوجھ کر اس کی خلاف ورزی کی۔چوں کہ جھارکھنڈ میں انتخابی موسم سے بہت قبل ہی کئی فلاحی اسکیموں کی شروعات ہوچکی تھی اور عوام کو اس فائدہ مل رہا تھا اس لیے کمیشن کے ذریعہ قبل از وقت انتخابات کرانے کے اعلان کا نقصان نہیں ہوا۔ 2019 میں اقتدار میں آنے کے بعد ہی جے ایم ایم کی قیادت والی حکومت نے مرکزی حکومت کی پنشن اسکیم، نیشنل سوشل اسسٹنس پروگرام میں اصلاحات متعارف کروائیں۔مرکز کی پنشن کی رقم تین زمروں کے لیے دو سو سے پانچ سو روپے کے درمیان ہے۔ بڑھاپا پنشن، بیوہ پنشن اور معذوری پنشن۔ جھارکھنڈ حکومت نے اس رقم کو بڑھا کر یکساں طور پر ایک ہزار روپے کر دیا اور پنشن اسکیموں کے پانچ زمرے بنائے۔ بڑھاپے کی پنشن، خاص طور پر کمزور قبائلی گروپ کی پنشن، بے سہارا خواتین کی پنشن، ایچ آئی وی ایڈز کے مریضوں کی پنشن اور معذوری کی پنشن۔ 2019 تک یعنی گزشتہ بی جے پی کے دور حکومت میں چھ لاکھ افراد اس پنشن اسکیم سے مستفیض ہوتے تھے مگر 2024 میں اس کا دائرہ کار چالیس لاکھ افراد تک پہنچ گیا ہے۔ظاہر ہے کہ ایک بڑی آبادی کو کوریج کیا گیا تھا۔
ریاستی اسمبلی انتخابات میں فلاحی اور نقد روپے کے ٹرانسفر کرنے کی اسکیمیں کس قدر فائدہ پہنچاتی ہے یہ ایک قابل غور چیز ہے۔ کیوں کہ اپوزیشن جماعتیں بھی اس سے بڑھ کر فلاحی اسکیموں کا وعدہ کرتی ہیں۔ اہم سوال یہ ہے کہ چھتیس گڑھ اور راجستھان میں گزشتہ کانگریس حکومت نے کئی فلاحی اسکیموں کی شروعات کی۔بڑے پیمانے پر کسانوں کے قرض معاف کیے اس کے باوجود اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔اس سے واضح ہوتا ہے کہ انتخابات میں جیت اور ہار کے کچھ اور بھی عوامل ہیں جو کسی بھی سیاسی جماعت کی جیت اور ہار میں کردار ادا کرتے ہیں۔ انتخابی تجزیہ کار یوگیندر یادو مہاراشٹر میں کانگریس اتحاد کی شکست کے لیے خود اس کو ہی مورد الزام ٹھیراتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مہاوکاس اگھاڑی شہریوں کو درپیش چیلنجوں کو انتخابی بیانیہ میں تبدیل کرنے میں ناکام رہی۔عوام کے حقیقی شکایات، حقیقی مسائل تھے مگر کانگریس اتحاد انہیں انتخابی مسائل میں تبدیل کرنے میں ناکام رہا۔ بی جے پی کی سب سے بڑی کامیابی یہ تھی کہ وہ اسے ہائپر لوکل الیکشن میں تبدیل کرنے میں کامیاب رہی۔ اس نے اس بات کو یقینی بنایا کہ دیگر پسماندہ طبقات کی فہرست میں کمیونٹی کو شامل کرنے میں ناکام رہنے پر حکم راں اتحاد سے ناراض ہونے کے باوجود مراٹھا مہا وکاس اگھاڑی مضبوط نہیں ہوئی۔ بی جے پی نے خاموشی سے او بی سی اور سب سے زیادہ پسماندہ دلتوں کو مضبوط کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ انہیں اندازہ تھا کہ این ڈی اے حکومت کی واپسی ہوگی مگر جیت جس پیمانے پر ہوئی ہے اس سے حیران ہیں۔دونوں پارٹیوں کے درمیان پندرہ فیصد ووٹ کا فرق خوف ناک اور عجیب ہے۔اعداد و شمار کا قریب سے مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔
یوگیندر یادوہ جس طرف خاموشی سے اشارہ کر رہے ہیں وہ واقعی قابل غور ہے کہ گزشتہ پانچ مہینوں میں آخر کیا ہوگیا کہ ریاست کے عوام کے مزاج میں اس قدر تبدیلی آئی ہے؟ نانڈیڑ لوک سبھا حلقے میں ضمنی انتخاب ہوئے وہاں کانگریس کی جیت ہوئی مگر اسی حلقے کے تمام چھ اسمبلی حلقے میں شکست ہوئی اور شکست کا فرق بھی کم ہے۔ سوال یہ ہے کہ جن ووٹروں نے لوک سبھا کے کانگریس امیدوار کو کامیاب کیا انہی ووٹروں نے نے اسمبلی کے لیے کانگریس کے خلاف ووٹنگ کیوں کی؟ دوسرے یہ کہ مہاراشٹر میں زمینی سطح پر رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کے اس بیان کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ لاڈکی بہن اسکیم کا کچھ اثر نظر آرہا تھا مگر ایسی کوئی لہر نظر نہیں آرہی تھی کہ ریاست سے اپوزیشن کا صفایا ہو جائے۔این ڈی ٹی وی کے سابق صحافی سدھیر مشرا کہتے ہیں کہ 2014 میں مودی لہر میں بھی بی جے پی کو اتنی بڑی جیت نہیں ملی۔ کانگریس کے کئی چہرے اس لہر کے باوجود اپنا قلعہ بچانے میں کامیاب ہوگئے تھے مگر اس مرتبہ ان کا صفایا ہوگیا۔ چوں کہ ای وی ایم مشین میں گڑبڑی کے کوئی پختہ ثبوت نہیں ہیں اس لیے یہ بات حتمی طور پر نہیں کہی جاسکتی ہے ای وی ایم نے انتخابات پر کیا اثر ڈالے ہیں۔لوک سبھا انتخابات کی طرح مہاراشٹر اسمبلی انتخابات میں کمیشن کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق شام چھ بجے تک اٹھاون فیصد ووٹنگ کا اعلان کیا گیا مگر بعد میں آٹھ فیصد کا اضافہ کر دیا گیا۔ایک دو فیصد کی کی کمی اور زیادتی ہوسکتی ہے مگر آٹھ فیصد کا فرق کئی شکوک و شبہات کی طرف لے جاتا ہے۔ہریانہ اور مہاراشٹر انتخابات نے ایک بار پھر انتخابی نظام میں شفافیت اور اصلاحات کی ضرورت کو اجاگر کردیا ہے۔ای وی ایم مشین کے استعمال پر رائے عامہ قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
سیاسی تجزیہ نگار گریش کوبیر کہتے ہیں کہ بی جے پی کی دو جہتی حکمت عملی تھی۔ ایک طرف زیادہ دھوم دھام کے بغیر اس نے سوشل انجینئرنگ پر کام کیا۔زیادہ سے زیادہ سماجی گروپوں کو اپنے دائرے میں لایا اور دوسری طرف اس نے فرقہ وارانہ ہتھوڑے کا استعمال کیا۔ جس میں یوگی آدتیہ ناتھ ’’بٹوگے سے کٹوگے‘‘ کا نعرہ لگا رہے تھے۔ شروع میں یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ فرقہ وارانہ کارڈ کا مہاراشٹر میں زیادہ اثر نہیں کرے گا لیکن ایسا نہیں تھا ۔ اسمارٹ طریقے سے ذات پات کی حکمت عملی کے ساتھ ساتھ انتخابات کو فرقہ وارانہ رنگ سے بی جے پی کوبڑا فائدہ ملا۔مہاراشٹر ملک کی ان ریاستوں میں سے ایک ہے جہاں سب سے زیادہ نفرت انگیز جرائم کے واقعات پیش آئے۔یہاں گزشتہ ایک سال میں ہندتوا جماعتیں سب سے زیادہ سرگرم رہی ہیں۔ چھوٹے چھوٹے فرقہ وارانہ واقعات رونما ہوئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس کا راست اثر اسمبلی انتخابات پر پڑنے والا تھا۔ لوک سبھا انتخابات کے بعد ہی بی جے پی نے جھارکھنڈ میں بنگلہ دیشی مسلم در اندازوں کا ایشو اٹھانا شروع کر دیا تھا۔ سنتھال پرگنہ جہاں قبائلیوں اور مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ہے وہاں بی جے پی اور آر ایس ایس دونوں سرگرم تھی۔مدھیہ پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ نے تو جھارکھنڈ میں این آر سی نافذ کرنے کا وعدہ تک کردیا تھا۔رہی سہی کسر آسام کے وزیر اعلیٰ اور جھارکھنڈ کے شریک انچارج ہمانتا بسوا سرما اپنے تیز و تند اور زہریلے بیانات سے پوری کر رہے تھے۔پوری مشنری انتخابی مہم کو فرقہ وارانہ رنگ دینے میں سرگرم تھی مگر اس کے باوجود ہیمنت سورین نے قبائلیوں کو گمراہ نہیں ہونے دیا اور تمام ریزور سیٹیوں پر کامیابی حاصل کی۔چمپئی سورین جنہوں نے موقع پرستی کا ثبوت دیا اور احسان مند ہونے کے بجائے عین انتخابات سے قبل جے ایم ایم چھوڑ کر بی جے پی میں چلے گئے ۔بی جے پی انہیں کولہان کا ٹائیگر کے طور پر پیش کر رہی تھی، وہ اگرچہ اپنی روایتی سیٹ بچانے میں کامیاب ہوگئے مگر اپنے بیٹے کو کامیاب نہیں کراسکے۔ اسی طرح سابق وزیر اعلیٰ مدھوکوڑا اور سابق وزیر اعلیٰ ارجن منڈا کی بیویاں بھی جیت نہیں سکیں۔سوال یہ ہے کہ کیا ہیمنت سورین نے صرف اپنی حکمت عملی سے قبائلیوں کو بی جے پی کے پروپیگنڈہ سے متاثر نہیں ہونے دیا یا اس کے پیچھے کچھ سماجی تحریکوں کا بھی رول تھا۔ہیمنت سورین جب جیل میں تھے اس وقت بی جے پی پوری شدت کے ساتھ بنگلہ دیشی مسلم دراندازوں، قبائلیوں کی زمین چھیننے جیسے ایشوز کو اٹھا رہی تھی۔ اس وقت بی جے پی کے اس بیانیہ کو جھارکھنڈ کی سماجی تنظیموں کی وفاقی تنظیم ’’جھارکھنڈ جن ادھیکار مہاسبھا ‘‘جولائی میں ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی اور بی جے پی کے تمام دعوؤں کو مسترد کردیا، کیوں کہ یہ ایک غیر سیاسی تنظیم تھی، اس کا قبائلیوں پر اچھا خاصا اثر ہوا۔یہ تنظیم لگاتار قبائلیوں کے درمیان کام کرتی رہی ۔یہی وجہ ہے کہ بی جے پی کی پروپیگنڈہ مشنری کام نہیں کرسکی۔ مہاراشٹر میں بی جے پی، ہندتوا تنظیموں کے نفرتی مہم کا مقابلہ کرنے کے لیے کوئی سماجی تنظیم کام نہیں کر رہی تھی بلکہ سیاسی سطح پر بھی اس کا مقابلہ نہیں کیا جا رہا تھا۔
راشٹروادی کسان کرانتی دل کے صدر امریش مشرا مہاراشٹر کے نتائج پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’2024 لوک سبھا کے رجحانات پر انحصار، لوگوں کے مسائل کو بڑھانے میں ناکامی، ٹوکن ازم سے بالاتر ہو کر کاشتکاروں کو متحرک کرنے میں عدم دل چسپی، اسرائیل کے وحشیانہ کارروائی کی مذمت کرنے سے گریز، غزہ پر ایک لفظ بولنے سے احتراز شکست کی اہم وجوہات ہیں۔آگے وہ لکھتے ہیں کہ ’’سینٹرسٹ سیاست‘‘ مر چکی ہے۔آپ بھارت میں مزاحمت کے محور کی تعمیر کے بغیر بی جے پی کی کی نمائندگی کرنے والی برائی کے محور کو شکست نہیں دے سکتے۔ بی جے پی نے لاڈلی بہن یوجنا کے ذریعہ خواتین کے اعتماد کو اگر جیتا تو ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ سیکولر فورسز نے کسانوں اور خواتین میں بنیادی شعور پیدا کرنے کی ذمہ داری ادا نہیں کی۔ جھارکھنڈ میں جے ایم ایم اور کانگریس اتحاد نے کامیابی حاصل کی کیوں کہ انہوں نے جزوی طور پر قبائلیوں کو متحرک کرنے اور مزاحمتی قوتوں کے ساتھ تال میل قائم کیا تھا اور نتیجتاً ہاری ہوئی بازی جیت لی گئی۔
لوک سبھا انتخابات کے دوران مسلم تنظیموں اور جماعتوں نے خاموشی سے کام کیا مگر مہاراشٹر میں بی جے پی کی فرقہ پرست سیاست کا مقابلہ کرنے کے لیے حکمت عملی سے کام کرنے کے بجائے نعرے بازی، ہنگامہ آرائی پر زیادہ توجہ دی گئی۔اسمبلی انتخابات سے عین قبل توہین رسالت کے خلاف سابق ممبر پارلیمنٹ امتیاز جلیل کی قیادت میں اورنگ آباد سے ممبئی تک طویل جلوس نکالا گیا۔میڈیا نے اس کو ممبئی پر قبضہ کرنے کے عنوان سے تعبیر کیا اور آر ایس ایس کو اس بہانے مسلمانوں کو ایک بڑے خطرے کے طور پر پیش کرنے کا موقع مل گیا۔انتخابی مہم کے دوران اسدالدین اویسی کی جارحانہ انتخابی مہم اور مشہور عالم دین مولانا سجاد نعمانی کے ذریعہ امیدواروں کے حق میں بیان کو بی جے پی نے ’’ووٹ جہاد ‘‘ کانام دے کر اس کی بڑے پیمانے پر تشہیر کی۔ اگرچہ مولانا سجاد نعمانی کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے امیدواروں کا انتخاب ’وسیع تحقیق، زمینی سروے کی بنیاد پر کرتے ہوئے اپیل جاری کی ہے لیکن مولانا کے بیان میں اس کی تحقیق، سروے اور تجزیہ کے طریقہ کار، نمونے کے سائز یا تفصیلات سے متعلق کوئی تفصیلات فراہم نہیں کی گئی ہیں۔ مولانا نے اویسی کے حق میں بیان نہیں دیا اس کی وجہ سے مسلمانوں کے ایک بڑے طبقے نے ان کے خلاف گالی گلوج کا ایک ایسا سلسلہ شروع کیا کہ عین پولنگ سے قبل مسلم ووٹرس انتشار کے شکار ہو گئے۔
انتخابات کے دوران مسلم تنظیموں، جماعتوں اور مسلم رہنماؤں کو کسی خاص سیاسی جماعت کے حق میں اس طرح کی اپیل جاری کرنی چاہیے یا نہیں یہ الگ بحث ہے لیکن مسلم دانشوروں، کارکنوں اور سیکولر دانشوروں کے ایک گروپ نے انتخابی سیاست میں مولانا کی شمولیت پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔جامعہ ملیہ اسلامیہ میں اسلامی علوم کے سابق پرفیسر اخترالواسع کہتے ہیں کہ کسی بھی برادری کی طرف سے مذہبی شخصیات کی شمولیت سیکولر جمہوریت کے لیے اچھی نہیں ہے۔ جس طرح سے ہم نے غیر مسلموں کے ذریعہ مذہبی شخصیات کے سیاسی استعمال پر تنقید کی ہے، ہمیں کسی بھی مسلمان کے ذریعہ کی جانے والی ایسی حرکتوں پر بھی تنقید کرنا چاہیے۔
ممبئی کے رہنے والے اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ایلومنائی ایسوسی ایشن (مہاراشٹرا چیپٹر) کے صدر تنویر عالم کہتے ہیں کہ وہ مولانا سجاد نعمانی کی سیاسی سرگرمیوں، خاص طور پر اسمبلی انتخابات کے دوران، بہت مایوس ہیں۔ ہمیں سیاسی سرگرمیوں میں مسلم مذہبی شخصیات کی شمولیت کی سختی سے مخالفت کرنے کی ضرورت ہے۔ ہماری مخالفت اس لیے نہیں ہے کہ ہم کسی کی آواز کو خاموش کرانا چاہتے ہیں یا جن سے ہم اختلاف کرتے ہیں ان کو حق رائے دہی سے محروم کرنا چاہتے ہیں۔ مسلم کمیونٹی کا کوئی بھی عالم دین جو انتخابات کے دوران سرگرم ہو جاتا ہے اس پر گہری نظر رکھی جاتی ہے۔ محترم مولانا سے میرا اختلاف دو باتوں سے ہے۔ سب سے پہلے انہیں پوری امت مسلمہ کی طرف سے بولنے کا اختیار کس نے دیا ہے؟ دوسرا، مولانا جب انتہائی غیر ذمہ دارانہ بیانات دیتے ہیں تو وہ سیاسی سمجھ بوجھ کا دعویٰ کیسے کرسکتے ہیں جن کا فائدہ فرقہ پرست طاقتوں جی جانب سے اٹھایا جا سکتا ہے؟ مثال کے طور پر ایک وائرل ویڈیو گردش کر رہی ہے جس میں انہیں مبینہ طور پر یہ کہتے ہوئے سنا جاتا ہے کہ وہ بی جے پی کو ووٹ دینے والوں کا بائیکاٹ کریں گے۔ مجھے یقین نہیں ہے کہ ویڈیو مستند ہے یا نہیں، لیکن اگر یہ ہے تو اس نے فرقہ پرست طاقتوں کو واضح موقع دے کر مسلمانوں اور ملک دونوں کو نقصان پہنچایا ہے۔ (مولانا نے اپنی اس غلطی کا اعتراف کیا ہے مگر اس کی وضاحت بھی کی ہے)
مہاراشٹر میں مسلم ووٹوں کا انتشار کس حد تک تھا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مہاراشٹرا کی اڑتیس نشستوں میں جہاں مسلم آبادی بیس فیصد سے زائد ہے، بی جے پی اتحاد نے ان تمام سیٹوں میں سے بائیس سیٹوں پر جیت حاصل کی ہے۔ مجلس اتحاد المسلمین کے لیے یہ انتخاب مایوس کن رہا۔گزشتہ انتخاب میں اس نے چوالیس سیٹوں پر امیدوار اتارے تھے مگر اس مرتبہ محض سولہ سیٹوں پر امیدوار ستارے اور محض ایک سیٹ پر ہی اکتفا کرنا پڑا۔ مالیگاوں سنٹرل سے ایم آئی ایم کے امیدوار مفتی اسماعیل نے محض 162 ووٹوں سے جیت حاصل کی حالانکہ گزشتہ انتخاب میں وہ اڑتیس ہزار ووٹوں سے کامیاب ہوئے تھے۔ امتیاز جلیل بھی شکست سے دوچار ہوئے۔ جہاں تک مسلم نمائندگی کا سوال ہے تو اس مرتبہ بھی بی جے پی کو چھوڑ کر تمام سیاسی جماعتوں سے مسلم نمائندوں کو جیت حاصل ہوئی۔نمائندگی کی شرح 0.3فیصد یعنی کل دس امیدوار کامیاب ہوئے۔جب کہ مہاراشٹر میں مسلم آبادی کی شرح ساڑھے گیارہ فیصد ہے۔مہاراشٹرا میں مسلمان ممبران اسمبلی کی تعداد کبھی بھی تیرہ سے آگے نہیں بڑھ سکی جب 1972، 1980 اور 1999 میں دس سے زائد مسلم امیدوار کامیاب ہوئے تھے۔ سب سے کم 1995 میں آٹھ مسلم ممبران نے کامیابی حاصل کی تھی ۔اس مرتبہ مسلم ممبران اسمبلی کانگریس کے امین پٹیل، اسلم شیخ اور ساجد پٹھان ہیں۔ این سی پی کی ثنا ملک اور حسن مشرف،شیو سینا (یو بی ٹی) کے ہارون خان، شنڈے سینا کی عبدالستار، مجلس سے مفتی اسماعیل اور ایس پی کے ابو اعظمی اور شیخ ہارون خان نے کامیابی حاصل کی ہے۔ بڑے مسلم ناموں میں جو ہار گئے تھے ان میں این سی پی کے نواب ملک، ذیشان صدیقی اور کانگریس کے عارف نسیم خان تھے۔
مہاراشٹر کے مقابلے میں جھارکھنڈ میں مسلمانوں کی اس طرح کی کوئی سرگرمی نہیں تھی۔چند مسلم تنظییں خاموشی سے کام کر رہی تھیں۔ چناںچہ ووٹ جہاد جیسے نعرے لگانے کا بی جے پی کو موقع نہیں ملا۔لوک سبھا انتخابات کے بعد آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیموں نے ایک ہزار سے زائد چھوٹے اور بڑے پروگرام رکھے اور مہم چلائی مگر کوئی ہنگامہ آرائی، بڑے دعوے نہیں کیے بلکہ خاموشی سے کام کیا اور نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر مولانا سجاد نعمانی کو کام کرنا ہی تھا تو انہوں نے الیکشن سے قبل مسلمانوں اور دیگر طبقات کے درمیان سماجی ہم آہنگی قائم کرنے کے لیے خاموشی سے کام کیوں نہیں کیا؟ پولنگ سے عین قبل ہنگامہ آرائی کی ضرورت کیوں محسوس کی؟ کیا اس سوال کا ان کے پاس کوئی جواب ہے؟

 

***

 راشٹروادی کسان کرانتی دل کے صدر امریش مشرا مہاراشٹر کے نتائج پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’2024 لوک سبھا کے رجحانات پر انحصار، لوگوں کے مسائل کو بڑھانے میں ناکامی، ٹوکن ازم سے بالاتر ہو کر کاشتکاروں کو متحرک کرنے میں عدم دلچسپی، اسرائیل کے وحشیانہ کارروائی کی مذمت کرنے سے گریز اور غزہ پر ایک لفظ بولنے سے احتراز شکست کی اہم وجوہات ہیں۔ وہ آگے لکھتے ہیں کہ "سینٹرسٹ سیاست” مر چکی ہے۔ آپ بھارت میں مزاحمت کے محور کی تعمیر کے بغیر بی جے پی کی کی نمائندگی کرنے والی برائی کے محور کو شکست نہیں دے سکتے ہیں۔بی جے پی نےلاڈلی بہن یوجنا کے ذریعہ خواتین کے اعتماد کو جیتا کیوں؟ کیوں کہ سیکولر فورسز نے کسانوں اور خواتین میں بنیادی شعور پیدا کرنے کی ذمہ داری ادا نہیں کی۔جھارکھنڈ میں جے ایم ایم اور کانگریس اتحاد نے کامیابی حاصل کی کیوں کہ انہوں نے جزوی طور پر قبائلیوں کو متحرک کرنے اور مزاحمتی قوتوں کے ساتھ تال میل قائم کیا تھا اور نتیجتاً ہاری ہوئی بازی جیت لی گئی۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 01 دسمبر تا 7 دسمبر 2024